لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت راولپنڈی نے 20 سالہ طالبہ کے ساتھ جبری زیادتی کیس کا فیصلہ سنا دیا۔

تفصیلات کےمطابق جج افشاں اعجاز صوفی نے ملزم ارشد محمود اچھو کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی، مجرم کو 5لاکھ روپے ہرجانہ اور 2لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

عدالت نے حکم دیا کہ مجرم کو اس وقت تک پھانسی کے پھندے پر لٹکائے رکھا جائے جب تک موت نا ہو جائے۔تھانہ صدر بیرونی پولیس نے 20 جولائی 2024 مقدمہ درج کیا تھا، والدہ گھروں میں کام کرنے گئی تب مجرم نے گھر میں داخلہ ہوکر گن پوائنٹ پر زیادتی کی۔

پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور طالبان کے درمیان پسِ پردہ رابطے سامنے آ گئے

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

انسانی المیے کو دھندہ بنانے کا ہنر

جمعرات (پندرہ مئی) کو اسرائیل کی ستترویں سالگرہ اور فلسطینی نقبہ (قیامتِ صغری) کا ستترہواں یوم ِ سیاہ تھا۔جمعرات کو ڈونلڈ ٹرمپ غزہ سے صرف ساڑھے سترہ سو کیلومیٹر پرے قطر میں تھے۔اسرائیل نے اپنے جنم دن پر ساتھ کے محلے میں موجود ٹرمپ کا خیرمقدم کرتے ہوئے انھیں دن بھر کی بمباری کی سلامی دیتے ہوئے کم ازکم ایک سو بیس بچوں ، عورتوں اور جوانوں کی لاشوں کا تحفہ دیا۔اس پرمسرت موقع پر غزہ میں موجود اسرائیلی فوجیوں نے پچھتر دن سے بھوکے پیاسے چوبیس لاکھ بے گھر فلسطینیوں کے سامنے بار بی کیو کی دعوتیں اڑائیں اور ان دعوتوں کی تصاویر فخریہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مشتہر کیں۔

اس وقت لگ بھگ چھپن یرغمالی حماس کی قید میں ہیں۔ان میں سے تئیس زندہ بتائے جاتے ہیں۔حماس مکمل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بدلے یکدم تمام یرغمالیوں اور مرنے والوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کرنے کو تیار ہے۔ اس کا اشارہ حماس نے ٹرمپ کے دورہِ خلیج کے موقع پر ایک امریکی نژاد دوہری شہریت کے حامل اسرائیلی فوجی کو ریڈ کراس کے حوالے کر کے دے دیا۔

نیتن یاہو ٹولے کو چھوڑ کے یرغمالیوں کے سو فیصد رشتے دار ، پوری حزب اختلاف اور پچھتر فیصد اسرائیلی شہری اب جنگ بندی چاہتے ہیں۔مگر نیتن یاہو ٹولہ یرغمالیوں کے بجائے مکمل اور خالی غزہ چاہتے ہیں اور اس خواہش کو کبھی نہیں چھپایا گیا۔

اسرائیلی وزیر خزانہ بذلیل سموترخ اور وزیرِ امورِ سلامتی بن گویر سینہ ٹھونک کے کہہ رہے ہیں کہ حماس بھلے تمام یرغمالی رہا کر دے مگر اسرائیل غزہ کا فوجی قبضہ ترک نہیں کرے گا۔فلسطینوں کے پاس آخری موقع ہے کہ وہ یہاں سے نکل جائیں۔

پانچ مئی کو اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے ’’ آپریشن گیدون چیریٹ ’’ کی منظوری دی۔اس موقع پر نیتن یاہو نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ مزید اسرائیلی مریں۔ہم چاہتے ہیں کہ فلسطینی تنہا مریں۔اس ریمارک کا ایک مطلب شاید یہ بھی نکلتا ہے کہ فلسطینی اپنی زمین سے چمٹے رہتے ہیں تو بھوک اور پیاس سے مرجائیں۔کیونکہ بموں سے تو اب تک چوبیس لاکھ میں سے صرف پچپن ہزار مرے ہیں۔

