Daily Mumtaz:
2025-05-19@16:29:23 GMT

عالمی تجارت کی نئی صف بندی، پاکستان کے لیے نیا موقع

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

عالمی تجارت کی نئی صف بندی، پاکستان کے لیے نیا موقع

اسلام آباد:عالمی تجارت میں بڑی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں بڑے معاشی طاقتوں کے مابین نئے تجارتی معاہدے ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکا اور چین کے درمیان تاریخی تجارتی معاہدہ طے پایا، جس کے تحت باہمی محصولات میں 115 فیصد کمی کی گئی ہے اور اہم تجارتی پابندیاں نرم کی گئی ہیں۔

اس معاہدے سے عالمی سطح پر تجارتی تناؤ میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، لیکن مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی منڈیوں میں اپنی موجودگی کو مضبوط کرے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کی موجودہ برآمدات محض 0.

17 فیصد ہیں، جو کہ بنگلہ دیش جیسے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے، اگر پاکستان اپنی برآمدات کا حصہ صرف 1 فیصد تک بھی بڑھا لے، تو ملکی برآمدات میں چھ گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان صرف ٹیکسٹائل اور کم قیمت مصنوعات پر انحصار کرنے کے بجائے اعلیٰ قدر والے شعبوں جیسے انجینئرنگ، فارماسیوٹیکل اور آئی ٹی خدمات میں قدم بڑھائے۔ چین کے ساتھ بھی پاکستان کے معاشی تعلقات میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔،

2006 میں دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ (FTA) طے پایا، لیکن پاکستان اس سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکا۔ ویتنام اور تھائی لینڈ جیسے ممالک نے چین کی معیشت کے ساتھ مضبوط انضمام کیا اور اپنی برآمدات میں نمایاں اضافہ کیا، جبکہ پاکستان تحفظاتی پالیسیوں کی وجہ سے پیچھے رہ گیا۔

ترکی اور میکسیکو کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنھوں نے اپنے بڑے معاشی شراکت داروں کے ساتھ اقتصادی انضمام کے ذریعے اپنی برآمدات کو کئی گنا بڑھایا۔ ترکی نے یورپی یونین کے ساتھ کسٹمز یونین میں شامل ہو کر 2023 تک دو طرفہ تجارت کو 206 بلین یورو تک پہنچایا۔

اسی طرح، میکسیکو نے NAFTA میں شمولیت کے بعد اپنی برآمدات کو 51 بلین ڈالر سے بڑھا کر 594 بلین ڈالر تک پہنچایا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی عالمی تجارتی منظرنامے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے حکمت عملی تبدیل کرنی ہوگی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان چین اور امریکا کے ساتھ اسٹریٹجک تجارتی معاہدے کرے، تحفظاتی پالیسیوں کو ترک کرے، اور اعلیٰ قدر والی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کرے۔ اگر پاکستان نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا، تو عالمی تجارت کی نئی لہر سے محروم رہ سکتا ہے۔

Post Views: 3

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اپنی برا مدات عالمی تجارت کہ پاکستان کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

