سیالکوٹ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 مئی2025ء) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری 78 سالہ تاریخ میں بڑے اچھے اچھے لمحے اور مواقع آئے لیکن حالیہ فتح جو اللہ تعالیٰ نے پاکستان اور افواج پاکستان کو عطا کی ہے اس کی مثال ہماری 78 سالہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، ہمارا ازلی و ابد ی دشمن یہاں سے چند میل دور مشرقی سرحد کے اس پار بیٹھ کر اپنے زخم چاٹ رہا ہے ،انشااللہ تعالیٰ بہت جلد مغربی سرحد پر بھی ہمارے دشمن اسی طرح اپنے زخم چاٹ رہے ہوں گے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو یہاں اپنی رہائش گاہ پرافواج پاکستان کی جانب سےبھارت کو دندان شکن جواب دینے اور کامیاب آپریشن بنیان مرصوص پر مبارکباد دینے کے لیے آئے سٹینڈرڈ گروپ آف کالجز اینڈ کڈز کلب گرائمر سکول کے طلبا و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمیں اب مودی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بھارت کے طول و عرض میں اس کی شان میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ہم بھی نہیں کہہ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ معرکہ حق ہماری قومی وحدت و اتحاد کا باعث بنا کیونکہ آج سے پندرہ بیس دن پہلے ہماری قومی وحدت اور اتحاد میں دراڑیں نظر آتی تھیں لیکن الحمدللہ آج قوم متحد ہے اور اس کی شناخت ہماری پاک فوج کی بہادری بن گئی ہے جس پر میں اپنی فوج کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں پاک افواج کے سربراہ جنرل وعاصم منیر ، ایئر چیف مارشل ظہیراحمد بابر، نیول چیف نوید اشرف اور جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین ساحر شمشاد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کے جوان بچے اور بچیاں جس جرات اور بہادری سے لڑے اس میں ان سب کی قیادت کا بہت بڑا ہاتھ ہے، آپ کی قیادت ہی تھی جس نے ان جوانوں کے حوصلوں میں برکت ڈالی ، آپ کے حوصلے اور جرات و بہادری کا میں بذات خود چشم دید گواہ ہوں، میں نے اپنی ساری عمر میں 1965سے آج تک سارے تنازعات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا لیکن جس طرح ہماری قیادت اس وقت جذبہ ایمانی سے سرشار تھی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف ہر لمحے اور ہر موقع پہ اپنی قوم کی قیادت کی اور بہادر افواج کو یہ باور کروایا کہ سویلین حکومت دل و جان سے آپ کے ساتھ ہےاور آپ کی قربانیوں کی معترف ہے ، ملک و ملت کے دفاع کے لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے یہ باور کروایا کہ ہمیں جس حد تک بھی جانا پڑے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سویلین حکومت اپنی 25 کروڑ عوام کے ساتھ اپنی بہادر افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھلا بیٹھتی ہیں تو پھر تاریخ بھی انہیں بھی بھول جاتی ہے۔انہوں نے یہاں موجود اساتذہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ اور آنے والی نئی نسل کو اپنی تاریخ سے روشناس کروائیں اور انہیں بتائیں کہ کس طرح بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے کس طرح لبیک کہا اور ایک نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا ، جب سے ہم نے آزادی حاصل کی ہے تب سے ہی ہمارا ازلی و ابدی دشمن بھارت ہمارے درپے ہے اور پھر 10مئی کی رات ایک فیصلہ کن موڑ آیا اور ایک فیصلہ کن باب رقم ہوا جسے ہماری مسلح و بہادر افواج نے اپنی قربانیوں ، جرات اور بہادری سے رقم کیا جس پر ہم سب اپنی بہادر افواج کو سلام پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالی سب کو خوش و خرم رکھے اور ہمارے نوجوان بچے اور بچیوں کو محفوظ، مستحکم اور خوشحال پاکستان میں زندگی گزارنے کا موقع ملے۔انہوں نے کہا کہ اب ہماری جنگ دہشت گردوں کے خلاف ہے ، ہم نے بھارت کو مشرقی محاذ پرزمین پر، فضائوں اور پانیوں میں ہر جگہ شکست دی لیکن بھارت ہماری مغربی سرحدوں پر بھی مختلف پراکسیوں کے ذریعے جنگ لڑ رہا ہے اور آج سے نہیں بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے لڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد پاکستانی نہیں اور ان پلید دہشت گردوں کا اس پاک مٹی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بھارت کے ایجنٹ ہیں اور بھارتی ہی ہیں، چاہے وہ بی ایل اے ہو یا ٹی ٹی پی ہو جو ہماری مغربی سرحدوں پر لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم اور فضل سے ہمیں جو فتح مشرقی سرحد پر دی ہے اس سے بڑی فتح انشااللہ ہمیں مغربی سرحد پر بھی ملے گی اور ہمارے دشمن جو پاکستان کی قومی وحدت اور سلامتی کے خلاف نبرد آزما ہیں ان کا بھی اللہ کے فضل سے وہی حال ہو گا جو بھارتی فضائیہ کا ہوائوں میں ہوا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کی جانب سے دوبارہ کوئی جارحیت کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی جانب سے اسے پہلے سے بھی زیادہ کرارہ جواب دیا جائے گا اور پہلے اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو اسے بھی پورا کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اظہار تشکر اور پاک فوج سے اظہار یکجہتی اور ان کے لیے محبتوں کے پھول نچھاور کرنے کے لیے آنے والے طلبا و طالبات اور ان کے اساتذہ سمیت تمام لوگوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔\932.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ بہادر افواج اللہ تعالی کی قیادت کے ساتھ اور ان کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے

بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ آپ انہیں برسوں بلکہ عشرے گزر جانے کے باوجود بھی نہیں بھول پاتے۔ وہ ذہن میں نقش ہوجاتے اور آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آج کے کالم میں ’وی نیوز‘ کے قارئین کے لیے ایسا ہی ایک واقعہ اور اس سے جڑی باتیں شیئرکرنا چاہ رہا ہوں۔

یہ میرے کالج کے زمانے کا واقعہ ہے، یعنی خاصا پرانا، لگ بھگ 35 سال پہلے۔ کالج سے واپسی کے راستے میں ایک 60،65 سالہ بزرگ سا آدمی چنے چاول جسے سرائیکی میں چھولے چاول کہتے ہیں، کی ریڑھی لگاتا تھا۔ یہ بظاہرعام سی بات تھی۔

اس بابے میں مگرکوئی بات الگ تھی جو اسے دوسروں سے منفرد کرتی۔ ایک  بار جس نے اس کی ریڑھی سے پلیٹ بنوائی تو پھر ہمیشہ کے لیے وہ اس کا گاہک ہی بن گیا۔ ان کے چنے اور چاول لذیذ تو تھے ہی، مگر برتن بھی صاف ستھرے ہوتے۔

فی پلیٹ نرخ وہی تھا جو دوسرے چنے چاول والے دیتے، مگر مقدار زیادہ ہوتی۔ دوسروں کے برعکس وہ چنے خاصی مقدار میں ڈالتے، چاول کے ساتھ ہری مرچ، ٹماٹر، پیاز کا سلاد، پودینے کی تیکھی چٹنی، پھر خود ہی گاہک کے مزاج کا اندازہ کر کے درمیان  میں تھوڑے سے مزید چنے، چٹنی وغیرہ بغیر کہے ہی ڈال دیتے۔ ابھی یہ سطریں لکھتے ہوئے بھی ان چنے چاول کا ذائقہ گویا منہ میں اترآیا۔

