درختوں پر لال پیلے پھولوں کی بہار سخت چلچلاتی دھوپ میں بھی خوب صورت دکھائی دے رہی تھی، ماحول میں ایک تازگی سی محسوس ہو رہی تھی کہ ایک طوفان جیسے آ کر گزر گیا، بالکل اس طرح جیسے سیلاب کے گزر جانے کے بعد جہاں نقصان ہوتا ہے، وہیں کئی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، نقصان ہوا، شہادتیں ہوئیں، معصوم لوگوں کی جان کا نقصان کم نہ تھا، پر دنیا نے دیکھا کہ پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوگئی۔
’’آج ہم جو آرام سے بیٹھے ہیں، یہ ہماری فوج کی وجہ سے ہے، ورنہ ان خبیثوں کے نشانے پر ہمارا شہر تھا۔‘‘
’’بھئی! مجھے بھی وردی دی جائے اورگن دی جائے تو ضرورت پڑنے پر میں بھی اپنے ملک کی حفاظت کے لیے بارڈر پر لڑنے جاؤں گا۔‘‘
’’اب پتا چلا کہ دفاع کا بجٹ کہاں خرچ ہوتا ہے؟‘‘
لوگوں کی رائے اور تعریف و توصیف ختم نہیں ہو رہی کہ یہ سلسلہ تو اب طویل ہی ہوگا پرکیا ہم اب بھی اپنے دشمنوں کے سیز فائر پر یقین کرسکتے ہیں؟ کیا واقعی وہ اتنے ہی عہد کے پابند ہیں کہ ان پر اعتبارکیا جاسکتا ہے۔ بات جس ایشو سے شروع ہوئی تھی اس حوالے کو اٹھا کر دیکھیے طاس معاہدے کے ساتھ ان کا کیا سلوک تھا، ان کی داداگیری اور آنکھیں دکھانے کا سلسلہ ایک سوچی سمجھی اسکیم تھی انھیں اپنے مہنگے ترین عسکری آلات و تنصیبات پر اس حد تک یقین تھا کہ کچھ بھی ہو بڑے ہاتھی چھوٹے موٹے جانوروں کو مسل ہی دیا کرتے ہیں، پر اس بار تو انھوں نے اپنی آنکھوں پرکالی عینک ہی چڑھا لی تھی، یہ سوچے سمجھے بنا ہی کہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت رکھتا ہے پھر اورکیا تھا جو بھارت کو اتنی سرکشی اور غرور میں مبتلا کر رہا تھا، بڑے بڑے دیو جو ان کی پیٹھ کر تھپتھپا رہے تھے اور بھارت بس آنکھوں پرکالی عینک چڑھائے بڑھ رہا تھا۔
یہ اب سے کئی برسوں پہلے کی بات ہے جب مودی سرکار پر جیش محمد کے ارکان کو نیست و نابود کرنے کا ہذیان پیدا ہوا، وہ آتنک وادی کے حوالے سے شور مچاتے رہے تھے اور پھر مئی 2025 میں انھوں نے اپنے پلان کو ترتیب دینا شروع کر دیا تھا یہاں تک کہ دس بے گناہ شہریوں کی شہادت دنیا نے دیکھی، ایک بزدلانہ اقدام کو سہرے کی طرح سجا لینے والا بھارت پھر بھی اپنی خواہش میں ناکام ٹھہرا تھا کہ زندگی اور موت بارود اور آگ کی نہیں بلکہ رب العزت کے حکم کی پابند ہے اور وہ جسے رکھے۔
پاکستان ایئرفورس کے چاک و چوبند طیارے جس انداز سے بل کھاتے چکراتے اپنا راستہ بنا رہے تھے اسے دیکھ کر اپنے رب کی قدرت پر پیار آ رہا تھا کہ مہارت نہ پائلٹ کی اور نہ کسی بھی ساخت کے طیارے کی ہے یہ تو معجزے کی کہانی ہے پھر انسان اپنے خلوص اور سچائی سے اپنے رب کے حکم سے چلتا چلا جاتا ہے۔ نجانے کتنی ماؤں، بہنوں اور بچوں کے ہاتھ اپنے جیالوں کے لیے اٹھے ہوئے تھے اور پھر ایم ایم عالم کے نام کو مزید روشنیوں سے چمکا دینے والے جوانوں نے اپنی کامیابی کے ریکارڈ ثبت کردیے اور ہماری فوج نے ان کے دانت کھٹے کر دیے۔ہم اپریل 2025 تک زود رنج تھے، مایوسی اور ناامیدی، دکھ اور اذیتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے، ہمارے اندرونی اور بیرونی مسائل ہمیں سانس تک لینے میں حائل تھے، ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔
اوپر سے لے کر نیچے تک ہماری قوم کا کون تھا، ایک مایوس، تنہا اور الجھنوں میں گھری قوم، تب جنگ کا ایک بگل جسے بظاہر بڑے غرور سے بجایا گیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے قوم پرجوش ہوتی گئی، دل پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا اپنے محافظوں کے بارے میں بات کرتے آنکھیں نم ہو جاتیں۔ جذبے سچے ہوں تو اونچی اونچی فصیلیں بھی جھک جاتی ہیں اور ایسا ہی ہوا، جھکے ہوئے سر شرمندگی کے غبار سے اٹے ہیں اور پاکستانی قوم مسرور ہے۔
یہ سب کچھ بہت اطمینان بخش ہے ہم نکل کر آگے آگئے ہیں اب ہمیں ایک اور سفر درکار ہے، یہ سفر ترقی کا ہے جو ہمیں تعصب، عصبیتوں اور نفرتوں سے پرے ایک نئے راستے کی نشان دہی کراتا ہے جو کرپشن، مادیت اور اقربا پروری کے جالوں سے اٹا پڑا ہے کہ اب بھی ہمیں انھیں صاف کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ جالے ہماری قومی سالمیت اور معیشت کو نگلنے کے لیے بے چین ہیں۔حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو مادی طور پر ہمارے حالات میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے، البتہ دلوں سے بہت کچھ صاف ہوگیا ہے، قوم اب مثبت انداز میں بہت اچھے کی توقع کر رہی ہے اب وہ سارے وعدے وہ عہد و پیماں جو ماضی میں بلکہ مہینہ بھر پہلے بھی دہرائے گئے تھے ان کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے کہ قوم نے اوپر سے لے کر نیچے تک بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔
کیا ان امیدوں، آرزوؤں اور عہد کو پورا کر لیا جائے گا، اور اگر کسی بھی دھوکے اور بدعہدی کا سوچا گیا تھا تو خدارا اسے مثبت انداز سے بدل لیا جائے۔ وہ ساری دعائیں آپ پر پھولوں کی طرح برسیں گی، آپ کی اچھی خواہشوں اور تمناؤں کی تکمیل کی صورت میں۔ ہماری قوم بہت پیار کرنے والی، پرجوش اور بھول جانے والی ہے اسے سمیٹ لیں اور اپنے خلوص اور ایثار کی خوشبوؤں سے مست کر دیں، یقین جانیں یہ بس آپ کے ہی گن گائے گی۔
کہتے ہیں کسی کا برا کیا کسی کے لیے اچھا ہو جاتا ہے، ہمارے ملک کے ساتھ تو ایسا ہی ہوا ہے، عوام نے فوج کا پرجوش انداز میں ساتھ دیا، وہ شانہ بشانہ ان کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہے، وہ جان چکی ہے کہ سیسہ پلائی دیوار محض باتوں سے بلند نہیں ہوتی اس کے لیے جگر کا خون پلانا پڑتا ہے اور اس کے لیے وہ اپنا حصہ ڈالنے سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔
ہمارے جوان، بچے، بوڑھے، خواتین سب گن گا رہے ہیں تو یہ قدرت کی جانب سے ایک تحفہ ہی ہے اس تحفے کا خیرمقدم کیا جائے اور اسے تر و تازہ رکھنے کے لیے ہمیں اب مزید جنگوں کی نہیں بلکہ امن، محبت، رواداری، میرٹ اور تعصب کی عینکوں کو کہیں توڑ کر پھینک دینے کی ضرورت ہے، تو پھولوں کی طرح اس خوب صورت ملک کا گلدستہ ہمیشہ آپ سب کو پیار سے چمکتا ہی ملے گا کہ ہم اپنے تمام اختیار والوں کے شکر گزار ہیں کہ پروردگار نے انھیں ہمارے لیے چنا۔
دعا ہے کہ اے پروردگار! ہماری سرحدوں میں،کھیت کھلیانوں، زمینی خزانوں، محبتوں، خلوص اور اچھی نیتوں میں برکت دے، وسعت دے کہ ہم کو آپ نے بنیان مرصوص سے بخیر و عافیت سے گزار لیا ہے۔ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائیں کہ انسان تو خطا کا پتلا ہے۔ ہمارے اندر سکون اتار دے۔(آمین)
بڑے ہاتھ کی شکست بہت سی باتوں کی نشان دہی کرتی ہے جو توجہ طلب ہے سوچیے اور قدرت کے اشاروں کو سمجھیے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسرائیل فوری طور پر اپنے اقدامات بند کرے، ہامیش فالکنر
برطانوی ہاؤس آف کامنز میں وزیر برائے مشرق وسطیٰ ہامیش فالکنر نے غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل فوری طور پر اپنے اقدامات بند کرے۔
ہاؤس آف کامنز میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں ناقابل برداشت انسانی مصائب سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا غزہ میں امداد سے انکار خوفناک ہے، غزہ کی سرحد پر اس وقت خوراک سڑ رہی ہے اور ضرورت مند بھوکے لوگوں تک پہنچنے سے قاصر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزراء نے اس امداد کو روکنے کے اپنے فیصلے کو ’پریشر لیور‘ قرار دیا ہے لیکن یہ ظالمانہ اور ناقابل دفاع عمل ہے۔
ہامیش فالکنر کا مزید کہنا تھا کہ دنیا مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل فوری طور پر اپنے اقدامات بند کرے اور غزہ میں داخل ہونے والی امداد پر عائد پابندی اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اقوام متحدہ اور تمام انسانی حقوق کی تنظیموں کو فوری طور پر جانیں بچانے کے قابل بنانا چاہیے، ہمیں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے، انسانی امداد کو کبھی بھی سیاسی ہتھیار یا فوجی حربے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
برطانوی وزیر برائے مشرق وسطیٰ کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کسی ایسے امدادی طریقہ کار کی حمایت نہیں کرے گا جس کا مقصد سیاسی یا فوجی مقاصد کو حاصل کرنا ہو یا کمزور شہریوں کو خطرہ لاحق ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پوری توجہ امداد پر اسرائیلی پابندیاں ہٹانے، حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی، شہریوں کی حفاظت اور جنگ بندی کی بحالی پر ہے۔
Post Views: 2