سپریم کورٹ: نور مقدم کیس، ظاہر جعفر کی قتل کے الزام میں سزائے موت برقرار
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان نے نور مقدم کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی قتل کے الزام میں سزائے موت برقرار رکھی ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے مجرم کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ظاہر جعفر کی قتل کے الزام میں سزائے موت برقرار رکھی جبکہ ریپ کے الزام میں ظاہر جعفر کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی۔ عدالت عظمیٰ نے اغوا کے الزام میں ظاہر جعفر کو بری کردیا۔ سپریم کورٹ نے چوکیدار اور مالی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مالی اور چوکیدار (افتخار اور جان) جتنی سزا کاٹ چکے ہیں، وہی ان کے جرم کی سزا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ قبل ازیں آج نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ مقتولہ اور مجرم ظاہر جعفر دونوں کے درمیان ایک ساتھ رہنے کا رشتہ تھا جو یورپ میں ہوتا ہے یہاں نہیں۔ لڑکا اور لڑکی کا ایک ساتھ رہنے کا رشتہ ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے۔ اس قسم کا رشتہ مذہب اور اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔ نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر پر ہے۔ اپیل کندہ کیخلاف شواہد کا شک و شبہ سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پراسیکیوشن کی فوٹیج چلائی گئی لیکن وہ چل نہ سکی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ جس سی سی ٹی وی فوٹیج پر آپ اعتراض اٹھا رہے ہیں، اس کو آپ تسلیم کر چکے ہیں، پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری نے بھی کہا سی سی ٹی وی فوٹیج نہ ٹمپرڈ ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ سماعت کے دوران مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد کیس کے ملزمان چوکیدار اور مالی کے وکیل نے دلائل کا آغاز کردیا اور مؤقف اپنایا کہ چوکیدار اور مالی کو دس، دس سال سزا سنائی گئی۔ وکیل نے کہا کہ مجرم پر الزام ہے کہ انہوں نے مقتولہ کو جانے سے روکا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ اگر مجرمان مقتولہ کو نہ روکتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ وکیل مجرمان نے کہا کہ مالی اور چوکیدار کی گھر میں موجودگی کے علاوہ اور کوئی جرم نہیں۔ چوکیدار اور مالی کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد نور مقدم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل کا آغاز کردیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، تسلیم شدہ حقائق پر دلائل دینے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ نور مقدم خود اس گھر میں آئی تھی کیا اس سے اغوا کی سزا کم نہیں ہوتی؟۔ سی سی ٹی وی ویڈیو نہ بھی ہو تو نور کی لاش مجرم کے گھر سے ملنا کافی ہے۔ وکیل پراسیکیوشن نے کہا کہ ریاست چاہتی ہے اس کیس میں سخت سے سخت سزا دی جائے، یہ معاشرے کے کمزور طبقہ کے خلاف جرم ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ اگر آگاہی پیدا کرنا ہے تو نوجوانوں کو لیونگ ریلیشن شپ کے نقصانات اور اثرات سے آگاہ کریں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ یوتھ کو ڈرگز کے استعمال کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ آپ تو کچھ نا کہیں یونیورسٹیوں میں ڈرگز بک رہی ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس ہاشم کاکڑ نے نے ریمارکس دیے کہ مجرم ظاہر جعفر ظاہر جعفر کی کے الزام میں سی سی ٹی سپریم کورٹ سزائے موت نے کہا کہ کے وکیل کی سزا
پڑھیں:
گورنرسندھ اور اسپیکر کے درمیان اختیارات کا تنازع، سپریم کورٹ 3 نومبر کو سماعت کرے گی
سپریم کورٹ میں گورنر ہاؤس سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی کے درمیان اختیارات کا تنازع ایک بار پھر زیرِ بحث آنے والا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قائم مقام گورنر کے اختیارات کا معاملہ: کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا
قائم مقام گورنر کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کے اُس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے جس میں اسپیکر سندھ اسمبلی کو گورنر ہاؤس تک مکمل رسائی دینے کا حکم دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ ایک 3 نومبر کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی رافیل کے ماڈل کو آگ لگا کر چائے کی چسکی، کامران ٹیسوری کی ویڈیو وائرل
سندھ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قائم مقام گورنر کی غیر موجودگی میں اسپیکر سندھ اسمبلی کو گورنر ہاؤس میں داخلے اور اس کے استعمال کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
کامران ٹیسوری نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات سے متصادم ہے اور نظرثانی کا متقاضی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اویس قادر سپریم کورٹ سندھ سندھ ہائیکورٹ کامران ٹیسوری گورنر ہاؤس