وفاقی حکومت نے گریڈ 19کے آفیسر ذیشان نذیر کو گریڈ 20میں ترقی دیدی WhatsAppFacebookTwitter 0 16 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)وفاقی حکومت نے گریڈ 19کے آفیسر ذیشان نذیر کو گریڈ 20میں ترقی دیدی ، وزارت قومی صحت نے وزیراعظم کی منظوری کے بعد اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔

تحریری احکامات کے مطابق ذیشان نذیر کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل /ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ ) سے ترقی دیتے ہوئے ڈرگ کنٹرولر/ ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا ہے ۔ ذیشان نذیر کی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی کے بعد 2002میں میرٹ پر تعیناتی ہوئی تھی ، وہ ڈریپ میں 23سال کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔

جس میں کوالٹی انشورنس سمیت اہم پالیسیاں پر عملدرآمد شامل ہیں ، انہوں نے 2022سے 2024تک بطور سیکرٹری رجسٹریشن بورڈ خدمات سر انجام دیں ، وہ 2سال بائیولوجیکل ڈرگ اور 19سالہ فیلڈ تجربے کے حامل ہیں ۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپوپ لیو کی حلف برداری، وزیراعظم شہباز شریف کوشرکت کا دعوت نامہ وصول پوپ لیو کی حلف برداری، وزیراعظم شہباز شریف کوشرکت کا دعوت نامہ وصول پاک،بھارت کشیدگی کے باوجود افغان تجارتی سامان کے ٹرک واہگہ کے راستے بھارت روانہ دشمن جنوبی ایشیا میں خود کو تھانیدار سمجھتا تھا، حکمت عملی سے دشمن کے ہوش اڑ گئے، وزیراعظم یوم تشکرکے سلسلے میں پاکستان مونومنٹ پرخصوصی تقریب، شاہینوں کا شاندار فلائی پاسٹ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کا نکاح جرم قرار، قومی اسمبلی سے بل منظور نئے مالی سال کا بجٹ 2جون کو پیش کیے جانے کا امکان، حکومت کی تیاریاں عروج پر، اہم اجلاس طلب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ذیشان نذیر کو

پڑھیں:

کراچی کی ترقی کے لیے …

سندھ حکومت نے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر وفاق کا اختیار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے وفاقی ادارئہ پاکستان انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (PICDL) کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ وفاق کا کوئی کام صوبے میں نہ کرے۔ محکمہ بلدیات کے سیکریٹری نے کمپنی حکام کے نام ایک خط میں تحریرکیا ہے کہ کمپنی صرف ان منصوبوں تک محدود رہے جو سابقہ پاک ورکس ڈپارٹمنٹ (PWD) سے منتقل ہوئے تھے۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی صدارت میں گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ اس کمپنی کی سرگرمیاں صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہیں۔ صوبائی سیکریٹری بلدیات کے خط میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ وفاق کی ترقیاتی کمپنی کراچی اربن انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ پیکیج اور حیدرآباد اربن انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ پیکیج جیسے صوبائی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ خط میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ کام صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس بارے میں وفاق کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی کے وسائل، کراچی کے عوام پر خرچ ہونے چاہئیں۔ کیا لاہور میں پی آئی سی ڈی ایل کام کرتی نظر آتی ہے؟ اور جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں آئیں گے شہر ترقی نہیں کرے گا۔ صوبائی حکومت کی ایماء پر بلدیہ کراچی نے گرین لائن کے توسیعی منصوبے پر کام رکوا دیا ہے۔ یہ منصوبہ پہلے مرحلے میں سید منزل کے قریب عید گاہ پر پہنچ کر مکمل ہونا ہے، جب کہ ایک اور راستے کے ذریعے گرین لائن بس روٹ کو ٹاور تک توسیع دیدی جائے گی۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں کراچی میں تعمیر ہونے والی گرین لائن چند سال قبل بڑا بورڈ سے نمائش تک مکمل ہوئی۔ ہر سال لاکھوں افراد اس گرین لائن کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اگر گرین لائن ٹاور تک پہنچ گئی تو یہ کراچی کے عوام کے لیے وفاق کا ایک بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ اسی طرح کراچی کو پانی فراہم کرنے والا میگا پروجیکٹ ’’کے فور‘‘ گزشتہ دو دہائیوں سے نامکمل ہے۔ اب وفاق کی مدد سے اس منصوبے کے مکمل ہونے کے امکانات ہیں مگر وفاق نے اس بار منصوبے کے لیے تخمینے سے کم رقم مختص کی ہے جس کی بناء پر اس منصوبے کے کام میں رکاوٹ پیدا ہونے کے خاصے امکانات ہیں۔