ایک دن اتفاق سے وہ اکیلے ہی کھڑے تھے۔ میں نے پلیٹ بنوائی اور پھر یوں ہی گپ شپ شروع کر دی۔ وہ روہتکی سے ملتی جلتی زبان بولتے تھے، جسے ہمارے ہاں باگڑی کہا جاتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا سودا اس قدر اچھا، سوادش اور منفرد ہے۔ پلیٹ بھی دوسروں سے ڈبل کے قریب بنا دیتے ہیں، مگر پیسے آپ کے نسبتاً کم ہیں۔ کیا اس سے نقصان نہیں ہو رہا۔ اگر آپ اپنا ریٹ کچھ بڑھادیں تو کمائی بڑھ جائے گی۔ انہوں نے اپنی چمکدار آنکھوں سے میری جانب بغور دیکھا، مسکرائے اور پھر کہنے لگے ’اللہ نے ہمیشہ میرا ہر مسئلہ بڑی خوش اسلوبی سے حل کیا ہے، مجھے کیا پڑی ہے کہ مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا ہو کر بچتیں کرتا پھروں‘۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ کے لیے مجوزہ امن معاہدہ: اہم نکات، مضمرات، اثرات

یہ بات ایک عام، ان پڑھ سے ریڑھی والے سے سن کر اچنبھا سا ہوا۔  میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ آپ کا اللہ تعالیٰ پر اس قدر اعتماد کیسے بن گیا؟ وہ صاحب اپنے مخصوص باگڑی لہجے میں بولے، ’دیکھو میری 5 بیٹیاں ہیں، سب کی سب شادی شدہ اور اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں، مگر چند سال پہلے تک ایسی صورت نہیں تھی۔ بچیاں جوان ہوچکی تھیں، میں ان کے مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ پریشان رہتا کہ آخر ان کی شادیوں کا انتظام کیسے ہوگا۔ پریشانی اورالجھنوں نے مجھے چڑچڑا بنا دیا۔ ہر وقت ماتھے پر شکنیں پڑی رہتیں، گھر جاتا تو پریشانی اور بیزاریت مزید بڑھ جاتی۔ زندگی عجب کٹھن اور تکلیف دہ انداز سے گزر رہی تھی۔

ایک روزایک مجذوب سا بابا میری ریڑھی کے قریب سے گزرا۔ اس نے ایک نظر میری ریڑھی پر ڈالی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ بھوکا ہے، دوسرے فقیروں کے برعکس اس بابے نے بھیک کے لیے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔ میرے دل میں جانے کیا آئی کہ آواز دے کر اسے بلایا اور ایک اچھی سی پلیٹ بنا کر پیش کی۔ بابے نے خاموشی سے پلیٹ کھائی، پانی کا گلاس پیا اور جاتے جاتے  میری جانب آیا، اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور نرمی سے سرائیکی میں بولا ’بیٹا تو اپنے اوپر کیوں بوجھ لے پھررہا ہے، جس کا کام ہے، اسے کرنے دے۔ اس قدر  وزن کندھوں پر  اٹھائے رکھے گا تو کمر ٹوٹ جائے گی۔ یہ بوجھ اوپر والے، اپنے مالک کے حوالے کر دے، جو تجھ سے ہو سکتا ہے کر لے، اس کے بعد سب کچھ اس ذات پر چھوڑ دے۔ سکون سے  بیٹھ اورمزے سے سیٹیاں بجا۔ وہ خود ہی تیرے مسئلوں کا حل نکال دے گا‘۔

اس بابے کی بات سن کر میں ہل گیا۔ معلوم نہیں وہ کوئی روشن ضمیر درویش تھا، یا ویسے ہی اسے میری پریشان شکل دیکھ کر اندازہ ہوا اور اس نے اپنی عقل کے مطابق وہ مشورہ دیا۔ خیر اس رات گھر جا کر میں نے سونے سے پہلے یہی کام کیا۔ وضو کر کے نماز پڑھی، نفل پڑھے اور پھر سجدے میں پڑ کر خوب رویا، زاروقطار رویا۔ اپنی پوری کہانی رب کو سنائی۔ گلے شکوے بھی کیے، اپنی التجائیں رکھیں اور آخر میں درخواست کی، ’اللہ میاں میری بس ہوگئی ہے، میں نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر لی۔ آمدنی بڑھانے، وسائل پیدا کرنے اور اپنی پریشانی کا حل نکالنے کی ہر ممکن تدبیر کر چکا ہوں۔ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ جوان بیٹیوں کا پہاڑ سا بوجھ میں کب تک اٹھائے رکھوں؟ میں اب اپنے تمام ہتھیار پھینک کر یہ مسئلہ مولا آپ ہی کے حوالے کرتا ہوں۔ کوشش اور محنت میں پوری کروں گا، مگر آپ خود ہی مجھے کوئی راستہ دکھائیں۔ میرے لئے آسانی پیدا کریںاور اپنے غیب سے مسائل حل کریں‘۔

