Juraat:
2025-07-08@20:25:26 GMT

سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

حمیداللہ بھٹی

عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی نگہبانی اتحادی ممالک سے کراتی ہیں اِس تناظر میں سات عشروں تک امریکہ کے لیے پاکستان جبکہ روس کے لیے بھارت نے کام کیا لیکن اب حالات کروٹ لے چکے ہیں۔ روس اتحادی ممالک کواسلحہ وتیل توفراہم کرتا ہے لیکن کمزور معیشت کی بناپر مالی تعاون کے قابل نہیں رہا جبکہ امریکی پالیسی اب یہ ہے کہ مہنگا اسلحہ فروخت کرو اور بھاری سرمایہ کاری بھی حاصل کرو جس نے نئی عالمی تقسیم کو جنم دیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے دونوں جوہری ممالک نے بھی اپنے نئے سرپرستوں کا انتخاب کر لیا ہے۔ اب امریکہ کے لیے بھارت اہم ہے جبکہ چینی سرپرستی پاکستان کو حاصل ہے ۔رواں ماہ چھ سے دس مئی تک جاری رہنے والی پاک بھارت جھڑپوں نے امریکہ کوکسی حدتک احساس دلا یا ہے کہ اُس نے پاکستانی رفاقت کو چھوڑ کر غلط کیا ہے اور وہ تجارتی معاہدوں سے تلافی کرناچاہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے اشارے دینا شروع کر دیے ہیں کہ وہ پاکستان سے ایک بڑا تجارتی معاہدہ کرنے جارہی ہے۔ بظاہر یہ انعام بھارت سے سیز فائر کامطالبہ تسلیم کرنے کا صلہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے دنیا کو دفاعی حوالے سے کچھ ایسے نئے روزن دکھائے ہیں جس سے ازسرے نو صف بندی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ۔
گھنٹوں پر محیط پاک بھارت جھڑپوں نے پہلا جو سبق دیا ہے وہ یہ ہے کہ معاشی طاقت چین جنگی تیاریوں کے حوالے سے اتنا آگے ہے جس کا توڑ دنیا کے شہ دماغوں کوتلاش کرناہوگا دوسرا سبق یہ ہے کہ خطے میں امریکی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے بھارت ناکافی ہے۔ تیسرا سبق یہ ہے جنگ بندی کی امریکی تجویزکو فوری طورپرقبول کرنے کے باوجود پاکستان چینی سرپرستی صدقِ دل سے قبول کر چکاہے ۔ دراصل امریکہ ضرورت کے وقت پاکستان سے کام تو لیتا ہے لیکن مطلب پورا ہوتے ہی رویہ بدل لیتا ہے۔ ایف سولہ دیتے وقت یہ شرط عائد رکھناکہ کسی پر حملہ کرتے ہوئے انھیں استعمال نہیں کیاجا سکتا بلکہ صرف دفاعی مقاصدکے لیے استعمال کیاجا سکتا ہے بہت ہی نامناسب ہے یہ شرط دوستانہ منافقت کی عکاس ہے کیونکہ اِس شرط کا مطلب تو یہ ہے کہ بھارت پر حملے کے دوران پاکستان ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کر ے گا۔ابتدامیں کوئی اور چارہ نہ پاتے ہوئے پاکستان نے شرط قبول کر لی پاکستان شرط پر قائم رہتا ہے یا نہیں ؟جائزہ لینے اور پاکستان کو شرط کا پابند رکھنے کے لیے جب امریکہ نے باقاعدہ طریقہ کار بنا یاتوپاکستانی قیادت نے اردگردمتبادل تلاش کرنا شروع کردیا کیونکہ بھارت کو دفاعی ہتھیار دیتے وقت امریکہ نے کبھی کوئی شرائط نہیں رکھیں۔سوویت یونین کے خلاف پاکستان سے کام لیا گیا مگر اُس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری آگئی۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد بھی پاکستان کو ایسے ہی رویے کا سامنا کرنا پڑا لیکن چین اپنی ضرورتوں کے لیے پاکستان کوتمام تر مجبوریوں کے ساتھ قبول کرتاہے دراصل دونوں کا دشمن ایک ہے جو دونوں کا ہمسایہ ہے اسی لیے دونوں ملک اب ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں۔
