مناسب نہیں پانی سے متعلق حکومتی پلان میڈیا پر بیان کروں،اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
ہم سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارت کو بھرپور جواب دے چکے ہیں، ہم نے امریکی وزیر خارجہ کو جواب دیا کہ اگر بھارت نے دوبارہ حملہ کیا تو ہمیں جواب دینے کا حق ہے
پاکستان کا بیانیہ اجاگر کرنے کے لیے پورا پلان تیار ہے ، ہمارے پارلیمنٹرین کا ایک وفد امریکا، دوسرا وفد یوکے ، برسلز اور فرانس جائے گا جبکہ ہمارا ایک وفد روس بھی جائے گا، نائب وزیراعظم
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مناسب نہیں پانی سے متعلق حکومتی پلان میڈیا پر بیان کروں۔نجی ٹی وی سے گفتگو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارت کو بھرپور جواب دے چکے ہیں، مناسب نہیں کہ پانی سے متعلق پلان میڈیا پر سامنے لاؤں۔انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ نے کال کی اور بتایا کہ بھارت سیز فائر پر تیار ہے ، ہم نے جواب دیا اگر بھارت سیز فائر پر تیار ہے تو ہم بھی تیار ہیں۔نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم نے امریکی وزیر خارجہ کو جواب دیا کہ اگر بھارت نے دوبارہ حملہ کیا تو ہمیں جواب دینے کا حق ہے ، سیز فائر کے بعد پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا۔اُن کا کہنا تھا کہ قرار داد میں کھلے دل کے ساتھ اپوزیشن کی تجاویز کو شامل کیا، ایک ہی قرار داد پر ہمارے اور اپوزیشن کے دستخط موجود ہیں۔سینیٹر اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا بیانیہ اجاگر کرنے کے لیے پورا پلان تیار ہوچکا ہے ، ہمارے پارلیمنٹرین کا ایک وفود امریکا، دوسرا وفد یوکے ، برسلز اور فرانس جائے گا جبکہ ہمارا ایک وفد روس بھی جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں واٹر ریزروائرز راتوں رات نہیں بنتے ، ہم سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارت کو بھرپور جواب دے چکے ہیں۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ بھار ت نے چار میزائل فائر کیے تین امرتسر میں گرے ، بھارت ایک میزائل پاکستانی حدود میں آیا، جسے کامیابی سے گرادیا گیا تھا۔اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے کام ہورہا ہے ، ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے ان کے 24 اپریل کے خط کا جواب دے دیا تھا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے ، ہم نے جواب دیا کہ جو آپ نے خط لکھا ہے یہ عمل غیرقانونی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایم اوز کے مذاکرات کے کئی راؤنڈز ہوچکے ہیں، 18 مئی کو پھر ہوگا، سیزفائر ہوچکا ہے ، کشیدگی میں کمی کے لیے شیڈول طے ہے اور عمل ہو رہا ہے ، اگلا مرحلہ مذاکرات کا ہوگا ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
حکومتی بے توجہی
26 ویں آئینی ترمیم کی حمایت پر مولانا فضل الرحمن سے ناراض پی ٹی آئی کو 27 ویں ترمیم کے خطرے کے پیش نظر مولانا پھر یاد آ گئے اور مولانا کے در پر پی ٹی آئی کا وفد پھر پہنچ گیا تھا۔ اس موقع پر علی محمد خان نے کہا کہ مولانا صاحب ہمارے ساتھ آ جاتے ہیں تو وزن بڑھے گا۔
انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وزن کس کا بڑھے گا؟ علی محمد خان وفد میں شامل نہیں تھے اور اپنے خیالات کا اظہار انھوں نے ایک ٹاک شو میں کیا، مولانا سے ملنے والے وفد میں اسد قیصر شامل تھے ۔ اس ملاقات میں مولانا نے محمود اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی کی طرف سے نامزد کیے جانے کی حمایت کی۔ مولانا اور محمود خان ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی نے مولانا سے رفاقت بڑھانے میں پھر پہل کی اور محمود خان کے لیے مولانا کی حمایت حاصل کر لی تھی۔
اس سے چند روز قبل بلاول بھٹو بھی مولانا فضل الرحمن سے ملنے ان کے گھر گئے تھے اور انھوں نے باہمی گفتگو کے بعد مولانا کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی جو مولانا نے قبول کر لی ہے یہ ملاقات ایوان صدر میں ہوگی یا کہیں اور یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مولانا کب اور کہاں جائیں گے۔
بلاول بھٹو نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے مولانا سے ملاقاتیں کرکے ان کی حمایت حاصل کی تھی جس پر پی ٹی آئی مولانا سے کچھ خفا تھی۔ اس بار حکومتی اتحاد کی نشستیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے قومی اسمبلی میں بڑھ گئی ہیں جس سے (ن) لیگ کے ارکان کی تعداد بھی بڑھی ہے مگر (ن) لیگ سینیٹ میں پی پی سے پیچھے ہے جہاں 27 ویں ترمیم کی منظوری پیپلز پارٹی کی حمایت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کی آئینی برطرفی میں مولانا فضل الرحمن کا اہم کردار تھا مگر جب فروری 2024 کے عام انتخابات میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے مولانا کو مکمل نظرانداز کیا تھا اور چوہدری شجاعت حسین کے گھر میں جو معاملات طے ہونے تھے ان میں مولانا سے رابطہ تک نہیں کیا گیا اور دونوں پارٹیوں نے صدر مملکت اور وزیر اعظم کے عہدے آپس میں بانٹ لیے تھے اور دونوں بڑی پارٹیوں کی طرف سے مولانا کو شاید اس لیے نہیں بلایا گیا کہ مولانا ملک کی صدارت مانگ رہے تھے اور اگر مولانا فضل الرحمن کو شامل کیا جاتا تو مولانا اپنے سابق اتحادیوں کو ان کا وعدہ یاد دلاتے اسی لیے مولانا کو بلایا ہی نہیں گیا تھا۔
آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر پنجاب میں پیپلزپارٹی کو نمایاں نشستیں نہ ملیں تو زرداری صاحب نے دوبارہ صدر بننے کی خواہش کی جو باہمی معاہدے کے مطابق انھیں مل گئی تھی مگر پھر بھی دونوں بڑی پارٹیوں نے مولانا کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش تک نہ کی اور بلوچستان کی حکومت بھی پیپلز پارٹی نے حاصل کر لی حالانکہ وہاں (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی کے ووٹ تقریباً برابر برابر تھے، اس لیے بلوچستان میں وزیر اعلیٰ جے یو آئی کا بنایا جا سکتا تھا پیپلز پارٹی نے مولانا کے لیے یہ قربانی بھی نہیں دی تھی۔
(ن) لیگ بھی چاہتی تو مولانا کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے انھیں نائب وزیر اعظم بننے پر راضی کر سکتی تھی مگر یہ عہدہ بھی (ن) لیگ اپنے قائد کے سمدھی کو دینا چاہتی ہوگی، اس لیے یہاں بھی مولانا کو نظرانداز کیا اور دونوں بڑی پارٹیوں نے جان بوجھ کر اپوزیشن میں دھکیلا مگر مولانا پی ٹی آئی سے بھی نہیں ملے اور تنہا ہی اپوزیشن کر رہے ہیں۔
مولانا سے صدر زرداری کی خفگی کی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ گزشتہ فروری کے الیکشن میں جے یو آئی نے سندھ میں پی پی کو سخت ٹف ٹائم دیا تھا اور پی پی کے مقابلے میں اپنے امیدوارکھڑے کیے تھے مگر سندھ میں چوتھی بار بھی پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت دینی تھی، اس لیے مولانا کے امیدواروں نے بھی لاکھوں ووٹ لیے مگر کوئی نشست جے یو آئی جیت نہیں سکی تھی۔
دکھاوے کے لیے الیکشن کے بعد صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف مولانا سے ملنے ان کے گھر بھی گئے تھے۔ حکومتی بے توجہی سے مولانا کو دکھ تو ہوگا جس کی ذمے دار حکومت ہے اور حکومت جان بوجھ کر خود سے الگ رکھ کر پی ٹی آئی سے قربت بڑھانے پر مجبور کر رہی ہے۔