رواں برس بھی سندھ میں خسرہ کی وباء میں تشویشناک حد تک اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں ویکسینیشن کی شرح کم ہونے کی وجہ سے بچوں میں خسرہ سمیت مختلف بیماریاں ہر سال جنم لے رہی ہیں۔ رواں سال (2025) میں بھی سندھ میں خسرہ کی وباء میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا اور 5 ماہ کے دوران 5 ہزار سے زائد بچے خسرے کی علامت میں مختلف اسپتالوں میں لائے گئے۔
ای پی آئی محکمہ صحت کے مطابق جنوری 2025 سے اپریل تک کراچی سمیت سندھ بھر میں 31 بچے خسرہ کی وجہ سے جان بحق ہوئے۔کراچی کے 7 اضلاع میں 4 ماہ کے دوران 2242 بچوں کو خسرہ کی علامت میں مختلف اسپتالوں میں لایا گیا۔ ان میں 948 بچوں میں خسرہ کی تصدیق کی گئی، کراچی کی ضلع شرقی میں خسرہ کی وجہ سے 5 بچے جان بحق ہوگئے۔
ای پی آئی حکام کے مطابق خسرہ کی وباء کے خاتمے کے لیے اکتوبر میں خصوصی مہم شروع کی جائیگی جس میں 82 لاکھ 26 ہزار 945بچوں کو خسرہ سے خفاظتی ٹیکے لگائے جائیں گے۔ بچوں میں خسرہ کی پہلا ٹیکا 9 ماہ جبکہ دوسرا ٹیکا 15 ماہ میں لگایا جاتا ہے۔
این آئی سی ایچ میں خسرہ اور نمونیا کے مرض میں داخل بچے کے والد امیر علی نے بتایا کہ میرا 4 سالہ بیٹا حسنین کو گزشتہ 15 دنوں سے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھا۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر 12 مئی کو این آئی سی ایچ اسپتال لایا گیا جہاں اسے داخلہ دیا گیا۔ 14 مئی کو دوران علاج میرا بچہ دم توڑ گیا۔ میرے بچے کو خسرے کے ساتھ نمونیا بھی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اسے سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے بچے کو دونوں ٹیکے لگوائے تھے، اس کے باوجود میرے بیٹے کو خسرہ ہوگیا۔
لیاری اسپتال میں بچوں کی ایمرجنسی میں لائے جانے والے ایک بچے کے والدنے بتایا کہ میرے بچے کو کئی دنوں سے بخار اور جسم پر لاج باریک دانے ہوگئے تھے۔ ایمرجنسی لایا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کو خسرہ کا مرض لاحق ہے، ایمرجنسی میں طبی امداد دی گئی، اب میرے بچے کی طبیعت پہلے سے بہتر ہے۔
ماہر امراض اطفال اور پاکستان پیڈیاٹریک ایسوسی ایشن سندھ کے صدر پروفیسر وسیم جمالوی نے بتایا کہ خسرہ کی ٹیکاجات کی شرح مکمل نہیں ہوپارہی۔ اگر ہماری روٹین ویکسینشن اچھی ہوجائے تو اس میں خسرہ کی بیماری کم ہو جائے گی۔ والدین اپنے بچوں کی خسرہ کی ویکسین نہیں لگواتے، والدین شروع کی ویکسین لگوالیتے ہیں جبکہ خسرہ کی ویکسین والدین کی وجہ سے کم بچوں کی کم لگ رہی ہے۔
محکمہ صحت کے خسرہ کی ویکسین کثیر تعداد میں موجود ہے اور محکمہ صحت نے ای پی آئی کی ہر سینٹر میں خسرہ کی ویکسین مہیا کی ہوئی ہے۔ ایسے بچے جن کو خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین نہیں لگی ان کو خسرہ ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ پی اپی اے ہر والدین کو خسرہ کی ویکسین لگوانے کو کہتی ہے۔ والدین سے کہا کہ ہے کہ حفاظتی ویکسین کا مکمل کورس کروائیں تاکہ بچوں کی تمام 12 بیماریوں سے حفاظت مکمن ہوسکے۔
