کیا گلوکار حسن رحیم نے شادی کرلی؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
معروف پاکستانی گلوکار حسن رحیم کی وائرل شادی کی تصویر کی حقیقت سامنے آگئی۔
حسن رحیم نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اپنی شادی سے متعلق تصویر کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ اس تصویر میں انہیں دولہے کے لباس میں ایک دلہن کے ساتھ دیکھا گیا تھا، جس سے مداحوں میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں کہ شاید انہوں نے خاموشی سے شادی کر لی ہے۔
تاہم اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ تصویر دراصل اُن کے نئے میوزک ویڈیو ’میموریز‘ کے پروموشنل مواد کا حصہ تھی۔ اس گانے میں ان کے ساتھ سوشل میڈیا پر مقبول ہونے والی جوڑی جسٹن بیبیز نے بھی شرکت کی ہے۔
A post shared by Niche Lifestyle (@nichelifestyle)
یاد رہے کہ ‘میموریز’ ایک نیا میوزک ویڈیو ہے جس میں دلکش مناظر، تخلیقی انداز اور رومانوی تھیم شامل ہے، اور اسے مداحوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔
وائرل ہونے والی شادی کے طرز پر بنائی گئی اس تصویر نے نہ صرف سوشل میڈیا پر خوب توجہ حاصل کی بلکہ گانے کی ریلیز کے لیے ایک مؤثر تشہیری حربے کے طور پر بھی کام کیا۔
حسن رحیم نے اس وضاحت کے ذریعے مداحوں کی غلط فہمی دور کر دی ہے اور بتایا کہ ان کی شادی نہیں ہوئی بلکہ یہ سب میوزک ویڈیو کی کہانی کا حصہ تھا۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
شادی شدہ جوڑے اور جنسی تشدد
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جولائی 2025ء) میڈیکل سائنس رضامندی کے بغیر جنسی عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی ہے۔یہ عمل انسانی نفسیات، رویوں اور اعتماد پر تباہ کن اثرات چھوڑتا ہے۔اس زور زبردستی کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ آپ کا بسا بسایا گھر اجڑ جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کسی اور کے ساتھ گھر بسا لیں یا کسی کے بھی ساتھ جنسی تعلق رکھنے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لیں۔
جنسی عمل میں زبردستی اور تشدد کے عمل سے آپ کے شخصی اعتماد، کام کرنے کی صلاحیت،معاشرتی میل جول اور گھریلو ماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔آپ نفسیاتی،جذباتی اور معاشرتی طور پر تنہا محسوس کرتے ہیں۔جسمانی صحت گرنے لگتی ہے اور زندگی خوشی کی نسبت بوجھ لگنا شروع ہو جاتی ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان میں خواتین کی اکثریت میں یہ تمام اثرات بیماری کی حد تک ملیں گے۔
زیادہ تر عورتیں شادی کے بعد صرف رازدار خواتین کے ساتھ ہی اپنے مردوں کی طرف سے جنسی تشدد کی شکایت کرتی ہیں مگر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے نہ تو کھلے عام اظہار کر پاتی ہیں اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی۔پاکستان میں جنسی تشدد کی چار نمایاں اقسام ہیں۔ پہلی قسم پارٹنر آپ کی نفسیاتی اور جسمانی صحت کا خیال رکھے بغیر آپ کے ساتھ جنسی عمل پر مائل ہوتا ہے۔
دوسری قسم یہ کہ مرد خود کو عورت سے زیادہ طاقتور ثابت کرنے کے لیے بھی جنسی عمل کے دوران غیر ضروری تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔تیسری قسم میں سامنے والے کے ردعمل اور تاثرات کا خیال رکھے بغیر لذت کے لیے جسمانی اذیت دی جاتی ہے۔چوتھی قسم میں زیادہ محبت کا احساس دلانے کے لیے بھی طرح طرح کے متشدد طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ہم ان کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔
عورتوں کے ساتھ بہت سے جسمانی اور نفسیاتی مسائل جڑے ہوتے ہیں۔ان تمام مسائل کا خیال ذمہ دار پارٹنرز کی طرح مردوں کو رکھنا چاہیے۔پاکستانی معاشرے میں عورتوں کی اکثریت مردوں سے زیادہ کام کرتی ہے۔ ان کے کام کرنے کے اوقات بھی متعین نہیں ہیں اور نہ ہی معاوضہ دیا جاتا ہے۔گھریلو عورت ہو یا ورکنگ وومن دونوں ہی سولہ سے بیس گھنٹے کام کرتی ہیں۔
