طالبان کا نقطہ نظر تبدیل، پاکستان کو نشانہ بنانے والے افغانوں کے خلاف پہلی مرتبہ کریک ڈاؤن
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
افغانستان میں طالبان حکومت نے پہلی مرتبہ پاکستانیوں کو نشانہ بنانے والے افغانوں کیخلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ اس اہم اہم پیشرفت کی وجہ سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران زیادہ تر توجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر مرکوز رہی لیکن اسی عرصے کے دوران اسلام آباد اور کابل نے خاموشی سے کام کیا تاکہ کشیدگی کا شکار تعلقات کو بحال کیا جا سکے۔
پہلی بار پاکستان نے کابل کے نقطہ نظر میں تبدیلی اس وقت محسوس کی جب مارچ کے تیسرے ہفتے میں خصوصی ایلچی برائے افغانستان محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ کیا اور اس وفد کو کابل نے سرحد پار دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔
مزید پڑھیں: پاک انڈیا جنگ کے دوران طالبان کے اہم وزیر نے بھارت کا خفیہ دورہ کیا تھا؛ برطانوی میڈیا
بند کمرے میں ہونے والی بات چیت سے واقف ایک ذریعے نے ’’ ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کو بتایا ہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار پاکستان نے محسوس کیا ہے کہ طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے میں سنجیدہ ہے۔
اس وقت اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی تھیں لیکن اب ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان نے اپنے ایسے شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے جنہوں نے یا تو ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی یا گروپ کا حصہ بننے کی منصوبہ بندی کی۔
ذرائع نے بتایا کہ بہت سے ایسے افغانوں کو جو افغان شہریوں کو ٹی ٹی پی کے لیے بھرتی کر رہے تھے جیلوں میں ڈالا گیا۔ ذرائع نے بتایا پاکستان کے بار بار کے احتجاج کے بعد آخر کار افغان طالبان حرکت میں آگئے اور اپنے شہریوں کیخلاف کارروائی کی جس کی وجہ سے نہ صرف کے پی میں خودکش حملوں میں نمایاں کمی آئی بلکہ اسحاق ڈار کے 19 اپریل کو دورہ کابل کی راہ بھی ہموار ہوئی۔
مزید پڑھیں: افغان طالبان نے 5 لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے، برطانوی میڈیا کا انکشاف
تین سالوں میں کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا افغان دارالحکومت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں کابل کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دی جائے گی اور پاکستان نے افغان درآمد کنندگان کے لیے بینک ضمانتوں کی شرط کو ختم کیا اور افغان تجارت پر سے کچھ پابندیاں ہٹا دیں۔
طالبان حکومت نے پاکستان کا اعتماد اس وقت بھی جیتا جب اس نے کچھ افغان شہریوں کو پکڑ لیا جنہوں نے پہلگام حملے کے فوراً بعد پاکستان میں دراندازی کی کوشش کرنے والے 70 سے زیادہ دہشت گردوں کو سہولت فراہم کی تھی۔ ایک پاکستانی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ یہ ایک مثبت آغاز ہے۔ ہمیں امید ہے کہ افغان طالبان اس راستے پر گامزن رہیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغان طالبان
پڑھیں:
خیبر پی کے : غیر قانونی افغانوں کو تحفظ حاصل : وزیر داخلہ
لاہور (آئی این پی+نیٹ نیوز) وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اپریل2025 ء تک11 لاکھ غیر قانونی افغان شہریوں کو واپس بھیج چکی ہے، جن میں سے4 لاکھ افراد کو طورخم بارڈر کے ذریعے واپس بھیجا گیا، تینوں صوبوں سے افغانوں کو نکالا جا رہا ہے جبکہ خیبر پی کے میں ان کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ خیبر پی کے کی حکومت کو بھی بار بار یہ پیغام دے رہے ہیں۔ آپ پہلے اپنے ملک کا سوچیں، اس کے بعد اپنی سیاست کریں، ہر صورت وفاقی حکومت کے فیصلے پر عمل کرانا پڑے گا، یہ نہیں ہو سکتا قومی سلامتی کے معاملہ پر آپ کا جو دل کرتا ہے کریں۔ اسکی اجازت نہیں دینگے‘ مزید بم دھماکے افورڈ نہیں کر سکتے، ہر صورت ان کو واپس بھیجیں گے، بطور صحافی یقین رکھتا ہوں کہ آزادی اظہار رائے ہونی چاہئے۔ تنقید کریں لیکن پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر90 فیصد خبریں غلط چل رہی ہیں، کسی کی تصویر لگا کر جو دل کرے خبر چلا رہے ہیں، اِس کی ہم اجازت نہیں دیں گے، اس کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں قذافی سٹیڈیم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر داخلہ نے کہا اسلام آباد خودکش حملے اور کیڈٹ کالج پر حملے میں افغان ملوث تھے جبکہ ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرنے والے تینوں افراد بھی افغان نکلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانوں کو واپس بھجوانے کے حوالے سے خیبر پی کے میں صورت حال مختلف ہے اور وہاں سے تعاون نہیں کیا جا رہا۔ غیرقانونی طور پر مقیم افغان خود ہی عزت کے ساتھ واپس چلے جائیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم کسی افغان شہری کو واپس بھجیں وہ واپس آئے اور پھر واپس بھجیں، اب اس کو گرفتار کیا جائے گا اور سزا دی جائے گی۔ اس کے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ خیبر پی کے میں افغان کیمپ ختم کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایچ اوز کی ذمہ داری لگائی جا رہی ہے کہ وہ افغان شہریوں کو ڈھونڈیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان شہریوں کو واپس بھیجنے میں کامیاب ہو رہے اور سب کو ہر حال میں بھیجیں گے۔ ملک میں جتنے بھی حملے ہوئے ان میں افغان ملوث ہیں اور سارے خودکش حملہ آور افغانستان سے آ رہے ہیں۔ ہم خیبر پی کے کی حکومت کو بھی بار بار یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اس وقت ضروری بات یہ ہے کہ آپ پہلے اپنے ملک کا سوچیں، اس کے بعد اپنی سیاست کریں۔ ان کو ہر صورت وفاقی حکومت کے فیصلے پر عمل کرانا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ملک استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے، معیشت بہتر ہو رہی ہے اور دوسری طرف ہم یہ دھماکے افورڈ نہیں کر سکتے۔ پشاور اور نوشہرہ میں قائم کیے گئے کیمپس باقاعدہ نوٹیفائی کیے گئے ہیں، جبکہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں کیمپس اب بھی فعال ہیں۔ ایئرپورٹ پر مسافروں کو روکے جانے کے حوالے سے وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ50 سے60 افراد کو روزانہ آف لوڈ کیا جاتا ہے اور ایف آئی اے تمام ریکارڈ میڈیا کے ساتھ شیئر کرے گی۔ محسن نقوی نے سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کی بھی تصویر لگا اور فیک نیوز بنا کر چلانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس بارے میں آج صبح وزیر اطلاعات سے بات ہوئی ہے۔ اگر شواہد موجود ہیں تو خبر دیں لیکن اگر نہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی زندہ کو مار دیں اور کسی مرے ہوئے کو زندہ کر دیں اور کوئی آپ کو کچھ نہ کہے۔ سوشل میڈیا پر 90 فیصد جھوٹی خبریں چلائی جا رہی ہیں۔ بعض ایجنٹس غلط مہم چلا رہے ہیں، لیکن کچھ بھی ہو حکومت کسی شخص کو غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک جانے نہیں دے گی۔ محسن نقوی نے کہا کہ ہم اپنے پاسپورٹ کی رینکنگ بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو صحیح نوکری پر بیرون ملک جا رہا ہے وہ بالکل جائے، انکو نہیں روکا جائے گا۔ ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک شخص ڈرائیونگ کے شعبے میں سعودی عرب جا رہا تھا جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں تھا اور اسے گاڑی چلانا بھی نہیں آتی تھی۔ ہمیں اپنے سسٹم کو بھی درست کرنا ہو گا۔ افغان ہمارے مہمان تھے لیکن اب نہیں۔ طالبان حکومت دہشتگردوں کو لگام دے۔ سوشل میڈیا پر 90 فیصد خبریں غلط چل رہی ہوتی ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ جو چاہیں سوشل میڈیا پر چلا دیں، سوشل میڈیا پر غلط خبر پر کریک ڈاؤن ہو گا۔ نیشنل میڈیا پر غلط خبر نشر کرنے پر پیمرا کا نوٹس ہوتا ہے، جھوٹی خبر پھیلانے والے صحافی نہیں، اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن فیک نیوز پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سوشل میڈیا پر کسی کی تذلیل کی اجازت نہیں دیں گے۔ قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا، کوئی لندن میں بیٹھ کر بکواس کر رہا ہے کہ اداروں میں یہ مسئلہ چل رہا ہے، اگر آپ کے پاس ثبوت ہے تو ضرور سامنے لائیں۔ جو لوگ باہر بیٹھے ہیں انہیں بتا دوں کہ آپ لوگ بہت جلد واپس آ رہے ہیں، بہت جلد آپ کو یہاں لائیں گے اور ساری باتوں کا جواب دینا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا ہم ٹی وی چینلز کو کیوں غلط نہیں کہتے کیونکہ وہ ایک سسٹم کے تحت چل رہے ہیں، اگر کوئی ٹی وی چینل غلط خبر چلاتا ہے تو اس کو جرمانہ ہوتا ہے، جو فیک نیوز پھیلا رہا ہے ان کے خلاف کارروائی ضرور ہو گی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ بولے آئین میں ایک چیز ہوئی ہے، ایک نیا ادارہ بن رہا ہے، ایک بٹن دبانے سے تو کام نہیں ہوتا، سسٹم بننے میں وقت لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بٹن دبائیں اور ایک گھنٹے میں کام ہو جائے، یہ کہتے ہیں کہ چیف کا بھی ایسے ہی ہو۔