جموں کشمیر جیسی مسلم اکثریتی ریاست پربھارتی قبضے کو آٹھ دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن کشمیریوں کو حقِ خوداِرادیت نہیں دیاجارہا تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں۔ کشمیریوں کی خلاقی اور سفارتی مددتوپاکستان کرتا ہے لیکن جارحیت پر یقین نہیں رکھتا ۔یہ پاکستان کی امن پسندی ہے حیران کُن بات یہ ہے کہ کئی عشروں کی خدمات کے باوجود امریکہ نے اِس حوالے سے کبھی پاکستان کی مدد نہیں کی بلکہ علاقائی بالادستی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ بھارت کی مدد کی ہے۔ حالانکہ اُس کے کسی ہمسایہ ملک سے اچھے مراسم نہیں ۔بنگلہ دیش ،نیپال ،بھوٹان ،سری لنکا اور مالدیپ تک میں فوجی کاروائیاں کرچکا ہے ۔چین سے بھی شدید نوعیت کے سرحدی مسائل ہیں دونوں ہی لداخ اور اروناچل پردیش پرحقِ ملکیت کے دعویدارہیں۔ بھارتی رویے سے تنگ آکرہی چین نے پاکستان کی سرپرستی شروع کی ہے۔ وہ باسٹھ ارب ڈالر سے سی پیک کی تعمیر پر کام کرنے کے ساتھ پاکستان کوجدید دفاعی ٹیکنالوجی دے رہا ہے۔ پاکستان نے جے 10سی اور جے ایف تھنڈر17 کے ذریعے مشروط ایف سولہ کاحل تلاش کرلیا ہے۔ اب چین پانچویں جنریشن کے جے35 اے لڑاکا طیارے بھی رعایتی قیمت پر دینے پرآمادہ ہے جس سے پاکستان بھارتی حملوں کو ناکام بنانے کے ساتھ حملہ کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔پاک چین قیادت دوستی کو مضبوط سے مضبوط ترکرنے پر متفق ہے۔ پاکستان کو دفاعی حوالے سے مضبوط کرنے میں چینی مفاد یہ ہے کہ مقابلے کا دعویدار بھارت اب صرف پاکستان کے ساتھ ہی مصروف رہے گا جو امریکی مفاد سے متصادم ہے امریکہ تو چاہتا ہے کہ پاکستان دفاعی حوالے سے کبھی اتنا طاقتور نہ ہوکہ بھارت کوچیلنج کر سکے ۔پاکستان بظاہر طویل ترین رفاقت کو خیر باد تو نہیں کہہ رہا ۔البتہ دفاعی مفاد کے تناظرمیں امریکہ پر چین کو فوقیت دے چکا ہے ۔
رواں ماہ کی محدود جھڑپوں نے بھارتی بالادستی کاخواب توتوڑا ہے ہی پاکستان اور چین کوبھی مزیدقریب کردیا ہے۔ عین پاک بھارت کشیدگی کے ایام میں چین نے خطے پرنظررکھی اور تبدیلی پر کچھ اِس طرح کام کیا کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر خطرات کے منڈلاتے بادل ہٹادیے۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندے محمد صادق اور چینی سفیر نے اچانک کابل جا کر طالبان کو رضا مند کر لیا کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کوئی مُہم جوئی نہیں کریں گے اِس اچھی سہولت کاری سے پاکستان مشرقی سرحد پر بہترتوجہ دینے کے قابل ہو گیا اور چند گھنٹوں پر محیط یک ہی حملے میں بھارت کے چھبیس سے زائد عسکری مقامات تہس نہس کردیے ۔رواں ہفتے ہی پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار ،چینی وزیرِ خارجہ وانگ ڑی اور افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی بیجنگ میں ملاقات ہوئی ہے اِس سہ فریقی ملاقات میں جہاں علاقائی مسائل پر گفتگو ہوئی وہیں معاشی تعاون بڑھانے کا بھی جائزہ لیا گیا ۔بظاہراسحاق ڈاربھارت سے جنگ میں مددپر چین کا شکریہ ادا کرنے بیجنگ گئے ہیں مگر یہ مستقبل کے اسٹریٹجک تعلقات کے فروغ کے ساتھ معاشی تعاون کووسعت دینے کے امکانات کواُجاگر کرتی ہے کیونکہ تینوں متفق ہوچکے کہ علاقائی امن اور معاشی رابطہ کاری کے لیے باہمی تعاون ناگزیر ہے جو پاک افغان موجودہ تعلقات کی نوعیت کے تناظرمیں کافی اہم ہے۔ سہ فریقی بات چیت سے نہ صرف افغانستان میں ترقی کے مواقع بڑھیں گے بلکہ ایک دوسرے پر انحصار میں بھی اضافہ گا جس سے نہ صرف خطے میں دہشت گردی جیسے ناسور کاخاتمہ کرناممکن ہوگا بلکہ چین پر نظر رکھنے کے لیے بگرام ائیرپورٹ کو تحویل میں لینے کاامریکی منصوبہ بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان کی پاکستان کو پاکستان کے جھڑپوں نے پاک بھارت حوالے سے یہ ہے کہ کے ساتھ ہے لیکن کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

بھارتی اشتعال انگیزی کا سختجواب دیں گے (فیلڈ مارشل)

ہماری آبادی کے مراکز، فوجی اڈوں، اقتصادی مراکز اور بندرگاہوں کو نشانہ بنانے کی کسی بھی کوشش کا شدید، گہرا، تکلیف دہ اور سوچ سے بڑھ کر زیادہ سخت جواب دیا جائے گا، سید عاصم منیر
بھارت آپریشن سندور کے دوران اپنے مقرر کردہ فوجی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا،جنگیں میڈیا کی بیان بازی اور سیاسی نعرے بازی سے نہیں جیتی جاتیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا بغیر کسی ہچکچکاہٹ کے منہ توڑ، شدید، گہرا، تکلیف دہ اور سوچ سے بڑھ کر زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔بھارت آپریشن سندور کے دوران اپنے مقرر کردہ فوجی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نشان امتیاز(ملٹری) نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کا دورہ کیا، اور نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس کرنے والے مسلح افواج کے فارغ التحصیل افسران سے خطاب کیا۔شرکا سے خطاب کے دوران فیلڈ مارشل نے جنگ کے بدلتے ہوئے کردار پر روشنی ڈالی اور مشکل حالات میں پیچیدہ چیلنجز سے مثر طور پر نمٹنے کے لیے ذہنی تیاری، عملی فہم، اور ادارہ جاتی پیشہ ورانہ مہارت کی اہمیت پر زور دیا۔آرمی چیف نے ہائبرڈ، روایتی اور غیر روایتی خطرات سے موثر انداز میں نمٹنے کی صلاحیت رکھنے والی مستقبل کی قیادت کی تیاری میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی جیسے اہم اداروں کے کردار کو سراہا اور سول اور ملٹری اداروں کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔فیلڈ مارشل نے کہا کہ بھارت آپریشن سندور کے دوران اپنے مقرر کردہ فوجی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا، بھارت کی جانب سے آپریشن سندور میں ناکامی کی غیر منطقی توجیہات پیش کرنا، دراصل بھارت کی آپریشنل تیاری اور اسٹریٹجک دور اندیشی کی کمی کو ثابت کرتا ہے۔فیلڈ مارشل نے کہا کہ آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان کی کامیابی میں بھارت کی جانب سے بیرونی تعاون جیسے الزامات غیر ذمہ دارانہ اور حقائق کے منافی ہیں، اس قسم کے بیانات بھارت کی آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان کی کامیابی کو تسلیم کرنے میں روایتی ہچکچاہٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان کی دہائیوں پر مبنی حکمتِ عملی، مقامی صلاحیت اور مضبوط اداروں کی بنیاد پر کامیابی کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے، خالصتا دوطرفہ فوجی تصادم میں دیگر ملکوں کو شامل کرنا، بھارت کی ناقص سیاسی کوشش ہے۔