گھر کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی، بچوں کا خیال، شوہر اور اس سے جڑے لوگوں کی خاطرداری، ایسے بہت سے کام ہیں، جو عورت کو ہمہ وقت مصروف رکھتے ہیں۔اب ایسے میں جسمانی صحت بہت جلد خراب ہونے لگتی ہے۔ورزش اور سیلف کیئر کے لیے وقت نہیں ملتا۔ایسے سب جسمانی کاموں کے دوران، رشتہ داروں کے مسائل، شوہر کی بے اعتنائی، بچوں کا بگاڑ اور مالی پریشانیوں جیسے نفسیاتی مسائل بھی ہیں جو عورت کی جوانی اور صحت کو وقت سے پہلے کھا جاتے ہیں۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود شوہر کو بیوی بستر پر مکمل چاہیے اور جب اس کا دل کرے تب چاہیے۔ بہت کم مرد ازدواجی تعلقات سے قبل عورت کی جسمانی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔زیادہ تر تو اس چیز کو قابل غور ہی نہیں سمجھتے۔دوسری قسم کی بات کریں تو پاکستانی معاشرے میں مردوں کو طاقت کے تصور کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ بچپن سے ہی ان کے اذہان میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ مرد عورتوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
اب اس طاقت کے اظہار کا بہترین ذریعہ کمزور عورت ہے۔آس پاس ماں اور بہنوں کو بھی وہ جوان ہوتے لڑکے مردوں کی طاقت سے مرعوب دیکھتے ہیں تو ان کے اعتماد میں اِضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی مردانہ طاقت کا اظہار وہ اپنی پارٹنر کے ساتھ بستر پر بھی کرتے ہیں۔ جنسی عمل جیسی لطیف اور دوطرفہ لذت بھری سرگرمی کو یکطرفہ طاقت دکھانے کا اکھاڑا بنا دیا جاتا ہے۔ جہاں ایک کمزور پہلوان پہلے سے ہی خوف کھائے بیٹھا ہوتا ہے۔اسی وجہ سے شادی شدہ خواتین کی اکثریت سیکس سے دور بھاگتی نظر آتی ہے۔تیسری قسم پاکستانی مردوں کی پورن ویب سائٹس تک رسائی کی وجہ سے سامنے آتی ہے۔وہ ان فلموں میں دکھائے گئے مناظر کو حقیقی زندگی میں آزمانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ عورتیں جنسی لذت کے ان طریقوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے تیار نہیں ہو پاتی ہیں۔
یہاں بستر پر ایک جنگ کا سا ماحول بن جاتا ہے۔مرد غیرفطری طریقوں سے لذت کے خواہش مند ہوتے ہیں اور عورتیں مزاحمت کرتی ہیں۔جس سے دونوں کے درمیان ایک خاموش دوری بڑھتی چلی جاتی ہے۔تشدد کی چوتھی قسم "محبت" کے بے جا اور ضرورت سے زیادہ اظہار کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ہنسی مذاق میں جسمانی تشدد، چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے ہاتھا پائی، ہاتھ بازو مروڑنا اور طاقت کا مظاہرہ کرنا، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو عورتوں کو ہولے ہولے اس بات پر مائل کر دیتی ہیں کہ وہ مردوں سے بچ کے رہیں۔
ایسے ماحول میں خواتین اپنی نفیس اور لطیف محبت کا اظہار بھی نہیں کر پاتی ہیں۔تشدد کی ان مختلف اقسام کی وجہ سے دو انسانوں کا باہمی تعلق جسے بہت خوشگوار اور خوبصورت ہونا چاہیے، زخمی ہو جاتا ہے۔ وہ دونوں جنسی عمل کی لذت نہیں اٹھا پاتے اور نہ ہی ایک دوجے کے ساتھ پراعتماد زندگی گزار پاتے ہیں۔
بستر کی زندگی آپ کی عائلی زندگی کا عکس ہوتی ہے۔
یا یوں کہہ لیجئے کہ روزمرہ زندگی بستر کی زندگی کے زاویے طے کرتی ہے۔ دونوں میں لطف اور پائیداری لانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے ساتھی کی رضامندی اور اس کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ خاص طور پر مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کا خیال رکھیں کیوں کہ ہم عورتیں سیکس سے جڑے اپنے جذبات اور احساسات کا بہت کم اظہار کرتی ہیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