مشرق وسطی کی نئی عالمی صف بندی

اگر پاک بھارت جنگ جاری رہتی تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے منفعت بخش کاروباری دورے کبھی نہ کر پاتے۔ صدر ٹرمپ کے اس کامیاب دورے کے بعد امریکہ تیزی سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کرنے کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائےگا۔ امریکہ کو یہ موقع کاروبار کے کنگ ڈونلڈ ٹرمپ نے فراہم کیا۔جنگ کے آغاز میں انہوں نے واضح طور پرکہا تھا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے، دونوں ممالک اسے خود سلجھائیں۔ جنگ کے آغاز سےچند ہفتےقبل امریکہ نے بھارت کے ساتھ 4 سالوں میں 420 ارب ڈالر کااسلحہ سپلائی کرنےکامعاہدہ کیا تھا۔ شائد اس معاہدے کے پیچھے بھارت نے سمجھا کہ اس کی پشت پر امریکہ کھڑا ہے یا پھر بھارت کی پیٹھ ٹھونکی گئی تھی اور پہلگام کو بہانہ بناکر 7مئی کو انڈیا نےبہاول پورمیں پاکستان پر حملہ کر دیا، 10مئی کو پاکستان نے بھارت کے مختلف شہروں، اسلحہ کی انسٹالیشنز اور چوکیوں وغیرہ کو ملتا میٹ کر کے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر کو سرپرائز دیا تو انڈیا نے پاکستان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور امریکہ کی طرف بھاگاجس پرڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرف جنگ بندی کروا کر بھارت پر احسان کر دیا اور دوسری طرف صدر ٹرمپ اگلے ہی روز 11 مئی کو سعودی عرب پہنچ گئے جہاں ان کا غیر روایتی انداز میں تاریخی استقبال کیا گیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے تاریخ کے سب سے بڑے دفاعی آلات کی فروخت کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جس کی مالیت تقریباً 142 بلین ڈالر ہےجبکہ سعودی عرب نے 600 بلین ڈالر (168,600 ارب روپے) کی امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے کا میگا معاہدہ بھی کیا جو مشرقِ وسطی کی نئی سمت کا تعین کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سعودی عرب کی امریکہ میں دیگر انوسٹمنٹ کو بھی اس میں شامل کیا جائے تو یہ تقریباً ایک ٹریلن ڈالر کی سرمایہ کاری بنتی ہے۔ جس پس منظر میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان یہ معاہدے ہوئے ٹرمپ کا یہ صرف ایک سفارتی دورہ ہی نہیں بلکہ مشرق وسطی کی طاقت کے توازن کو ایک نئی سمت دینے والا معاہدہ ہے بلکہ یہ تاریخی سرمایہ کاری ایک ایسا معاہدہ ہے جو عالمی معیشت اور دفاعی تعلقات کے نقشے کو ایک نئی جہت دے رہا ہے۔
تفصیلات کےمطابق سعودی عرب اور امریکہ کے ان دفاعی معاہدوں میں جدید ترین اسلحہ، جنگی طیارے، میزائل سسٹمز اور فوجی تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 20 بلین ڈالر مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل ڈیٹا سینٹرز کے قیام کے لئے بھی مختص کیے گئے ہیں، جبکہ 80 بلین ڈالر امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے لئے رکھے گئے ہیں۔یہ معاہدے صرف مالی لین دین ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک پیغام ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف خود کو جدید عالمی معیشت کا مرکز بنانے جا رہا ہے، بلکہ امریکہ جیسے طاقتور ملک کے ساتھ مل کر وہ اپنے دفاعی اور تکنیکی اتحاد کو بھی نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ چین، روس اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ بڑھتی سعودی قربتوں کا توازن بحال کرنے کی کوشش ہے یا ٹرمپ کی واپسی کی سیاسی زمین ہموار کرنے کی ایک اسٹریٹیجک چال ہے؟ یہ جو بھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی اسلحہ خریداری اور سرمایہ کاری کے یہ معاہدے نہ صرف امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی سعودی انویسٹمنٹ کا پیکج ہے، بلکہ اس نے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر مشرقِ وسطی کی جانب مبذول کر دی ہے۔
