ایس ایچ او پولیس اہلکاروں کو لے کر شہری کے گھر سے 10 بکرے لے اڑا
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
عیدالاضحی کی آمد آمد ہے اور قربانی کے جانوروں کے خرید وفروخت کا سلسلہ بھی عروج پر ہے، کوئی خریدار تو کوئی بیچنے والے لیکن جس وقت سب کی نظریں اس وقت قربانی کے جانوروں کے گرد گھوم رہی ہیں، ایسے میں کراچی کے ایڈیشنل سیشن جج ویسٹ سہیل احمد مشوری کی عدالت میں ایک درخواست جمع ہوتی ہے جس میں خاتون مدعی پولیس اہلکاروں کے خلاف شکایت کرتی ہیں۔
درخواست گزار بسمہ زوجہ آصف نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ایس ایچ او انور مہراج اور تھانہ مومن آباد کے دیگر اہلکار بغیر وارنٹ کے ان کے گھر میں داخل ہوئے، خواتین کو ڈرایا دھمکایا، فرنیچر توڑا اور 10 بکرے، ایک ٹی وی، تقریباً 6 تولے سونا اور 80 ہزار روپے نقد لے گئے۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب میں اب جانوروں کی رنگ اور نسل کی بنیاد پر رجسٹریشن ہوگی؟
اس حوالے سے پولیس کا موقف ہے کہ خاتون کے شوہر کے خلاف نارکوٹکس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے اس حوالے سے کارروائی کی گئی لیکن پولیس اب تک جانور اور دیگر اشیا لے جانے کی وضاحت نہیں دی سکی۔
عدالت نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اورپولیس کے رویے کو افسوسناک قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ عمل قانون سے انحراف ہے اور شہریوں کی عزت و وقار کو پامال کرتا ہے۔
عدالت نے ڈی آئی جی ویسٹ کو ہدایت دی کہ ایس پی رینک کے افسر سے انکوائری کروائی جائے، پولیس قانونی طور پر گھر میں داخل ہوئی یا نہیں؟ کیا نقصان ہوا اور کیوں اور سب سے اہم یہ کہ بکرے کہاں گئے؟
یہ بھی پڑھیے: اس بار قربانی کے جانوروں بیل، بکرے، دنبہ اور اونٹ کی اوسط قیمت کیا ہے؟
عدالت نے انکوائری رپورٹ 10 دن کے اندر (عید الاضحیٰ سے پہلے) جمع کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
بعدازاں عدالت نے مقدمے کی اگلی سماعت 6 جون کو مقرر کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بکرے عید قربانی کراچی پولیس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کراچی پولیس عدالت نے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