اسرائیلی فوجی زنانہ لباس اور بے گھر فلسطینیوں کے بھیس میں غزہ میں داخل
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اسرائیلی فوج کی ایک خفیہ اور خصوصی فورس نے پیر کے روز غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر خان یونس کے وسطی علاقے میں ایک غیرمعمولی اور خفیہ کارروائی کی۔ عرب خبررساں ادارے کے ذرائع کے مطابق، اس کارروائی کا مقصد حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ایک اہم کمانڈر کو گرفتار کرنا اور اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کرانا تھا۔ تاہم، یہ مشن اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور کوئی اسرائیلی یرغمالی بازیاب نہ ہو سکا۔
خواتین کے لباس اور پناہ گزینوں کا بھیس
ذرائع کے مطابق، اسرائیلی خفیہ دستے کے اہلکار خواتین کا لباس پہن کر، پناہ گزینوں جیسے بیگ اٹھائے ہوئے، عام شہریوں کا روپ دھار کر خان یونس میں داخل ہوئے۔ ان کے بیگوں میں ہتھیار اور گولیاں چھپائی گئی تھیں، جنہیں کمبلوں، کپڑوں اور دیگر گھریلو اشیاء سے ڈھانپ کر ایسا ظاہر کیا گیا کہ یہ بے گھر افراد ہیں۔
یہ خفیہ ٹیم اس اطلاع کی بنیاد پر متحرک ہوئی کہ القسام بریگیڈ کا ایک اہم کمانڈر ممکنہ طور پر کچھ اسرائیلی قیدیوں کے ہمراہ سرنگوں سے باہر نکلا ہے۔ اس کمانڈر کو پکڑنے کی کوشش کی گئی، تاہم بعد میں واضح ہوا کہ اس مقام پر کوئی قیدی موجود نہیں تھا۔ فورس نے کارروائی مکمل کرنے کے بعد علاقے سے واپسی اختیار کی، تاہم اس کے مکمل نتائج سامنے نہیں آ سکے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں ’عربات جدعون‘ کے نام سے ایک بڑا فوجی آپریشن جاری ہے، جس میں اسرائیلی زمینی اور فضائی افواج شریک ہیں۔ تاہم ترجمان نے خان یونس کی اس مخصوص خفیہ کارروائی کا براہ راست ذکر کرنے سے گریز کیا۔
اسرائیلی دفاعی ذرائع کے مطابق، اس آپریشن میں پانچ انفنٹری اور بکتر بند بریگیڈز شامل ہیں جن کا مقصد غزہ کے مختلف حصوں پر دوبارہ قبضہ کرنا اور ان علاقوں کو زمین کے برابر کرنا ہے۔
اسرائیلی فضائی حملوں کی نئی لہر
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے خان یونس کے مختلف علاقوں میں بمباری کی نئی لہر شروع کر دی ہے۔ دو ہیلی کاپٹروں اور ایک جنگی طیارے نے متعدد اہداف پر حملے کیے، جب کہ مشرقی خان یونس میں شدید فائرنگ بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ، جنوبی غزہ کے ناصر ہسپتال کے قریب ایک پناہ گزین اسکول کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
نیتن یاہو کا اعلان اور حماس کا مؤقف
اتوار کے روز اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے ایک وڈیو پیغام میں اعلان کیا تھا کہ ’غزہ میں ایک شدید فوجی معرکہ‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اُن کے مطابق، اسرائیلی افواج مکمل طاقت کے ساتھ غزہ میں داخل ہو چکی ہیں تاکہ جنگ کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
ادھر حماس کا مؤقف ہے کہ تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی صرف اس شرط پر ممکن ہے کہ مکمل جنگ بندی کی جائے اور انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت دی جائے۔
اسرائیلی فوج کے اندازوں کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک تقریباً 58 اسرائیلی قیدی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے صرف 24 کے زندہ ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نائجیریا میں عیسائیوں کے قتلِ عام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نائجیریا کی حکومت نے فوری طور پر کارروائی نہ کی تو امریکا تیزی سے فوجی ایکشن لے گا۔
ٹرمپ نے ہفتے کی رات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر بیان میں کہا کہ انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ تیز اور فیصلہ کن فوجی کارروائی کی تیاری کرے۔ ٹرمپ کے مطابق، امریکا نائجیریا کو دی جانے والی تمام مالی امداد اور معاونت فی الفور بند کر دے گا۔
انہوں نے لکھا کہ اگر امریکا نے کارروائی کی تو وہ “گنز اَن بلیزنگ” یعنی پوری طاقت سے ہوگی تاکہ اُن دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے جو عیسائیوں کے خلاف ہولناک مظالم کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے نائجیریا کی حکومت کو “بدنام ملک” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اس نےجلدی ایکشن نہ لیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ، ”اگر ہم حملہ کریں گے تو وہ تیز، سخت اور میٹھا ہوگا، بالکل ویسا ہی جیسا یہ دہشت گرد ہمارے عزیز عیسائیوں پر کرتے ہیں!“
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع نے اس بیان پر کوئی تفصیلی تبصرہ نہیں کیا اور وائٹ ہاؤس نے بھی فوری ردعمل دینے سے گریز کیا۔ تاہم امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ”وزارتِ جنگ کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ یا تو نائجیریا کی حکومت عیسائیوں کا تحفظ کرے، یا ہم ان دہشت گردوں کو ماریں گے جو یہ ظلم کر رہے ہیں۔“
خیال رہے کہ حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ نے نائجیریا کو دوبارہ اُن ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔ رائٹرز کے مطابق اس فہرست میں چین، میانمار، روس، شمالی کوریا اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب، نائجیریا کے صدر بولا احمد تینوبو نے ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے۔ اُن کے مطابق، “نائجیریا کو مذہبی طور پر متعصب ملک قرار دینا حقیقت کے منافی ہے۔ حکومت سب شہریوں کے مذہبی اور شخصی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔”
نائجیریا کی وزارتِ خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ملک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف پرعزم ہے، اور امریکا سمیت عالمی برادری سے تعاون جاری رکھے گا۔
وزارت نے کہا کہ “ہم نسل، مذہب یا عقیدے سے بالاتر ہو کر ہر شہری کا تحفظ کرتے رہیں گے، کیونکہ تنوع ہی ہماری اصل طاقت ہے۔:
یاد رہے کہ نائجیریا میں بوکوحرام نامی شدت پسند تنظیم گزشتہ 15 سال سے دہشت گردی کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق، بوکوحرام کے زیادہ تر متاثرین مسلمان ہیں۔
تاہم ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ “ہزاروں عیسائیوں کو نائجیریا میں شدت پسند مسلمان قتل کر رہے ہیں”۔ لیکن انہوں نے اس الزام کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔
ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد امریکی کانگریس میں موجود ری پبلکن اراکین نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائجیریا میں “عیسائیوں پر بڑھتے مظالم” عالمی تشویش کا باعث ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر ٹرمپ کا یہ فوجی دھمکی نما بیان عملی جامہ پہنتا ہے تو افریقہ میں امریکا کی نئی فوجی مداخلت کا آغاز ہو سکتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب خطے میں پہلے ہی امریکی اثر و رسوخ کمزور ہو چکا ہے۔
نائجیریا کی حکومت نے فی الحال امریکی صدر کے اس دھمکی آمیز بیان پر کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا۔