دراصل قصہ کچھ یوں ہے کہ پیپلز پارٹی کے سندھ میں اقتدارکو اس بار 15سال ہونے کو آئے ہیں، اس سے پہلے پیپلز پارٹی 1988سے 1999تک دو دفعہ اقتدار میں رہ چکی ہے مگر پیپلز پارٹی نے کراچی کی ترقی کو مکمل طور پر نظر اندازکیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گرین لائن کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کی تعمیر شروع ہوئی۔ تحریک انصاف کے دور میں گرین لائن مکمل ہوئی اور کراچی کے عوام کو ایک باعزت اور آرام دہ سواری میسر آئی۔ پیپلز پارٹی کے وزراء ان 15برسوں میں بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ کراچی میں پانچ کے قریب بسوں کی لائن تعمیرکی جائیں گی، لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے پہلے تو یونیورسٹی روڈ کو اربوں روپے کے ٹھیکے سے دوبارہ تعمیرکیا، بعد ازاں اس سڑک کو توڑ کر ریڈ لائن کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ سات سال قبل ملیرکینٹ سے نمائش تک ریڈ لائن کی تعمیرکے منصوبے کا آغاز ہوا۔ یہ منصوبہ بدترین اور ناقص منصوبہ بندی کا شکار ہوا۔ اب بھی وزراء اور میئر ریڈ لائن کی تکمیل کی حتمی تاریخ دینے کو تیار نہیں ہیں۔

میئرکراچی نے کہا کہ اگلے دو تین برسوں میں یہ منصوبہ مکمل ہوگا۔ ریڈ لائن کی تعمیر کے آغازکے ساتھ متبادل سڑکیں تعمیرکی گئیں اور نہ ہی ریڈ لائن کا نقشہ تیار کرتے ہوئے اس علاقے کا مکمل طور پر سروے کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سات سال بعد میئر صاحب کہتے ہیں کہ بجلی،گیس، سیوریج اور ٹیلی فون کی لائنوں کی منتقلی کے مسائل ہیں۔ سول انجیئنرنگ کے طالب علم کہتے ہیں کہ عام مستری بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ریڈ لائن کی تعمیرکی زمین پر بجلی،گیس، سیوریج اور ٹیلی فون کی لائنیں موجود ہیں۔ ان لائنوں کو ہٹانے کے لیے بہت پہلے منصوبہ بندی ہوتی ہے۔

بعض تجربہ کار انجینئروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں کام کرنے والے انجنیئر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارا فن اس لائن کی تعمیرکے دوران ہی سیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ڈالرکی قیمتوں کے بڑھنے سے ٹھیکیداروں کے سامان میں خریداری پر منصوبے کی تیاری کے وقت اتنی گنجائش رکھی جاتی ہے کہ قیمت بڑھنے سے ایسی صورتحال میں کام میں رکاوٹ پیدا نہ ہوا۔ دوسری جانب بلدیہ کراچی ابھی تک ڈرگ روڈ پل کے تعمیراتی نقص کو دور نہیں کرسکی ہے۔ ہر تین چار مہینے بعد یہ پل ٹریفک کے لیے بند کر دیا جاتا ہے اور مرمت کا کام شروع ہوجاتا ہے۔

ضلع وسطی میں کریم آباد انڈر پاس کا منصوبہ 2020میں شروع کیا گیا تھا مگر پانچ سال گزرنے کے باوجود یہ انڈر پاس مکمل نہیں ہوسکا۔ حکام کبھی اس التواء کی ذمے داری ٹھیکیداروں پر عائد کرتے ہیں کبھی بارشوں کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی خصوصی دلچسپی سے قیوم آباد سے شاہراہِ بھٹوکی تعمیر شروع ہوئی۔

اس شاہراہ کا ایک حصہ مکمل ہوگیا، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہر ہفتے، پندرہ دن کے دوران شاہراہِ بھٹو کا دورہ کرتے ہیں۔ گزشتہ مہینہ ہونے والی بارشوں میں اس شاہراہ کا ایک حصہ بہہ گیا۔ ملیر اورگڈاپ کے سماجی کارکن شاہراہِ بھٹو کی تعمیر سے اس علاقے کے ماحول پر ہونے والے شدید منفی اثرات پر شور مچا رہے ہیں۔ ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ شاہراہِ بھٹو کی تعمیر سے گڈاپ کا زرعی علاقہ ختم ہوجائے گا۔ سردیوں میں سائبیریا سے آنے والے پرندے اس علاقے میں آنے سے گریزکریں گے۔ بارشوں سے پہلے شہر کی سڑکوں کا برا حال تھا مگر بارشوں نے ہر بڑی اور چھوٹی سڑک کو تباہ کردیا۔

