ایک بیان میں سابق گورنر سندھ نے کہا کہ کئی ماہ سے ہم کہہ رہے تھے کہ ہمارے علاقائی حالات ایک نازک موڑ پر ہیں، دشمن کے ارادے جو پہلے پوشیدہ تھے اب کھلے عام ہیں، یہ وہ وقت ہے کہ جب ہر پاکستانی کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیئے، جب وقت آیا تو ہم نے ثابت کیا نہ ہم کمزور ہیں، نہ ہم میں بے اتفاقی ہے نہ ہم اپنے دشمن کو موقع دینے والے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق گورنر سندھ اور میری پہچان پاکستان کے روح رواں ڈاکٹر عشرت العباد خان نے یوم تشکر کے موقع پر پوری قوم اور افواج پاکستان کے آپریشن بنیان المرصوص کی شاندار کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دن ہماری افواج کی قربانیوں حوصلے اور پیشہ وارانہ مہارت کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے، معرکہ حق میں دشمن کی بزدلانہ جارحیت کو ناکام بنا کر اسکی مصنوعی برتری کا طلسم توڑ دیا، ہماری خود مختاری، قومی وقار، اور آبی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ دریں اثنا مرکزی کمیٹی اور ٹاؤن کمیٹیز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ ہماری مسلح افواج دنیا کی وہ طاقت ہیں، جو صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ دلوں کے جزبے سے لڑتی ہیں، یہ فوج کسی الائنس، کسی سپر پاور کی محتاج نہیں، یہ فوج صرف اللہ پر بھروسہ کرتی ہیں اور اپنی قوم کی دعاں پر یقین رکھتی ہیں۔ اپنے اہم خطاب میں ڈاکٹر عشرت العباد خان نے پوری قوم کو مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا یہ منظر یہ لمحہ صرف تقریر کا موقع نہیں یہ وقت اپنے جزبات کو زبان دینے اور دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ پوری پاکستانی قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارتی جارحیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت العباد خان کا کہنا تھا کہ ہمارے دشمن نے سوچا کہ ہم اندر سے کمزور ہوچکے ہیں سیاسی اختلافات، معاشی مشکلات اور سوشل میڈیا پر چلنے والے پروپیگنڈوں سے ہمارے درمیان دراڑ ڈال دیں گے وہ یہ بھول گئے کہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں پر ہر پاکستانی اپنی جاں نچھاور کرنے تیار ہے وہ اپنے پرچم کو جھکنے نہیں دیتا۔ انہوں نے باور کیا کہ کئی ماہ سے ہم کہہ رہے تھے کہ ہمارے علاقائی حالات ایک نازک موڑ پر ہیں، دشمن کے ارادے جو پہلے پوشیدہ تھے اب کھلے عام ہیں، یہ وہ وقت ہے کہ جب ہر پاکستانی کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیئے، جب وقت آیا تو ہم نے ثابت کیا نہ ہم کمزور ہیں، نہ ہم میں بے اتفاقی ہے نہ ہم اپنے دشمن کو موقع دینے والے ہیں۔

ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ ہماری افواج پاکستان نے دشمن کے ارادوں کو توڑ کر رکھ دیا، جب ہر پاکستانی نے کہا کہ میری پہچان پاکستان دنیا حیران رہ گئی کیا یہ وہی قوم ہے جسے ہم بکھرا ہوا سمجھ رہے تھے، ہماری افواج نے ہر مورچے پر، ہر جنگ میں ثابت کیا کہ اگر جذبہ زندہ ہو تو تو کسی بھی ٹیکنالوجی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یاد دلایا کہ 2019ء میں جب انڈیا نے پاکستان کی فضاؤں میں گھسنے کی کوشش کی تو ہماری فوج نے نہ صرف ایک جہاز گرایا بلکہ پوری دنیا کو پیغام دیا یہ پاکستان ہے یہ کوئی معمولی ملک نہیں، مودی نے اس وقت کہا اگر رافیل ہوتے تو ہم جیت جاتے آج انکے پاس رافیل ہیں تو کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں، جنگ ہتھیاروں سے نہیں ارداوں اور جزبہ ایمانی سے جیتی جاتی ہے، ہماری فوج کی صلاحیت، انکا ارادہ، انکی پروفیشنل ٹریننگ، اور ایمانی تعلق وہ اصلی قوت ہیں جو کسی بھی ٹیکنالوجی پر بھاری ہیں، ہر پاکستانی شاہین چاہے وہ جے ایف 17 میں ہو یا ٹینک کے اندر ایک ہی جزبہ لے کر چلتا ہے وطن کے لئے جینا ہے شہید ہونا ہے، دشمن کا اصلی چہرہ اب چھپا نہیں رہا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈاکٹر عشرت العباد ہر پاکستانی نے کہا کہ