یہ بتاتے ہوئے وہ چنے چاول کی ریڑھی والے بزرگ عجیب سے انداز میں مسکرائے، ان کی آنکھوں میں شبنم اتر آئی تھی۔ چند لمحوں کے وقفے کے بعد کہنے لگے، ’مجھے یوں لگا جیسے میری دعا زمینوں اور آسمانوں کے مالک تک پہنچ گئی ہے۔ عجیب سا سکون محسوس ہوا۔ اس واقعے کو مشکل سے ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ ہماری برادری ہی سے 2 رشتے آگئے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمیں کوئی جہیز چاہیے نہ ہی ہم بارات لے کر آئیں گے۔ 2،4 بندے آئے اور ڈولی لے گئے۔ ہم سب ہکا بکا تھے کہ اچانک ہی یہ سب کیسے ہوگیا؟ اگلے چند مہینوں میں باقی  تینوں بچیوں کے بھی رشتے آئے اور چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح سب اپنے گھروں کو سدھار گئیں۔ ہم دونوں میاں بیوی اللہ کی قدرت، اس کی مہربانی اور کرم نوازی پر ششدر تھے۔ ایک کمزور، بے عمل غریب ریڑھی والے نے اپنا مسئلہ اللہ کے سپرد کیا تو اس میں ہمارا کیا کمال تھا، کمال تو اس عظیم ذات کا تھا،جس نے ہمارا بھرم رکھا اور وہ تمام بوجھ ہمارے کندھوں سے ہٹا لیا۔ اس دن کے بعد مستقبل کا ہر اندیشہ دل ودماغ سے نکل گیا ہے۔ محنت کے ساتھ رزق حلال کمانے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ آگے کا کبھی نہیں سوچا۔ جو پریشانی،مشکل آتی ہے، وہ اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ وہ بڑی عظمتوں والا ہے، اس کا کام ہے، وہی جانے، جو حل نکال دیتا ہے، اس پر خوش ہوجاتے ہیں۔ کبھی کوئی کام فوراً ہوجاتا ہے، کبھی کچھ دیر بھی لگ جاتی ہے، مگر بعد میں ہمیں خود ہی اندازہ ہوجاتا ہے اس میں دیر ہونا ہمارے لئے ہی بہتر تھا‘۔

اس بات کو کتنے سال گزر گئے، من کہ عامر خاکوانی گرییجوییشن اور پھرایل ایل بی کرنے کے بعد صحافت کی دنیا میں داخل ہوا، 29،30 سال ادھر بھی گزر چکے ہیں۔ وہ ریڑھی والا بابا یقیناً اب دنیا سے رخصت ہوچکا ہوگا، مگر اس کا بتایا سبق ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔

مزید پڑھیے: کیا آج کا وائٹ ہاؤس درست فیصلہ کر پائے گا؟

لاہور آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک صاحب عرفان بزرگ سرفراز اے شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی، ان کی روحانیت پر لیکچرز میں شریک ہوتا رہا۔ بعد میں بہت سی نشستوں کا موقع بھی ملا۔ شاہ صاحب لیکچرز پر مشتمل 8 کتابیں (کہے فقیر سیریز) شائع ہوچکی ہیں۔ جدید دور میں تصوف کے حوالے سے ایسی شاندار کتابیں کہیں اور نہیں دیکھیں۔ اتنے آسان، عام فہم انداز میں تصوف کے باریک نکات کو کھول کر بیان کیا گیا کہ حیرت ہوتی ہے۔