فیلڈ مارشل نے کہا کہ بھارت کی طرف سے اس طرح کے بے بنیاد بیانات کا مقصد خطے میں فرضی” نیٹ سیکیورٹی پروائڈر”کے خود ساختہ رول کی ناکام کوشش ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب خطے کے ممالک بھارت کی جارحانہ اور ہندوتوا نظریے سے تنگ ہیں۔عاصم منیر نے کہا کہ بھارت کے خودغرضانہ اور تنگ نظر برتاو کے برعکس پاکستان نے اقوام عالم میں اصولی سفارتکاری پر مبنی دیرپا شراکت داری، باہمی احترام اور امن کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے ہیں اور خود کو خطے میں نیٹ ریجنل اسٹیبلائزر ثابت کیا ہے۔فیلڈ مارشل نے پاکستان کے اصولی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مہم جوئی، پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش یا اس کی خلاف ورزی کا بغیر کسی ہچکچکاہٹ کے فوری اور منہ توڑجواب دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری آبادی کے مراکز، فوجی اڈوں، اقتصادی مراکز اور بندرگاہوں کو نشانہ بنانے کی کسی بھی کوشش کا شدید، گہرا، تکلیف دہ اور سوچ سے بڑھ کر زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اس پیدا ہونے والی کشیدگی کی اصل ذمہ داری اس (بھارت) بصیرت سے محروم مغرور جارح پر عائد ہوگی، جو ایک خودمختار ایٹمی ریاست کے خلاف اشتعال انگیزی سے پیدا ہونے والے ممکنہ تباہ کن نتائج کا ادراک کرنے میں ناکام رہا۔فیلڈ مارشل نے کہا کہ جنگیں میڈیا کی بیان بازی، درآمد شدہ فینسی جنگی ساز و سامان یا سیاسی نعرے بازی سے نہیں جیتی جاتیں۔عاصم منیر نے کہا کہ جنگیں یقین ِمحکم، پیشہ ورانہ قابلیت، آپریشنل شفافیت، اداروں کی مضبوطی اور قومی عزم وحوصلے کے ذریعے جیتی جاتی ہیں۔فیلڈ مارشل نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت، جذبے اورجنگی تیاری پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔فیلڈ مارشل نے فارغ التحصیل افسران پر زور دیا کہ وہ دیانتداری، بے لوث خدمت اور قوم کے لیے غیر متزلزل عزم پر ثابت قدم رہیں،اس سے قبل این ڈی یو پہنچنے پر چیف آف آرمی اسٹاف کا صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی نے پرتپاک استقبال کیا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی اشتعال انگیزی کا سختجواب دیں گے (فیلڈ مارشل)
  • پارلیمنٹ میں وزیر اعظم نے بات چیت شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی: بیرسٹر گوہر
  • نوراورظلمت کاتصادم
  • ایک فاشسٹ خواب کا جنازہ
  • بھارت اور پاکستان ایسے پڑوسی ہیں جنہیں دور نہیں کیا جا سکتا‘چین
  • پاکستان اور افغانستان کا سہ فریقی ریلوے منصوبے کے فریم ورک معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے پر اتفاق
  • افغانستان سے مذاکرات، دہشت گرد گروپوں کیخلاف ٹھوس کارروائیاں کی جائیں: پاکستان
  • بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ اور سوچ سے بڑھ کر جواب دیا جائے گا، فیلڈ مارشل
  • ’برکس‘ کی امریکا مخالف پالیسی پر عمل کرنے والے ممالک پر 10 فیصد اضافی ٹیکس لگائیں گے، ٹرمپ
  • پاکستان، امریکہ تجارتی مفاہمتی معاہدہ: 9 جولائی کی ڈیڈ لائن سے قبل کامیابی پاکستانی مصنوعات پر دوبارہ بھاری ٹیرف کا خطرہ ٹال سکتی ہے