ماہرین صحت ڈاکٹر اکرام سلطان کا کہنا ہے کہ خسرہ کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ ویکسینیشن کی کم شرح بتائی جاتی ہے جبکہ والدین بھی اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے سے ڈرتے ہیں۔خسرہ ایک انتہائی متعدی ہے، ویکسینیشن کے باوجود بھی خسرہ سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین نہ لگوانا اس وبا کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہے۔ بعض متاثرہ بچے وہ بھی ہیں جنہیں ویکسین دی گئی تھی، لیکن ان کی قوتِ مدافعت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ بیماری کا شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ ماں کے دودھ سے محرومی اور غذائی قلت بھی بچوں کی کمزور مدافعت کی وجوہات میں شامل ہیں۔ خسرہ سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن نہایت مؤثر اور مفت دستیاب ہے۔ پاکستان میں بچوں کو 9 اور 15 ماہ کی عمر میں خسرہ کی ویکسین دی جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچے کو ویکسین کے دونوں ٹیکے لگوائے جائیں تو وہ خسرہ سے مؤثر طریقے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
محکمہ صحت کے ای پی آئی کے پروچیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر راج کمار نے بتایا کہ جنوری سے اب تک کراچی سمیت سندھ بھر میں 31 بچے خسرہ کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔ سب سے زیادہ اموات ضلع خیرپور میں ہوئی جہاں اب تک 15 بچوں کی اموات ہوئیں۔ صرف کراچی میں 2242 بچے خسرہ کی علامت میں رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں سے 948 بچوں میں خسرہ کی تصدیق ہوئی اور ضلع شرقی میں 5 بچوں کی اموات ہوئیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی ضلع سینٹرل میں 476 بچوں کو خسرہ کی علامت میں لائے گئے جس میں سے 100 بچوں میں خسرہ کی تصدیق ہوئی، ضلع اسیٹ میں 407 بچوں میں سے 247بچوں میں خسرہ، ضلع ویسٹ میں 347 بچوں میں سے 148 بچوں میں خسرہ، ضلع ملیر میں 317بچوں میں سے 169 بچوں میں خسرہ، ضلع کیماڑی میں 232بچوں میں سے 87 بچوں میں خسرہ، ضلع کورنگی میں 262بچوں میں سے 148 بچوں میں خسرہ، جبکہ ضلع ساوتھ میں 201بچوں میں سے 49بچوں میں خسرہ کی تصدیق ہوئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حیدرآباد میں 377 بچوں میں سے 226، خیرپور میں 331 بچوں میں سے 152، تھرپارکر میں 324 بچوں میں سے 149، سکھر میں 213بچوں میں سے 93، دادو میں 183بچوں میں سے 85، عمرکورٹ میں 183 بچوں میں سے 73، بدین میں 147بچوں میں سے 70، لاڑکانہ میں 140بچوں میں سے 94، سجاول میں 126 بچوں میں سے 26، میرپورخاص میں 121بچوں میں سے 43، ٹنڈو محمد خان میں 113بچوں میں سے 53، جامشورو میں 111 بچوں میں سے 46، شہیدبے نظیرآباد میں 106بچوں میں سے 44، جیکب آباد میں 103بچوں میں سے 54، سانگھڑمیں 98بچوں میں سے 42، گوٹکی میں 97بچوں میں سے 42، شکارپور میں 74بچوں میں سے 31، ٹنڈوالہیار میں 60بچوں میں سے 28، ٹھٹہ میں 58بچوں میں سے 33، قمبرمیں 52بچوں میں سے 27، کشمور میں 40بچوں میں سے 17، نوشیروفیروزمیں 30بچوں میں سے 13 اور مٹھاری میں 24بچوں میں سے 10 بچے خسرہ میں خسرہ میں شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خسرہ کی وباء کے خاتمے کے لیے محکمہ صحت اکتوبر میں خصوصی مہم شروع کرے گی جس میں جس میں 82 لاکھ 26 ہزار 945بچوں کو خسرہ سے خفاظتی ٹیکے لگائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ای پی آئی پروگرام کے تحت بچے کو (Measles, Mumps, Rubella) سے بچاؤ کی ویکسین MMR کی دو خوراک دی جاتی ہے۔ پہلی ویکسین بچے کو بچہ 9 ماہ سے 12 ماہ کے درمیاں جبکہ دوسری ویکسین بچے کو ڈیرھ سال سے کے بعد دی جاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بچوں میں خسرہ کی تصدیق خسرہ کی ویکسین کا کہنا ہے کہ بچوں کو خسرہ کی علامت میں خسرہ کی وباء نے بتایا کہ بچوں میں سے کو خسرہ سے پی آئی کی وجہ سے بچے خسرہ انہوں نے جاتی ہے سے بچاؤ بچوں کی کہ خسرہ بچے کو
