Juraat:
2025-09-18@23:30:00 GMT

سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

حمیداللہ بھٹی

عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی نگہبانی اتحادی ممالک سے کراتی ہیں اِس تناظر میں سات عشروں تک امریکہ کے لیے پاکستان جبکہ روس کے لیے بھارت نے کام کیا لیکن اب حالات کروٹ لے چکے ہیں۔ روس اتحادی ممالک کواسلحہ وتیل توفراہم کرتا ہے لیکن کمزور معیشت کی بناپر مالی تعاون کے قابل نہیں رہا جبکہ امریکی پالیسی اب یہ ہے کہ مہنگا اسلحہ فروخت کرو اور بھاری سرمایہ کاری بھی حاصل کرو جس نے نئی عالمی تقسیم کو جنم دیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے دونوں جوہری ممالک نے بھی اپنے نئے سرپرستوں کا انتخاب کر لیا ہے۔ اب امریکہ کے لیے بھارت اہم ہے جبکہ چینی سرپرستی پاکستان کو حاصل ہے ۔رواں ماہ چھ سے دس مئی تک جاری رہنے والی پاک بھارت جھڑپوں نے امریکہ کوکسی حدتک احساس دلا یا ہے کہ اُس نے پاکستانی رفاقت کو چھوڑ کر غلط کیا ہے اور وہ تجارتی معاہدوں سے تلافی کرناچاہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے اشارے دینا شروع کر دیے ہیں کہ وہ پاکستان سے ایک بڑا تجارتی معاہدہ کرنے جارہی ہے۔ بظاہر یہ انعام بھارت سے سیز فائر کامطالبہ تسلیم کرنے کا صلہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے دنیا کو دفاعی حوالے سے کچھ ایسے نئے روزن دکھائے ہیں جس سے ازسرے نو صف بندی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ۔
گھنٹوں پر محیط پاک بھارت جھڑپوں نے پہلا جو سبق دیا ہے وہ یہ ہے کہ معاشی طاقت چین جنگی تیاریوں کے حوالے سے اتنا آگے ہے جس کا توڑ دنیا کے شہ دماغوں کوتلاش کرناہوگا دوسرا سبق یہ ہے کہ خطے میں امریکی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے بھارت ناکافی ہے۔ تیسرا سبق یہ ہے جنگ بندی کی امریکی تجویزکو فوری طورپرقبول کرنے کے باوجود پاکستان چینی سرپرستی صدقِ دل سے قبول کر چکاہے ۔ دراصل امریکہ ضرورت کے وقت پاکستان سے کام تو لیتا ہے لیکن مطلب پورا ہوتے ہی رویہ بدل لیتا ہے۔ ایف سولہ دیتے وقت یہ شرط عائد رکھناکہ کسی پر حملہ کرتے ہوئے انھیں استعمال نہیں کیاجا سکتا بلکہ صرف دفاعی مقاصدکے لیے استعمال کیاجا سکتا ہے بہت ہی نامناسب ہے یہ شرط دوستانہ منافقت کی عکاس ہے کیونکہ اِس شرط کا مطلب تو یہ ہے کہ بھارت پر حملے کے دوران پاکستان ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کر ے گا۔ابتدامیں کوئی اور چارہ نہ پاتے ہوئے پاکستان نے شرط قبول کر لی پاکستان شرط پر قائم رہتا ہے یا نہیں ؟جائزہ لینے اور پاکستان کو شرط کا پابند رکھنے کے لیے جب امریکہ نے باقاعدہ طریقہ کار بنا یاتوپاکستانی قیادت نے اردگردمتبادل تلاش کرنا شروع کردیا کیونکہ بھارت کو دفاعی ہتھیار دیتے وقت امریکہ نے کبھی کوئی شرائط نہیں رکھیں۔سوویت یونین کے خلاف پاکستان سے کام لیا گیا مگر اُس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری آگئی۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد بھی پاکستان کو ایسے ہی رویے کا سامنا کرنا پڑا لیکن چین اپنی ضرورتوں کے لیے پاکستان کوتمام تر مجبوریوں کے ساتھ قبول کرتاہے دراصل دونوں کا دشمن ایک ہے جو دونوں کا ہمسایہ ہے اسی لیے دونوں ملک اب ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں۔
جموں کشمیر جیسی مسلم اکثریتی ریاست پربھارتی قبضے کو آٹھ دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن کشمیریوں کو حقِ خوداِرادیت نہیں دیاجارہا تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں۔ کشمیریوں کی خلاقی اور سفارتی مددتوپاکستان کرتا ہے لیکن جارحیت پر یقین نہیں رکھتا ۔یہ پاکستان کی امن پسندی ہے حیران کُن بات یہ ہے کہ کئی عشروں کی خدمات کے باوجود امریکہ نے اِس حوالے سے کبھی پاکستان کی مدد نہیں کی بلکہ علاقائی بالادستی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ بھارت کی مدد کی ہے۔ حالانکہ اُس کے کسی ہمسایہ ملک سے اچھے مراسم نہیں ۔بنگلہ دیش ،نیپال ،بھوٹان ،سری لنکا اور مالدیپ تک میں فوجی کاروائیاں کرچکا ہے ۔چین سے بھی شدید نوعیت کے سرحدی مسائل ہیں دونوں ہی لداخ اور اروناچل پردیش پرحقِ ملکیت کے دعویدارہیں۔ بھارتی رویے سے تنگ آکرہی چین نے پاکستان کی سرپرستی شروع کی ہے۔ وہ باسٹھ ارب ڈالر سے سی پیک کی تعمیر پر کام کرنے کے ساتھ پاکستان کوجدید دفاعی ٹیکنالوجی دے رہا ہے۔ پاکستان نے جے 10سی اور جے ایف تھنڈر17 کے ذریعے مشروط ایف سولہ کاحل تلاش کرلیا ہے۔ اب چین پانچویں جنریشن کے جے35 اے لڑاکا طیارے بھی رعایتی قیمت پر دینے پرآمادہ ہے جس سے پاکستان بھارتی حملوں کو ناکام بنانے کے ساتھ حملہ کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔پاک چین قیادت دوستی کو مضبوط سے مضبوط ترکرنے پر متفق ہے۔ پاکستان کو دفاعی حوالے سے مضبوط کرنے میں چینی مفاد یہ ہے کہ مقابلے کا دعویدار بھارت اب صرف پاکستان کے ساتھ ہی مصروف رہے گا جو امریکی مفاد سے متصادم ہے امریکہ تو چاہتا ہے کہ پاکستان دفاعی حوالے سے کبھی اتنا طاقتور نہ ہوکہ بھارت کوچیلنج کر سکے ۔پاکستان بظاہر طویل ترین رفاقت کو خیر باد تو نہیں کہہ رہا ۔البتہ دفاعی مفاد کے تناظرمیں امریکہ پر چین کو فوقیت دے چکا ہے ۔
رواں ماہ کی محدود جھڑپوں نے بھارتی بالادستی کاخواب توتوڑا ہے ہی پاکستان اور چین کوبھی مزیدقریب کردیا ہے۔ عین پاک بھارت کشیدگی کے ایام میں چین نے خطے پرنظررکھی اور تبدیلی پر کچھ اِس طرح کام کیا کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر خطرات کے منڈلاتے بادل ہٹادیے۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندے محمد صادق اور چینی سفیر نے اچانک کابل جا کر طالبان کو رضا مند کر لیا کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کوئی مُہم جوئی نہیں کریں گے اِس اچھی سہولت کاری سے پاکستان مشرقی سرحد پر بہترتوجہ دینے کے قابل ہو گیا اور چند گھنٹوں پر محیط یک ہی حملے میں بھارت کے چھبیس سے زائد عسکری مقامات تہس نہس کردیے ۔رواں ہفتے ہی پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار ،چینی وزیرِ خارجہ وانگ ڑی اور افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی بیجنگ میں ملاقات ہوئی ہے اِس سہ فریقی ملاقات میں جہاں علاقائی مسائل پر گفتگو ہوئی وہیں معاشی تعاون بڑھانے کا بھی جائزہ لیا گیا ۔بظاہراسحاق ڈاربھارت سے جنگ میں مددپر چین کا شکریہ ادا کرنے بیجنگ گئے ہیں مگر یہ مستقبل کے اسٹریٹجک تعلقات کے فروغ کے ساتھ معاشی تعاون کووسعت دینے کے امکانات کواُجاگر کرتی ہے کیونکہ تینوں متفق ہوچکے کہ علاقائی امن اور معاشی رابطہ کاری کے لیے باہمی تعاون ناگزیر ہے جو پاک افغان موجودہ تعلقات کی نوعیت کے تناظرمیں کافی اہم ہے۔ سہ فریقی بات چیت سے نہ صرف افغانستان میں ترقی کے مواقع بڑھیں گے بلکہ ایک دوسرے پر انحصار میں بھی اضافہ گا جس سے نہ صرف خطے میں دہشت گردی جیسے ناسور کاخاتمہ کرناممکن ہوگا بلکہ چین پر نظر رکھنے کے لیے بگرام ائیرپورٹ کو تحویل میں لینے کاامریکی منصوبہ بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان کی پاکستان کو پاکستان کے جھڑپوں نے پاک بھارت حوالے سے یہ ہے کہ کے ساتھ ہے لیکن کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی

راولپنڈی:

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مطابق بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے۔

اڈیالہ جیل سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو آئسولیشن میں رکھا گیا ہے، بانی کے پاس اس وقت ایف آئی اے موجود ہے اور سوالات کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے عہدیدار بانی پی ٹی آئی سے ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر سوال کر رہے ہیں جبکہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اکاؤنٹ میرا ہے کچھ اہم ہے تو سوال کریں اور وقت ضائع نہ کریں۔

علی امین گنڈاپور نے بتایا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، تمام مسائل پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ آپریشن حل نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی کی بات کی تھی، آج دنیا مان گئی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی بڑا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے جلسے میں عوام کو بھرپور شرکت کرنا ہوگی، جلسے کا مقصد بانی کی رہائی قانون کی بالادستی اور عام آدمی کو حقوق دلوانا ہے۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کروائی جا رہی ہے، مجھے ملاقات کی اجازت نہ دینے سے میرے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں، میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ضروری ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد امن کا لائحہ عمل بنایا جائے گا، میری ملاقات نہ کروانا قانون کی خلاف ورزی ہے، عدلیہ کے حکم کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے لیکن میں عدلیہ کے لیے ریلی نکالوں گا۔

انہوں نے کہا کہ میں جنازوں پر سیاست نہیں کرتا، میں خود فوجی کا بیٹا ہوں، میں ایک جنازے پر نہیں گیا تو اس پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے، جنازوں پر نہیں اصل مسائل پر بات کرو اور ایسی باتیں کرکے مزید سیاست کو آلودہ نہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • سعودیہ پاکستان معاہدہ، خلیجی ریاستوں اور امریکہ و اسرائیل کے درمیان دراڑ کا مظہر
  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کے ممکنہ اثرات پر توجہ مرکوز ہے، بھارتی وزارت خارجہ
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • آپریشن حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے، عمران خان
  • امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف