اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں سے ورچوئلی مذاکرات کے بعد وفاق اور صوبوں کی معاشی کارکردگی پر اظہار اطمینان کر دیا۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ آئی ایم ایف وفد نے آئندہ بجٹ اخراجات پر صوبوں کے ساتھ ورچوئلی مذاکرات میں مطالبہ کیا ہے کہ صوبے یکم جولائی سے زرعی آمدن پر انکم ٹیکس، ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈ خود اکٹھے کریں۔
خیبرپختونخوا، بلوچستان سمیت صوبائی حکومتوں سے آئندہ بجٹ کے اخراجات پر کہا گیا ہے کہ نئے بجٹ کے ساتھ زرعی آمدن پر انکم ٹیکس جمع کرنے پر کوئی چھوٹ نہیں ہو گی، صوبے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کیلئے وفاق پر انحصار ختم کر دیں۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفاق اور صوبوں کی معاشی کارکردگی سے مطمئن ہے، آئی ایم ایف کو صوبوں نے آئندہ مالی سال سرپلس کی یقین دہانی کرائی ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف وفد بجٹ پر مذاکرات کیلئے کل پاکستان پہنچ جائے گا، وفد وزارت خزانہ، پلاننگ کمیشن، ایف بی آر اور سٹیٹ بینک حکام سے بات کرے گا۔

بھارت کیساتھ مستقل بنیادوں پر جنگ بندی کیلئے پرعزم ہیں: پاکستان

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: آئی ایم ایف صوبوں کی

پڑھیں:

یوم آزادی اور معاشی غلامی

14 اگست 1947 کو جب پاکستان نے پہلا دن دیکھا تو خزانہ خالی تھا، صنعت نہ ہونے کے برابر تھی، ہندو صنعتکار جاتے ہوئے اپنی مشینریاں بھی اکھاڑ کر لے جا چکے تھے، معیشت کا انحصار زراعت پر تھا اور زراعت انتہائی پسماندگی کا شکار تھی۔

صنعت نہ ہونے کے باعث تمام بچا کچھا خام مال برآمد کر دیا جاتا تھا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب قومی خزانے میں زرمبادلہ کے ذخائر شامل ہو رہے تھے۔ کارخانوں کی قطاریں لگتی چلی جا رہی تھیں، برآمدات 32 ارب ڈالر سے زائد پر آچکی تھی اور درآمدات میں اضافہ ہو رہا تھا، لیکن فرق اتنا ہے کہ 1947 میں ہم نے سیاسی آزادی حاصل کی تھی اور آج 78 برس بعد ہم معاشی غلامی کی زنجیریں پہنے ہوئے ہیں۔

1947 کے بعد کئی تباہ حال ملکوں نے خود کو سنبھالا، جرمنی نے جنگ کے بعد معاشی انقلاب برپا کر دیا، 50 کی دہائی میں پاکستانی حکومت نے جرمنی کو قرض بھی دیا، ہم آزاد تو ہیں لیکن ہمارے معاشی فیصلے واشنگٹن میں ہوتے ہیں۔

1947 میں ہم نے عہد کیا تھا کہ اپنے وسائل پر انحصار کریں گے، لیکن آج ہم بجلی کے نرخ آئی ایم ایف سے پوچھ کر طے کر رہے ہیں۔ کیوں کہ قرض کی قسط سے آزادی نہیں ملتی بلکہ مہلت ملتی ہے اور پھر مہلتیں ملتی رہتی ہیں، کسان کی گندم کی قیمت خرید، چینی کی درآمد پر اعتراض، پنشنرز کی پنشن میں اضافے کا فیصلہ، آئی ایم ایف نے کرنا ہو تو ایسی صورت میں آزادی کا قصیدہ نہیں پڑھ سکتے۔

ہمیں معاشی غلامی سے آزادی کا روڈ میپ تلاش کرنا ہوگا، ٹیکس نیٹ کو جلد ازجلد وسعت دیں، برآمد ویلیو ایڈیشن پرکام کریں، بنگلہ دیش نے ہمارے خام مال یا نیم تیار شدہ مال سے اپنا ریڈی میڈ اور ویلیو ایڈیشن والا مال تیار کر کے دنیا میں تقریباً 60 ارب ڈالر والا مال برآمد کر رہا ہے۔ گیس اور تیل وکوئلے کے مقامی ذخائر تلاش کرنا ہوں گے۔

سبسڈی سب کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف مستحق رعایت کے حق دار ہیں، قرضوں کا مرحلہ وار خاتمہ کرنا ہوگا، اس وقت 130 ارب ڈالر سے زائد قرض کا طوق ہم نے اپنی گردن میں پھنسا لیا ہے، ان سب باتوں کے باوجود معیشت کے اس دھندلکے میں مواقعے بہت ہیں، سب سے اہم پاکستان کی یوتھ پاپولیشن ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 60 فی صد سے زائد آبادی ہے جوکہ دنیا کی سب سے بڑی افرادی قوت میں سے ایک ہے۔

