ممنوعہ تجارتی معاہدے کرنے والی کمپنیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
سٹی42: کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے تجارتی دنیا کو خبردار کر دیا ہے کہ مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کو بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ممنوعہ تجارتی معاہدوں، قیمتوں کے تعین اور مارکیٹ کی غیر قانونی تقسیم پر اب کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
سی سی پی کے مطابق ایسی تمام کمپنیاں جو ڈیلرز یا ریٹیلرز سے غیرمنصفانہ شرائط پر معاہدے کرتی ہیں یا کمیشن کی اجازت کے بغیر باہمی کاروباری معاہدے کرتی ہیں وہ کمپٹیشن ایکٹ 2010 کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوں گی اور ان کے معاہدے کالعدم تصور کیے جائیں گے۔
غزہ:اسرائیلی بمباری سےفلسطینی خاتون ڈاکٹر کے 9 بچے شہید
کمیشن نے واضح کیا کہ خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں پر ان کے سالانہ کاروباری حجم کا 10 فیصد بطور جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے جو کہ بعض صورتوں میں 7 کروڑ 50 لاکھ روپے تک جا سکتا ہے۔
سی سی پی کے مطابق صرف وہ معاہدے جن میں پیداواری یا تکنیکی بہتری کا عنصر ہو، مشروط اجازت کیلئے اہل ہو سکتے ہیں۔ تمام کمپنیوں کو اس حوالے سے سیکشن 5 کے تحت باقاعدہ استثنیٰ کے لیے درخواست دینا ہوگی ورنہ سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کوہ پیما سعد منور نے بھی دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کر کے پاکستان کا نام روشن کر دیا
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42
پڑھیں:
اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی کر سکتے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر) اوورسیز پاکستانیوں کے لیے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی اسکیموں کے مستقبل کے حوالے سے وزارت تجارت ککو مشکل کا سامناہے، کیونکہ بڑھتی ہوئی تشویش کے مطابق ان اسکیموں کا فائدہ پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیاں تجارتی طور پر درآمد کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔وزارتِ تجارت کے ذرائع کے مطابق موجودہ اسکیمیں، جن میں گفٹ اسکیم، پرسنل بیگیج اسکیم اور ٹرانسفر آف رہائیش اسکیم شامل ہیں، بعض اوقات پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، جس پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پر ٹریف پالیسی بورڈ (ٹی پی بی) اور بین الوزارتی فورمز میں بحث ہو چکی ہے، مگر حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ فنانس ڈویڑن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی رائے کا انتظار ہے۔ذرائع کے مطابق وزارتِ صنعت و پیداوار کا موقف ہے کہ چونکہ عام طور پر پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہے، اس لیے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ اسکیمیں وضع کی گئی ہیں تاکہ وہ مخصوص حالات میں استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان لا سکیں۔ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 میں ان اسکیموں کے تحت بڑی تعداد میں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوئیں۔ وزارتِ کا کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے پرانی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہٹانے کے بعد، صرف ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ دیگر اسکیمیں غیر شفاف طریقے سے استعمال کی جا رہی ہیں اور تجارتی درآمد کا متبادل بن گئی ہیں۔وزارتِ نے زور دیا کہ صارفین کے مفاد، عوامی تحفظ اور ماحولیاتی نقصان سے بچاؤ کے لیے درآمد شدہ گاڑیاں کم از کم حفاظتی، معیار اور ایگزاسٹ کے معیار پر پوری اتریں۔ اسی مقصد کے لیے موٹر وہیکلز انڈسٹری ڈویلپمنٹ ایکٹ 2025 کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، جو مقامی اور درآمد شدہ گاڑیوں کے ضوابط کو مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔پاکستان نے 2021 میں 1958 کے یو این ای سی ای معاہدے پر دستخط کیے، اور ای ڈی پی کو ڈبلیو پی 29 سیکریٹریٹ کے طور پر مقرر کیا گیا، جس کے تحت 17 بنیادی حفاظتی ضوابط اپنائے گئے ہیں۔وزارتِ صنعت و پیداوار کے مطابق یہ ضوابط تمام درآمد شدہ گاڑیوں پر بھی لاگو ہوں گے، تاہم اس وقت پاکستان میں گاڑیوں کے معیار کے لیے مناسب جانچ کی سہولت موجود نہیں۔ اس لیے تمام درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے پری شپمنٹ انسپیکشن سرٹیفیکیشن ضروری ہوگا، جو جاپان آٹوموٹو ایپریزل انسٹی ٹیوٹ، جاپان ایکسپورٹ وہیکل انسپیکشن سینٹر، کورین ٹیسٹنگ لیبارٹری یا چائنا آٹوموٹو انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جیسی اداروں سے حاصل کیا جائے گا۔ یہ سرٹیفیکیٹ گاڑی کی حفاظت، معیار، ایگزاسٹ، اوڈومیٹر، اندرونی و بیرونی حالت، انجن اور ہوا کے بیگ جیسی تفصیلات کی تصدیق کرے گا۔ علاوہ ازیں صرف وہ کمپنیاں جنہیں موٹر وہیکلز کی تجارتی درآمد کا بنیادی کاروبار ہو، تجارتی بنیاد پر گاڑیاں درآمد کر سکیں گی۔