چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب بھر کی عدلیہ کو حکم امتناعی کی درخواستوں پر پندرہ دن کے اندر اندر فیصلے کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے حکم امتناعی اور سول اپیلوں سے متعلق جوڈیشل پالیسی 2009پر عملدرآمد کا حکم جاری کیا، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے تمام سیشن ججوں کو مراسلہ ارسال کر دیا۔مراسلہ کا متن ہے کہ حکم امتناعی کی درخواستوں پر15 دن کے اندر اندر فیصلہ کیا جائے ، سول اپیل زیر دفعہ 104 جو تین ماہ سے زیادہ عرصے سے زیر التوا ء ہے اس کا فیصلہ ایک ماہ میں کیا جائے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

ٹرمپ کی بڑی کامیابی: وفاقی اپیل کورٹ نے غیر ملکی امداد کی معطلی کے خلاف حکم امتناع ختم کر دیا

امریکا کی وفاقی اپیل کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر ملکی امداد روکنے کی پالیسی کے خلاف جاری حکم امتناع کو 2-1 کی اکثریت سے ختم کر دیا۔ 

اس عدالتی فیصلے کو ٹرمپ کے لیے ایک بڑی سیاسی اور قانونی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے انہیں اپنی متنازع پالیسی پر عمل درآمد کا راستہ مل گیا ہے۔

ٹرمپ نے 20 جنوری 2025 کو دوسری مدت کے لیے حلف اٹھانے کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تمام غیر ملکی امداد پر 90 دن کی عارضی پابندی عائد کر دی تھی۔ 

ان کے اس اقدام کے بعد امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) میں بڑے پیمانے پر ردوبدل شروع ہوا، جس میں متعدد ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیجنا، امدادی پروگراموں کو روکنا اور اس خودمختار ادارے کو محکمہ خارجہ کے ماتحت کرنے پر غور شامل تھا۔ 

ناقدین کے مطابق یہ قدم امریکی خارجہ پالیسی اور انسانی ہمدردی کے منصوبوں کو کمزور کرنے کی ایک بڑی کوشش تھی۔

دو غیر منافع بخش تنظیموں — ایڈز ویکسین ایڈووکیسی کولیشن اور جرنلزم ڈیولپمنٹ نیٹ ورک — نے عدالت سے رجوع کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ٹرمپ کا یہ اقدام غیر قانونی ہے کیونکہ یہ کانگریس کی طرف سے پہلے سے منظور شدہ بجٹ اور امدادی منصوبوں میں غیر آئینی مداخلت ہے۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج امیر علی، جو صدر جو بائیڈن کے نامزد کردہ ہیں، نے ابتدائی فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کو دنیا بھر میں اپنے انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کو تقریباً 2 ارب ڈالر کی بقایا امداد ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کی اپیل کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جج امیر علی کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔

اکثریتی رائے (ججز کیرن ہینڈرسن اور گریگوری کاٹساس): غیر منافع بخش تنظیمیں اپنے دعوے کو قانونی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہیں اور حکم امتناع کے لیے درکار شرائط پوری نہیں کر سکیں۔

ہینڈرسن، جو ریگن دور میں نامزد ہوئی تھیں، نے یہ واضح کیا کہ عدالت اس بات پر رائے نہیں دے رہی کہ آیا ٹرمپ کی پالیسی آئینی خلاف ورزی ہے یا نہیں، کیونکہ یہ معاملہ کانگریس کے اخراجات کے اختیار سے جڑا ہوا ہے۔

سرکٹ جج فلورنس پین، جو بائیڈن کی نامزد کردہ ہیں، نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ایگزیکٹو کی غیر قانونی حرکتوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے، جو آئین میں دیے گئے اختیارات کی تقسیم اور توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ طرز عمل آمرانہ رجحانات کو فروغ دے سکتا ہے اور طاقت کے توازن کے نظام کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب عالمی سطح پر کئی ممالک امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر صحت، تعلیم اور انسانی ہمدردی کے شعبوں میں۔ ٹرمپ کی پالیسی کو بعض حلقے امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے کے بہتر استعمال کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ناقدین اسے دنیا میں امریکی اثرورسوخ کو کم کرنے اور انسانی بحرانوں کو مزید بڑھانے کا سبب قرار دیتے ہیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ نظرثانی بورڈ کا غیر ملکی قیدیوں کی رہائی کا حکم ،قیدیوں کو ان کے ممالک واپس بھجوانے کی ہدایت
  • نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے: سپریم کورٹ
  • نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے، سپریم کورٹ
  • جائیداد نیلامی کیس، 14 سال زیر التوا، درخواست خارج کی جاتی ہے، سپریم کورٹ
  • بلوچستان ہائیکورٹ: ٹرانسپورٹ پر پابندی کا حکم فوری واپس لینے اور محفوظ علاقوں میں انٹرنیٹ بحال کرنے کا حکم
  • ہائیکورٹ میں یوم آزادی تقریب، پہلی بار خاتون چیف جسٹس نے پرچم کشائی کی 
  • ٹرمپ کی بڑی کامیابی: وفاقی اپیل کورٹ نے غیر ملکی امداد کی معطلی کے خلاف حکم امتناع ختم کر دیا
  • یومِ آزادی؛ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پرچم کشائی کی تقریبات
  • جشن آزادی: سپریم کورٹ سمیت تمام ہائی کورٹس میں پرچم کشائی کی تقاریب
  • پنجاب، سکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں بڑھانے کا فیصلہ پھر تبدیل