ہم ان کی تکنیکی تربیت کریں یا پھر امریکا جیسے ممالک سے جب معاہدہ کرتے ہیں تو ان کی اعلیٰ پیمانے پر تکنیکی تربیت کے منصوبے زیر غور لانے کی ضرورت ہے کہ جب عام شہری کی جیب میں سکے جب کھنک رہے ہوں تو ان کی آواز میں اطمینان کی موسیقی ہو جسے سن کر شہری کی چمکتی آنکھوں میں خوشی ہو اور یہ خوشی جب آئے گی جب روپیہ سر چڑھ کر بولے گا اور ڈالر زمین پر ڈھیر ہوگا۔

جشن آزادی کے رنگ برنگ جھنڈے معاشی خود مختاری کے رنگ میں رنگ کر خوب جھوم جھوم کر لہرائیں گے۔78 برس بعد ہماری معاشی ترقی کی شرح کی رفتار سست ترین ہے۔ 2024-25 کے مطابق معاشی شرح نمو کا حصول محض2.68 فی صد کی کم سطح پر رہا۔

2024-25 کے دوران ریکارڈ قرضے لے کر تقریباً 27 ارب ڈالر قرضوں کے سر پر مزید بوجھ چڑھا دیے گئے۔ ملکی معیشت قرضوں کی معیشت بن چکی ہے لہٰذا بجٹ بنتا ہے، منظور ہوتا ہے اور آئی ایم ایف کہتا ہے کہ بجٹ حجم کا بہت بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جا رہا ہے لہٰذا شرطیں مزید بڑھائی جا رہی ہیں۔

ایسا معلوم دے رہا ہے کہ آزادی کے دن کا جشن سیاسی حدود کو پھلانگ کر اقتصادی حقائق میں چھپنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ بہت سے معاشی حقائق اب واضح ہو چکے ہیں اور تقاضا کر رہے ہیں کہ جلدازجلد معاشی معاملات کو کنٹرول کریں۔

تجارتی خسارے کو کم سے کم کیا جائے، ملک میں درآمدات کا بدل تیار کیا جائے تاکہ درآمدی مالیت میں کمی لائی جا سکے۔ اب خالی باتوں سے کام نہیں چلے گا کیونکہ یوم آزادی مناتے وقت صرف سیاسی آزادی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں، معاشی غلامی جن معاشی یا اقتصادی فیصلوں کے باعث آتی ہیں، اس کا قلع قمع کرنے کے لیے واضح، مرحلہ وار، سیاسی، تکنیکی، معاشی ہر سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔

آئی ایم ایف پر منحصر فیصلہ سازی کو کم کرنا ہوگا، ٹیکس چور راستوں کو ختم کیا جائے، مافیاز کو کنٹرول کیا جائے، جیسے آج کل چینی کی قیمت پر حکومتی کنٹرول نہیں ہے۔ غیر ضروری امپورٹس معطل کر دی جائیں گھریلو صنعتوں کو پھیلایا جائے، ہنر اور ٹیکنیکل ایجوکیشن ہر ایک کے لیے مفت کر دی جائے، توانائی کی تلاش تیز تر کی جائے، سماجی بہبود کے پروگرام تعلیم اور صحت سب کے لیے مفت کا انتظام کیا جائے، کرپشن کا مکمل خاتمہ، اشرافیہ کو دی جانے والی تمام مراعات واپس لی جائیں۔ غریب کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جائے اور دیگر بہت سے پروگرام ہیں جن پر عملدرآمد کر کے حکومت یوم آزادی کے رنگ کو چوکھا کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاق یا پنجاب حکومت سے سیلاب متاثرین کیلئے مدد نہیں ملی، ترجمان خیبر پختونخوا حکومت
  • پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں؛ ’’ایران اس مشکل گھڑی ہر طرح کے تعاون، امداد کیلئے تیار ہے‘‘
  • ایران کے خلاف یورپی ممالک کی آئندہ پابندیوں پر چین کی تنقید
  • پاکستان کا نیا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کامیابی سے مدار میں پہنچ گیا ہے ، بہترین کارکردگی کے ساتھ فعال 
  • فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا سیاسی، عسکری اور معاشی وژن کیا ہے؟ سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کے انکشافات
  • امریکی ٹیرف، ڈالر کے لحاظ سے پاکستان کی ایکویٹی مارکیٹ کی بہترین کارکردگی، بھارت کی تنزلی
  •  پاکستان ریلوے کی ناقص کارکردگی، تیزگام ایکسپریس کا انجن فیل، مسافر پریشان
  • صدر ایف پی سی سی آئی کی قوم کو 78 ویں یوم آزادی کی مبارکباد
  • پاکستان کے 78ویں یومِ آزادی پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا پیغام، معاشی تعاون بڑھانے کی خواہش کا اظہار
  • یوم آزادی اور معاشی غلامی