پڑھیں:

رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار

پاکستان ایک ارب ڈالر سے زائد کی تیسری قسط حاصل کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں نظر آتا ہے، حالاں کہ کچھ معاملات میں معمولی کوتاہیاں ہوئی ہیں، حکام پیر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دورہ کرنے والے جائزہ مشن کے ساتھ پالیسی سطح کے مذاکرات کا آغاز کر رہے ہیں۔

نجی اخبار کی رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کو پالیسی سطح کی بات چیت کے دوران چند نرمیوں پر اتفاق کرنا ہوگا، تاکہ رواں ہفتے کے آخر (9 یا 10 اکتوبر) تک وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے ساتھ جائزہ مکمل کیا جا سکے۔

اگرچہ پاور سیکٹر نے وصولیوں میں بہتری اور گردشی قرضے میں کمی کے ذریعے غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہے، جو کہ سبسڈی کے لیے مختص مالی گنجائش کی منتقلی اور نئے قرضوں کے ذریعے ممکن ہوئی، لیکن وفاقی محصولات اور صوبائی کارکردگی، خصوصاً بجٹ سرپلس اور زرعی ٹیکس وصولی کے وعدوں میں کمزوری دیکھی گئی ہے۔

آئندہ 4 روز میں اضافی اقدامات کے ساتھ، سیلاب سے متعلق چیلنجوں کے پیش نظر ممکنہ رعایتوں کے ذریعے دوسرے جائزے کے اختتام کی راہ ہموار ہونے کی توقع ہے، جس کے نتیجے میں آئندہ ماہ کے آغاز تک ایک ارب ڈالر سے زائد کی اگلی قسط جاری ہونے کا امکان ہے، تاہم آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری درکار ہوگی۔

بین الاقوامی سیاسی ماحول بھی پاکستان کے حق میں سازگار بتایا جا رہا ہے، کیوں کہ بڑے ووٹنگ اراکین ملک کی حمایت کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتیں آئی ایم ایف کے سخت جائزے کے تحت ہیں۔

ایف بی آر نہ صرف جون 2025 کے اختتام تک آمدنی کے ہدف سے کافی پیچھے رہا بلکہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بھی تقریباً 200 ارب روپے کا شارٹ فال دیکھا گیا ہے، جو ماہانہ اوسطاً 65 ارب روپے سے زائد بنتی ہے، حالاں کہ ادارے نے اصلاحاتی منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس میں درجنوں نئی گاڑیاں خریدنے جیسے اقدامات شامل تھے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ آیا عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات سے متوقع ریکوریاں اس خسارے کو پورا کر سکیں گی یا نومبر کے آغاز میں مزید اقدامات کی ضرورت پیش آئے گی؟۔

کیش سرپلس کے وعدے
دوسری طرف وفاق میں اتحادی ہونے کے باوجود سندھ اور پنجاب کی حکومتیں گزشتہ مالی سال کے اختتام پر اپنے کیش سرپلس وعدے پورے کرنے میں ناکام رہیں، بلکہ سندھ نے تو نئے مالی سال 26 کے آغاز پر خسارے کا بجٹ پیش کیا۔

آئی ایم ایف نے ان سستیوں کے باعث اصلاحی اقدامات پر زور دیا ہے، جس سے اپوزیشن کی زیرِ قیادت خیبرپختونخوا حکومت پر بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر اخراجات بڑھانے کا دباؤ پڑا، حالاN کہ وہ اب تک مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔

سیلابی حالات کے باعث صوبوں کی موجودہ سال میں بہتر کارکردگی متوقع نہیں، لیکن آئی ایم ایف ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے مالی نظم کو درست کریں، اسی دباؤ کا اظہار پنجاب کے وزیراعلیٰ کے اس بیان میں ہوا جس میں انہوں نے شکایت کی کہ آئی ایم ایف صوبے کے تمام مالی معاملات پر ان سے حساب مانگ رہا ہے۔

پنجاب کو مرکز کو 740 ارب روپے کا سرپلس فراہم کرنا ہے، سندھ کو 370 ارب، کے پی کو 220 ارب، اور بلوچستان کو 155 ارب روپے دینے ہیں۔

مزید برآں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں زرعی ٹیکس کے مؤثر نظام کے قیام میں مشکلات کا شکار ہیں، حالیہ سیلابی تباہی کے باعث وہ قوانین پر مکمل عملدرآمد کے بجائے نرمیوں اور رعایتوں کی متلاشی ہیں۔

صوبے اپنی بجٹ سرپلس کارکردگی کو وفاقی ریونیو کی کارکردگی سے مشروط کر رہے ہیں، تاہم، کے پی اور پنجاب نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سیلاب سے متعلق اخراجات اپنی ہی وسائل سے پورے کریں گے۔