 سندھ حکومت کو چند سال قبل خیال آیا کہ کراچی میں جدید ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلنی چاہئیں، یوں 400 بسیں سڑکوں پر دوڑنے لگیں۔ ان میں ہائبرڈ بسیں بھی شامل ہیں جو آلودگی نہیں پھیلاتیں۔ اتنے بڑے شہر کے لیے 400 بسوں کا تحفہ مذاق ہی تھا مگر ان بسوں کی تعداد کم ہوگئی اور اب 200 بسیں چل رہی ہیں۔

ان بسوں کا کرایہ لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں چلنے والی بسوں سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں چلنے والی بسوں کا کم از کم کرایہ 20 روپے اورکراچی میں چلنے والی بسوں کا کم ازکم کرایہ 80 روپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قریب اسٹاپ تک سفرکرنے والے مسافروں نے ان ایئرکنڈیشنڈ بسوں میں سفرکرنا چھوڑ دیا۔ جب 2023 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو اس تحریک کی کامیابی کے لیے ایم کیو ایم کے ووٹ ضروری تھے، یوں ایم کیو ایم نے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے علیحدہ علیحدہ معاہدے کیے۔ ان معاہدوں میں کراچی کو ترقی دینے کا مسئلہ سرفہرست تھا۔

 2024کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو صدارت کے لیے نامزد کیا گیا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پھر ایم کیو ایم سے علیحدہ علیحدہ معاہدے کیے۔ ایم کیو ایم نے اس معاہدے کی بناء پر آصف زرداری کی صدارتی انتخابات میں حمایت کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت کراچی اور حیدرآباد کی ترقی کے لیے نئے پیکیجز کا اجراء شامل تھا۔ پیپلز پارٹی عمومی طور پر معاہدوں پر عملدرآمد پر یقین نہیں رکھتی، یوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والے معاہدے کا ذکر نہیں ہوتا مگر مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم سے کیے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے ایک طریقہ کار طے کیا۔

وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے اراکینِ اسمبلی کی تجاویز پر حیدرآباد اورکراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی اور وفاق کی ایک کمپنی کو اس کام کی تکمیل کی ذمے داری سونپی۔ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے گرین لائن کا منصوبہ مکمل کیا اور پھر یہ صوبائی حکومت کو منتقل ہوگیا۔ اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ وفاق کی ایک کمپنی مقررہ وقت پر اپنے منصوبے مکمل کر لے گی، ظاہر ہے اس صورت میں ایم کیو ایم والے ان کاموں کا کریڈٹ لیں گے، مگر اس کا حل یہ نہیں کہ وفاق کی کمپنی کو کام کرنے سے روک دیا جائے جس کا سارا بوجھ کراچی کے عوام کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔

کراچی کا تو انفرا اسٹرکچر اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ 30ستمبر کی شام کو ہونے والی دوگھنٹوں کی بارش میں شاہراہِ فیصل سمیت تمام سڑکیں پانی سے بھرگئیں۔ اصولی طور پر تو سندھ حکومت کو ریڈ لائن منصوبے کی ناکامی کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج سے تحقیقات کروانی چاہئیں اور جو لوگ اس ناکامی کے ذمے دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ آیندہ سندھ حکومت کے تمام منصوبے وقت پر مکمل ہوسکیں۔ محض گرین لائن منصوبے پر کام روکنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور یہ مسئلہ کسی طور پر بھی صوبائی خود مختاری میں مداخلت کا نہیں ہے۔ سندھ کی حکومت اس طرح کے فیصلے کر کے نئے تضادات پیدا کر رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم آزاد کشمیر اور وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری کی پریس کانفرنس حقائق کے بالکل برعکس تھی، سید حفیظ ہمدانی
  • وزیراعظم آزادکشمیر اور وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری کی پریس کانفرنس حقائق کے بلکل برعکس تھی، سید حفظ ہمدانی
  • کراچی کی ترقی کے لیے …
  • حکومت کا کرپٹو کرنسی کے انتظام اور تحفظ کیلئے بڑا قدم ,وفاقی کابینہ نے ’ سٹریٹیجک ڈیجٹیل والٹ کمپنی‘ بنانے کی منظوری دیدی
  • پاک۔چین دوستی کے حوالے سے پاکستان کا موقف غیرمتزلزل ہے ، وزیراعظم
  • ڈیپوٹیشن پر تعینات 17گریڈ کے آفیسر کاڈیپوٹیشن ختم کرنے کاحکم
  • وفاقی بیوروکریسی میں تقرر و تبادلے،نوٹیفکیشن جاری
  • حکومت نے گدھوں کی کھالیں برآمد کرنے کی اجازت دیدی
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار 3اکتوبر کو پاک سعودی دفاعی معاہدے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے
  • اسلام آباد:وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑسے امریکی ناظم الامور نٹالی بیکر ملاقات کررہی ہیں