ججز ٹرانسفر اورسینیارٹی کیس: ججز ٹرانسفر میں تو فائلوں کو راکٹ لگا دیے گئے، وکیل حامد خان کا استدلال
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر کی سمریوں پر ایک ہی روز میں پراسس مکمل کیا گیا، جسٹس شکیل احمد نے دریافت کیا کہ کیا آئین و قانون میں ایک روز میں پراسس مکمل کرنے پر کوئی پابندی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ججز سینیارٹی کیس: تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا اس پر آئین خاموش ہے، جسٹس محمد علی مظہر
اس موقع پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ فائلوں کو پہئیے لگانے کا کہا جاتا ہے لیکن ججز ٹرانسفر میں تو فائلوں کو راکٹ لگا دیے گئے، شوکت صدیقی کیس میں بھی ایک روز میں سارا پراسس مکمل کیا گیا تھا، اتنی جلد بازی کےمقاصد کچھ اور ہوتے ہیں،
حامد خان نے عدالت کوبتایا کہ بلوچستان ہائیکورٹ میں قائمقام چیف جسٹس نے رضامندی دی، چیف جسٹس آف پاکستان سے سب سے آخر میں منظوری لی گئی، یکم فروری کو تیار ہونے والی سمری میں پہلی مرتبہ حلف برداری اور سینیارٹی کا ذکر کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ججز تبادلہ کیس: تبادلوں کی اصل وجہ حساس اداروں کی مداخلت پر خط تھا، منیر اے ملک کا دعویٰ
جسٹس محمد علی مظہر نے حامد خان سے کہا کہ چاہتے ہیں کہ آپ آج دلائل مکمل کرلیں، جس پر حامد خان بولے؛ اس عمر میں دو بجے کے بعد کام کرنا مشکل ہے، کل اپنے دلائل مکمل کرلوں گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ساری بات ایک ہی جج پر ہو رہی ہے، باقی ججز نے کسی کی سینیارٹی متاثر نہیں کی تو کوئی بات نہیں کررہا، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ کل اپنی تحریری معروضات بھی جمع کروا دیں گے۔
کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلے جسٹس محمد علی مظہر حامد خان سپریم کورٹ سینیارٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ تبادلے جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سینیارٹی جسٹس محمد علی مظہر
پڑھیں:
کیا سانحہ سوات کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہے؟ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ
—فائل فوٹوچیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے سانحہ سوات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سوال کیا کہ کیا سانحہ سوات کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ تحقیقات چیئرمین صوبائی انسپکشن ٹیم کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ چیئرمین صوبائی انسپکشن ٹیم کو بلائیں، پھر کیس کو سنتے ہیں۔
دوران سماعت چیئرمین انسپکشن ٹیم نے کہا کہ سوات کا دورہ کیا ہے، تحقیقات جاری ہیں، مختلف محکموں کی کوتاہی سامنے آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے سانحہ دریائے سوات، ڈی جی ریسکیو خیبرپختونخوا انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش سوات واقعہ، سیلاب سے متعلق اداروں کو پیشگی وارننگ جاری کردی تھی، محکمہ آبپاشیچیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ غفلت برتنے والوں کا تعین جلد کیا جائے، ہزارہ میں سیاحوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟
کمشنر ہزارہ نے کہا کہ دفعہ 144 نافذ ہے، تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ سیاحوں کو محفوظ ماحول اور سیکیورٹی فراہم کریں، میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں کیا انتظامات ہیں؟
کمشنر ہزارہ نے کہا کہ نتھیا گلی اسپتال میں اضافی عملہ تعینات کیا ہے۔
جسٹس فہیم ولی نے کہا کہ سوات واقعے کے بعد ایمرجنسی رسپانس کے کیا انتظامات ہیں؟
آر پی او ہزارہ نے کہا کہ پولیس اور ریسکیو آپس میں کوآرڈینیشن میں ہیں۔
عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ خدانخواستہ کچھ ہو جائے تو کیا ڈرون سے فوری ریسپانس ممکن ہے؟
کمشنر ہزارہ نے کہا کہ ڈرون حاصل کیے ہیں جو لائف جیکٹس پہنچا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈرونز کو ٹیسٹ کریں، کہیں عین وقت پر ناکام نہ ہوں، آزمائشی مشق کریں، دیکھیں کتنی دیر میں ایمرجنسی میں پہنچ سکتے ہیں، کمشنر مالاکنڈ اور آر پی او رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، سانحہ سوات سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ بھی پیش کریں۔