امریکی صدر کے اس تہلکہ خیز کامیاب دورے نے عالمی منظرنامہ کو سرعت رفتاری سے بدل دیا ہے۔ امریکہ جب سے پاپولرازم کی طرف بڑھا ہے نتیجتاً امریکہ اور دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ کا تحفہ ملا ہے۔ ٹرمپ ایک کامیاب ترین کاروباری ہستی ہیں۔ اس دورے میں سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور شام کے عبوری صدر احمد الشرع شامی نے بالمشافہ ٹرمپ سے ملاقات کی اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اب شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔ اسی ملاقات میں صدر ٹرمپ نے سعودی کرائون پرنس کی سفارش پرشام سے پابندیاں ہٹانے کا اعلان کردیا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شام کے صدر احمد الشرع سے یہ 37 منٹ کی ملاقات بہت غیر معمولی ملاقات ثابت ہوئی جس کا چند ماہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ ماضی میں شامی صدر’’القاعدہ‘‘ سے وابستہ رہے تھے۔ امریکہ کی جانب سے شامی رہنما کے سر کے لئے ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا گیا تھا جو اس سے قبل امریکہ نے دسمبر 2024 ء میں ختم کیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں اپنے خطاب میں کہا کہ سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا میری عزت افزائی ہو گی، میری خواہش ہے اور امید ہے کہ سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں بھی شامل ہو جائے گا۔ابراہیمی معاہدے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پرلانے کےلئےطے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ معاہدے 2020 ء میں امریکہ کی ثالثی میں طے پائے گئے تھے۔ ان کا مقصد اسرائیل کو ابراہیمی بھائی قرار دیتے ہوئے اسے بطور ریاست تسلیم کرانا ہے۔ ابراہیمی معاہدے جو سال 2020ء میں طے ہوئے تو اس وقت کے اہم فریق اسرائیل، یو اے ای، بحرین، سوڈان اور مراکش تھے۔ اس میں مرکزی فریق کے طور پر اسرائیل سرفہرست تھا جس کی ضرورت تھی کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے۔ متحدہ عرب امارات پہلا عرب ملک تھاجس نے ستمبر 2020 ء میں اس معاہدے پر دستخط کئے۔ متحدہ عرب امارات کے فوراً بعد بحرین اس میں شامل ہوا، جبکہ جمہوریہ سوڈان اکتوبر 2020 ء میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانےکےلئے رضامند ہوا تھا۔ پانچویں فریق کے طور پر مراکش نے دسمبر 2020 میں اس معاہدے پر دستخط کر کے اس میں شراکت اختیار کی تھی۔
ابراہیمی معاہدے کے فریق ممالک میں سے کسی بھی ملک نے فلسطین کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم پر بات چیت نہیں کی تھی۔ کیوں کہ یہ معاہدے بنیادی طور پر فلسطین سے الگ ہو کرطے پائے تھے۔ اہل غزہ اس معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران بھی اس معاہدے کا فریق نہیں ہےلیکن ٹرمپ نےاپنےخطاب میں کہاہےکہ ایران حزب اللہ جیسی پراکسیز بند کرے تو ہم اس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کئی مواقع پرکہہ چکی ہےکہ وہ امریکہ کےساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں، لہذا محسوس ہوتا ہےکہ ایران اس معاہدے کی جانب پیش رفت کرےگا اور شاید اس طرح دو ریاستی فارمولہ طےپاجائے۔ اگرفلسطین کوایک الگ ریاست تسلیم کرلیاجاتا ہےتو ابراہیمی معاہدے کامیاب ہوسکتے ہیں اور مشرق وسطی میں پائیدار امن قائم ہو سکتاہے۔ سعودی عرب کی بھی یہی خواہش ہے۔ ایران سعودیہ سفارتی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک دو ریاستی حل کےلئے ٹرمپ سے ایک پائیدار معاہدہ کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • جغرافیائی شناخت مقامی مصنوعات کو عالمی سطح پر منفرد پہچان دیتی ہے، جام کمال
  • رجب بٹ نے شہری پر تشدد کے بعد معافی مانگ لی
  • مودی حکومت کی پاکستان دشمنی: ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ تجارتی و تعلیمی بائیکاٹ
  • مشرق وسطی کی نئی عالمی صف بندی
  • پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ ​​بندی برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، وزیراعظم
  • ٹرمپ نے 150 ملکوں کو وارننگ دے دی
  • صوبائی وزیر صنعت و تجارت چوہدری شافع حسین کی وطن واپسی، دورہ چین میں پنجاب میں سرمایہ کاری کے 4 معاہدے طے پائے
  • عالمی تجارت اور لاجسٹکس میں پاکستان سٹریٹجک کردار ادا کر رہا ہے،سفیر فیصل نیاز ترمذی
  • ٹک ٹاکر رجب بٹ کا شہری پر تشدد، ویڈیو وائرل