اگرچہ تمام صوبوں نے زرعی آمدنی ٹیکس کے قوانین وقت پر منظور کر لیے تھے، لیکن ان پر عملدرآمد جو ستمبر یا اکتوبر سے شروع ہونا تھا، خصوصاً پنجاب اور سندھ میں جاری سیلابی حالات کے باعث اب بھی غیر یقینی ہے، حکام کو ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ متاثرہ لوگوں، شعبوں اور بنیادی ڈھانچے کے لیے کتنی مالی مدد درکار ہوگی۔

پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے وفد کی گفتگو میں گیس سیکٹر کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جو کسی حد تک بجلی کے شعبے سے واجبات کی منتقلی کا نتیجہ ہے، دونوں فریقین مستقبل میں گیس سیکٹر کے لیے نئے بینچ مارک طے کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں، جس میں تعریفات اور رپورٹنگ کے طریقہ کار شامل ہیں۔

ابھی تک دونوں فریقین ریاستی ملکیت کے اداروں (ایس او ایز) سے متعلق قوانین کی تعمیل کے معاملات حل نہیں کر سکے، جن میں پاکستان ویلتھ فنڈ کے تحت بڑی کمپنیوں کے انتظامی امور اور تمام سطحوں پر سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں و منافعوں کے عوامی انکشاف کے مسائل شامل ہیں۔
مجموعی طور پر جون 2025 کے آخر تک حکام کی پروگرام کارکردگی ملی جلی رہی ہے، اور مستقبل کا منظرنامہ مزید کوششوں کا متقاضی ہے۔

آئی ایم ایف نے تیل صاف کرنے والی پرانی ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کے لیے ٹیکس میں رعایت دینے کی حکومتی درخواست مسترد کر دی ہے، جس سے تقریباً 6 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔

آئی ایم ایف فنڈ کا کہنا ہے کہ ایسی رعایتیں ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ریسائلنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف)کے مقاصد کے خلاف ہوں گی۔

ریفائنری اپ گریڈیشن کی پالیسی دو سال قبل صنعت سے مشاورت کے بعد متعارف کروائی گئی تھی، اور کمپنیاں معاہدوں پر دستخط کے قریب تھیں، جب حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کسی بھی قسم کی ٹیکس چھوٹ نہ دینے کا وعدہ کر لیا۔

پیٹرولیم ڈویژن کا مؤقف ہے کہ موجودہ ریفائنریاں پیداوار اور کھپت دونوں سطحوں پر ماحولیاتی خطرات کا باعث بن رہی ہیں، جو انسانی صحت اور آب و ہوا دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

اگرچہ حکومت موسمیاتی منصوبوں کے لیے آر ایس ایف کے تحت فنڈز حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن اندرونِ ملک پرانی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث اسے تنقید کا سامنا ہے، حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ صورتحال آئی ایم ایف مذاکرات کاروں کی تکنیکی غلط فہمی اور وزارتِ خزانہ و ایف بی آر کے سخت مؤقف کا نتیجہ ہے۔

پاکستان نے جون 2025 کے آخر تک زیادہ تر مقداری اہداف (کوانٹیٹیو پرفارمنس انیشیٹیو) حاصل کر لیے ہیں، لیکن اشاریاتی اہداف (انڈیکیٹو ٹارگٹس) اور ساختی شرائط (اسٹرکچرل بینچ مارکس) میں پیچھے ہے، جو مستقبل کے پروگرام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

چوں کہ 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف اور ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے اار ایس ایف کے 6 ماہ بعد جائزے ہوتے ہیں، اس لیے دونوں فریقین کو ماضی کی کارکردگی اور مستقبل کی حکمتِ عملی پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قائم مقام صدر سردار ایاز صادق نے — خضدار میں 14 دہشت گرد ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • کرکٹر ابرار احمد رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کو تیار، شادی کب؟
  • حماس کا بیان جنگ بندی کے لیے امید کی کرن،پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کا ساتھ دیتا رہے گا، وزیراعظم محمد شہباز شریف
  • رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار
  • قوم، علماء پاکستان کی سلامتی، دفاع کیلئے افواج کیساتھ کھڑے: عبدالخبیر آزاد
  • امریکی صدر نے غزہ کے امن کیلئے جو 20 نکات پیش کئے وہ ہمارے نہیں: نائب وزیراعظم
  • پاکستانی ہمالیائی نمک سے تیار صابن نے عالمی ایوارڈ اپنے نام کرلیا
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • امریکا: پاکستانی نوجوان کو ڈاکٹر آف پولیٹیکل لیڈرشپ کی ڈگری تفویض
  • رانی مکھرجی نے اپنی شادی کی تصاویر مداحوں کیلئے جاری کیوں نہیں کیں؟ وجہ خود بتادی