شاہ صاحب کی خوبیاں تو بے شمار ہیں۔ ان پر طویل تحریر لکھ سکتا ہوں۔ دو باتیں مجھے خاص طور سے پسند ہیں۔ ایک تو وہ اپنی شخصیت کے گرد لوگوں کو جمع کرنے کے بجائے اللہ سے تعلق بنانے پر زور دیتے ہیں۔ ہر ایک کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ رب سے بات کریں، اسی سے مکالمہ کریں، محبت کریں اور قرب کا تعلق بنائیں۔

دوسرا انہیں میں نے کبھی آج تک پریشان، مضطرب نہیں دیکھا۔ ہمیشہ اطمینان، سکون اور طمانیت کی غیر معمولی صورت میں نظر آئے۔ ایک بات وہ اکثر کہا کرتے ہیں، بندے کو اپنے مسائل اور ان کے من پسند حل کے لیے پریشان ہونے کے بجائے اپنی پوری کوشش کے بعد ہر معاملہ رب کے سپرد کردینا اور اس پر مکمل اعتماد کرنا چاہیے۔ رب تعالیٰ اس کا بہترین حل نکال دیں گے… ایسا حل جو اس کے شائد وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔

    میرا اپنا ذاتی تجربہ بھی ہے، بہت سے دوستوں اور جاننے والوں کو بھی یہ بات بتائی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب آپ اپنے مسائل، تکالیف اور پریشانیوں کا بوجھ خود اٹھانے کے بجائے یہ گٹھڑی اتار پھینکتے ہیں، اللہ پر سب چھوڑ دیتے ہیں، خود اپنی سی بہترین کوشش کرتے ہیں اور پھر رب کریم جو نتیجہ نکالے، اس پر راضی ہوجاتے ہیں، تو اس سے بہتر صورت کوئی اور نہیں۔ آپ نہ صرف ریلیکس ہوجاتے ہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ بہت سے پیچیدہ، الجھے ہوئے مسائل سلجھتے جاتے ہیں۔ اس تیزی کے ساتھ کہ آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟

یہ نکتہ یاد رکھیں کہ اپنی طرف سے کوشش میں کوئی کسر نہ رکھی جائے، لیکن نتائج کی ذمہ داری اپنی عقل پر لینے کے بجائے یہ بوجھ اتار پھینکا جائے۔ اپنے رب، اپنے مالک، کائنات کے خالق پر اعتماد کرتے ہوئے نتیجہ ان پر چھوڑ دیا جائے تو وہ  اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ سمجھنے کی بات صرف ایک ہے کہ بعض اوقات کسی کام میں کسی خاص وجہ سے دیر ہوجاتی ہے اورپھرکچھ مشکلات، آزمائشیں بندے کی بہتری، اسے کندن بنانے کے لیے بھی وارد ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر اپنے رب کا ہاتھ تھاما جائے تو  اس پر مکمل اعتماد بھی کرنا چاہیے، پھرنتیجہ جو بھی آئے، اسے خوشدلی سے قبول کیا جائے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

اپنا بوچھ اللہ حوالے اللہ توکل اللہ سے سودا اللہ کے حوالے اللہ والے سپرد خدا

متعلقہ مضامین

  • وزیرِ اعظم کی نواز شریف سے ملاقات، اہم سیاسی و قومی امور پر تبادلہ خیال
  • وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کی سابق وزیرِ اعظم اور صدر مسلم لیگ ن محمد نواز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات،حالیہ بیرونی دوروں کےحوالے سے آگاہ کیا
  • قوم، علماء پاکستان کی سلامتی، دفاع کیلئے افواج کیساتھ کھڑے: عبدالخبیر آزاد
  • پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ بدل دیں گے،بھارتی وزیر دفاع کی گیدڑ بھبکی
  • پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ بدل دیں گے؛ بھارتی وزیر دفاع کی گیدڑ بھبکیاں
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • حفاظتِ نظر کا انعام
  • وزیر دفاع خواجہ آصف کی آزاد کشمیر کے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل
  • خواجہ آصف کی آزاد کشمیر کے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل