بھارت: پاکستان سے مبینہ روابط اور ’آپریشن سندور‘ سے متعلق بیانات پر متعدد افراد گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
بھارتی پولیس نے ہریانہ، پنجاب اور دہلی میں خاتون ولاگر اور یونیورسٹی پروفیسر سمیت متعدد افراد کو پاکستان سے مبینہ روابط اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی سے متعلق بیانات پر گرفتار کر لیا ہے۔ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پر بھارت کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے تنازع میں عالمی سطح پر ناکامی کے بعد بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور وہ اپنے ہی شہریوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنارہا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے دوران بھی گودی میڈیا میں جھوٹ کا بازار گرم رہا اور بھارتی میڈیا میں صرف جھوٹی اور بے بنیاد خبریں ہی چلائی گئیں جس کی عالمی اداروں نے بھی تصدیق کی۔
بعد ازاں6 اور 7 مئی کی درمیانی شب نئی دہلی نے پاکستان پر فضائی حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا.
دوسری جانب بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی پولیس نے ٹریول ولاگر جیوَتی ملہوترا کو پنجاب اور ہریانہ سے 5 دیگر افراد کے ہمراہ پاکستان کے لیے مبینہ جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا، جن میں 25 سالہ طالب علم اور 24 سالہ سیکیورٹی گارڈ شامل ہے، جن کا تعلق پنجاب اور ہریانہ سے ہے۔اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ نے 8 مئی کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہندوتوا نظریات رکھنے والی شخصیات کی جانب سے کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف میں ’ تضاد’ کی نشاندہی کی تھی۔انہوں نے لکھا ’ان لوگوں کو ہجوم کے ہاتھوں قتل، من مانی فیصلے اور بی جے پی کی نفرت انگیزی کا شکار بننے والے دیگر افراد کو بطور بھارتی شہری تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی اتنی ہی زور سے مطالبہ کرنا چاہیے۔
10 مئی کو پاک فوج کی جانب سے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا گیا، جس میں بھارت کے 26 ملٹری اہداف کو نشانہ بنایا گیا، بالآخر 10 مئی کو شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔بھارتی پولیس نے ریاست ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمودآباد کو دہلی میں ان کے گھر سے گرفتار کیا، انہیں ’آپریشن سندور‘ سے متعلق بیان دینے پر گرفتار کیا گیا۔بھارتی پروفیسر کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی یوتھ ونگ کے جنرل سیکریٹری یوگیش جھتری نے ہریانہ کے ضلع سونی پت میں شکایت درج کروائی تھی. جس کی تصدیق ان کے وکیل کی جانب سے کی گئی۔علی خان محمودآباد پر فرقہ وارانہ بیانات، نفرت انگیز مہم، بغاوت، تخریبی سرگرمیوں پر اکسانے اور مذہبی عقائد کی توہین جیسے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کی جانب سے کے درمیان بھارت کے کیا گیا مئی کو
پڑھیں:
آپریشن سندور بارے پوسٹ، بھارت میں مسلمان پروفیسر گرفتار
بھارتی ریاست ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر کو آپریشن سندور سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے پر گرفتار کرلیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان کیخلاف آپریشن سندور سے متعلق فورسز کی پریس کانفرنس پر تنقید کرنے پر ہریانیہ کی اشوکا یونیورسٹی کے پروفسیر علی خان محمودآباد کو گرفتار کرلیا گیا، وہ شعبہ سیاسیات کے سربراہ ہیں۔
بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) کے یووا مورچا نے ان کیخلاف درخواست دی تھی جس پر ایکشن لیا گیا۔
اشوکا یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ’ہمیں بتایا گیا کہ پروفیسر علی خان محمودآباد کو صبح کے وقت حراست میں لیا گیا، ہم کیس کے حوالے سے تفصیلات جاننے کی کوشش کررہے ہیں‘۔
گرفتاری ہریانہ کے ریاستی کمیشن برائے خواتین کی جانب سے ان کے سوشل میڈیا پر کیے گئے ایک تبصرے کا از خود نوٹس لیے جانے کے چند روز بعد سامنے آئی ہے۔
نوٹس میں کمیشن کا کہنا تھا کہ ’ریمارکس نے ہندوستانی مسلح افواج میں شامل خواتین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور فرقہ وارانہ اختلاف کو ہوا دی‘۔
علی خان نے کمیشن کی جانب سے طلب کیے جانے پر کہا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر آپریشن سندور یا خواتین کیخلاف کوئی بات نہیں کی۔