پڑھیں:
پاکستان: لڑکیوں کو رحم کے سرطان سے بچاؤ کی ویکسین مہم کا آغاز
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) پاکستان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور ویکسین الائنس (گاوی) کے اشتراک سے لڑکیوں کو رحم کے سرطان سے بچانے کے لیے 'ایچ پی وی' ویکسین مہم شروع کی گئی ہے جس کے ذریعے ایک کروڑ 14 لاکھ لڑکیوں کی زندگی کو اس بیماری سے تحفظ ملے گا۔
یہ مہم صوبہ پنجاب، سندھ، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آج سے شروع کی گئی ہے جس میں 9 تا 14 سال عمر کی 90 فیصد لڑکیاں ویکسین لیں گی جو انہیں متاخر عمر میں سرطان سے بچاؤ میں مددگار ہو گی۔
Tweet URLیہ ویکسین مخصوص مراکز پر، سکولوں میں اور متحرک ویکسینیشن ٹیموں کے ذریعے مہیا کی جائے گی۔
(جاری ہے)
دور دراز علاقوں میں بھی ویکسینیشن مراکز قائم کیے گئے ہیں اور جن علاقوں میں اس مرض کا پھیلاؤ زیادہ ہے وہاں خصوصی ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔ یہ ویکسین تمام لڑکیوں کے لیے بلاقیمت دستیاب ہو گی۔مہم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ حکومت نوعمر لڑکیوں کو رحم کے سرطان سے تحفظ دینے کا عزم رکھتی ہے۔
انہوں نے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ویکسین کی فراہمی یقینی بنائیں۔ افسوسناک طور سے اس ویکسین کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ لوگ اس جھوٹ میں نہ آئیں کیونکہ یہ ویکسین محفوظ، موثر اور لڑکیوں کی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کے لیے ضروری ہے۔رحم کے سرطان سے یقینی تحفظویکسین مہیا کرنے والے عالمی ادارے گاوی کے پاکستان میں اعلیٰ سطحی نمائندہ تھابانی مافوسا نے کہا ہے کہ ایچ پی وی ویکسین کی ایک ہی خوراک رحم کے سرطان سے تحفظ کے لیے کافی ہوتی ہے لیکن آج بھی ہر دو منٹ کے بعد ایک خاتون اس مرض کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔
پاکستان میں چلائی جانے والی یہ مہم لاکھوں لڑکیوں کے لیے اپنی زندگیوں کو تحفظ دینے اور اپنے خوابوں کی تکمیل یقینی بنانے کا موقع ہے۔گاوی کی مدد سے دنیا بھر میں 60 ملین سے زیادہ لڑکیوں کو ایچ پی وی کے خلاف ویکسین دی جا چکی ہے۔ پاکستان میں شروع کیے گئے اس اقدام سے اتحاد کو رواں سال کے آخر تک کم آمدنی والے ممالک میں 86 ملین لڑکیوں کو ویکسین دینے کا ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور اس طرح مستقبل میں مزید 14 لاکھ اموات کو روکا جا سکے گا۔
پاکستان میں یونیسف کی نمائندہ پرنل آئرن سائیڈ نے کہا ہے کہ آج پاکستان کی لڑکیوں اور نوعمر خواتین کی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کے لیے اس مہم کی صورت میں تاریخی قدم اٹھایا گیا ہے۔ یونیسف کو آئندہ نسلوں کی صحت و مستقبل کی حفاظت کے لیے پاکستان کی حکومت، ڈبلیو ایچ او اور گاوی کے ساتھ کام کرنے پر فخر ہے۔
ملک میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر ڈاپنگ لو نے کہا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 8 خواتین رحم کے سرطان کے سبب ہلاک ہو جاتی ہیں۔ ایچ پی ویکسین مہم کی بدولت آئندہ دو سال کے دوران ایک کروڑ 70 لاکھ لڑکیوں اور خواتین کو تحفط ملے گا۔ یہ ایک محفوظ، سائنسی بنیاد پر تیار کردہ اور موثر ویکسین ہے جو طویل عرصہ سے 150 ممالک میں مہیا اور استعمال کی جا رہی ہے جن میں مسلم ملک بھی شامل ہیں۔ یہ اقدام تمام لڑکیوں، ان کے مستقبل کے خاندانوں اور پوری قوم کے بہتر مستقبل پر سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