اس وقت غزہ کے آس پاس بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کے گوداموں میں ایک لاکھ اکہتر ہزار میٹرک ٹن خوراک موجود ہے جو غزہ کی چار ماہ کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہے۔مگر اسرائیل بھوک کو نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق دنیا میں اس وقت اگر کہیں سب سے سنگین مصنوعی قحط ہے تو وہ غزہ میں ہے۔اگر دو مارچ سے جاری ناکہ بندی اگلے ایک ماہ تک بھی جاری رہتی ہے تو غزہ کی پچیس فیصد آبادی بھک مری سے ختم ہو سکتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہو گی۔اب تک بھوک سے جو اٹھاون ہلاکتیں ہوئی ہیں ان میں اکیاون بچے ہیں۔ان کی عمریں زیرو سے دس برس کے درمیان ہیں۔

اس دنیا میں جو بیسیوں جنگی کنونشنز ہیں ان میں انیس سو انچاس کا جینوسائیڈ کنونشن بھی ہے۔اس پر اسرائیل ، امریکا ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی سمیت ایک سو تریپن ممالک کے دستخط ہیں۔یہ کنونشن دراصل نازی جرمنی کے کنسنٹریشن کیمپوں میں لاکھوں یہودیوں کی نسل کشی کے پس منظر میں اپنایا گیا۔کنونشن کے مطابق نسل کشی ایک بین الاقوامی جرم ہے اور نسل کشی کی جو تعریف متعین کی گئی ہے اس میں کسی بھی انسانی گروہ کو بھوک اور پیاس سے مارنا اور اس گروہ کو بالجبر حالتِ محاصرہ میں نسل کشی کی نئیت سے رکھنا بھی شامل ہے۔

 عالمی عدالتِ انصاف گزشتہ ایک برس میں تین بار رائے دے چکی ہے کہ اسرائیل غزہ میں مکمل طور پر نہیں تو جزوی طور پر نسل کشی کا مرتکب ضرور ہو رہا ہے۔جب کہ بین الاقوامی جرائم کی عدالت تو نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ کے گرفتاری وارنٹ بھی کب کے نکال چکی۔ان وارنٹس پر عمل کرنا ان تمام ممالک کی ذمے داری ہے جو جرائم کی بین الاقوامی عدالت کو تسلیم کرتے ہیں ( اسرائیل اور امریکا تسلیم نہیں کرتے)۔

وارنٹ کا مطلب یہ ہے کہ مطلوبہ ملزم کسی بھی دستخطی رکن ملک کی زمینی ، فضائی و بحری حدود سے گذریں تو اس ملک پر لازم ہے کہ حراست میں مدد کرے اور انھیں عدالت کے حوالے کرے۔نیتن یاہو ان وارنٹس کے اجرا کے بعد دو بار امریکا اور ایک بار ہنگری جا چکے ہیں۔جب کہ جرمنی اور برطانیہ ان وارنٹس پر تحفظ کا اظہار کر چکے ہیں۔

اوپر ہم نے بات کی اسرائیلی کابینہ کے منظور کردہ ’’ آپریشن گیدون چیرئیٹ ’’ کی۔اس آپریشن کا نام ایک یہودی پیغمبر گیدون کی مہم پر رکھا گیا کہ انھوں نے روائیت کے مطابق اپنے رتھ پر سوار ہو کر سپاہ کی قیادت کرتے ہوئے قتلِ عام میں کسی کو قیدی نہیں بنایا اور دشمن کی زمین پر ہل چلا کے برابر کر دیا۔گویا یہودی شریعت کی موجودہ اسرائیلی تشریح یہ ہے کہ زیتون کے درختوں سمیت کسی کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔چنانچہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹرمپ کا خلیج کا دورہ مکمل ہوتے ہی اس آپریشن کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ بین الاقوامی دباؤ کے ناقابلِ برداشت ہونے سے پہلے پہلے اہداف حاصل کر لیے جائیں۔

 گیدان چیریٹ منصوبے کے مطابق نوے فیصد غزہ خالی کروا کے پوری فلسطینی آبادی کو ایک کونے میں جمع کر دیا جائے۔پوری پٹی کو بفر اور حفاظتی زونز میں تقسیم کر کے فلسطینیوں کی نقل و حرکت ناممکن بنا دی جائے۔فلسطینی کبھی اپنے گھروں کو واپسی کا تصور نہ کر سکیں اس کے لیے غزہ میں تباہ شدہ ملبہ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اب تک کھڑی ہر عمارت کو بھی گرا کے موجودہ آبادیوں کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ صفائی اس ڈھنگ سے کی جائے کہ کسی بھی وقت نیا ’’ تعمیراتی کام ’’ شروع ہو سکے۔ (ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ کے خوبصورت ساحل کو ’’ جنت ‘‘ بنانا چاہتے ہیں )

آپریشن گیدون چیریٹ کے تحت فلسطینیوں کی خوراکی امداد میں اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں بشمول انرا کا کوئی کردار نہ ہوگا۔امداد اسرائیل کے منظور کردہ ٹھیکیداروں کے ذریعے تقسیم ہو گی اور صرف ان شہریوں کو ملے گی جن کا حماس یا اس کی سرگرمیوں سے کسی بھی قسم کے براہِ راست یا بلاواسطہ تعلق کا ثبوت نہ ملے۔منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کو ترغیب دی جائے گی کہ اگر وہ اپنے موجودہ حالات سے خوش نہیں تو کسی بھی تیسرے ملک میں ’’ رضاکارانہ ’’ ہجرت کر سکتے ہیں۔اس بارے میں اسرائیل ان کی مدد کرے گا۔

لوگ باگ اس پر ہی بغلیں بجا رہے ہیں کہ ٹرمپ نے صدارتی روائیت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے مشرق وسطی کے دورے میں اسرائیل کو شامل نہیں کیا۔مگر اسرائیل کو اس ’’ جھٹکے ‘‘ سے قطعاً پریشانی نہیں۔اس کی پشت پر پوری امریکی کانگریس ہے اور ٹرمپ خلیجی ممالک سے ساڑھے تین ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری کے جو وعدے جیب میں ڈال کر لے گئے ہیں۔اس سرمایہ کاری میں سے کچھ نہ کچھ پھل تو اسرائیلی ہائی ٹیک کمپینوں کی جیب میں بھی جائے گا۔

ستتر برس سے جاری یومِ نقبہ انسانی تاریخ کا سب سے طویل دن ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • نوشہرہ میں طالبہ سے مبینہ اجتماعی زیادتی، ملزمان گرفتار
  • مدرسے جانے والی طالبہ کو 5 درندوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا
  • چشتیاں: دو اوباشوں کی نابالغ بچے سے مبینہ زیادتی، ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی، ملزمان گرفتار
  • انسانی المیے کو دھندہ بنانے کا ہنر
  • راولپنڈی: زیادتی ثابت ہونے پر مجرم کو سزائے موت سنا دی گئی
  • راولپنڈی؛ 20 سالہ طالبہ کیساتھ زیادتی، مجرم کو مرتے دم تک پھانسی پر لٹکائے رکھنے کا حکم
  • خیرپور: طالبہ سے زیادتی ثابت، 3 مجرمان کو 25-25 سال قید
  • پشاور، گھر کے باہر سے ملنے والے دستی بم سے کھیلتے ہوئے دھماکا، 1 جاں بحق اور تین زخمی
  • 76 سالہ فرانسیسی اداکار کو 2 خواتین کیساتھ جنسی ہراسانی پر قید کی سزا