پی ٹی آئی انتشار، مذاکرات کے مداروں میں چکر کھا رہی ہے ،سینیٹر عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
پی ٹی آئی انتشار، مذاکرات کے مداروں میں چکر کھا رہی ہے ،سینیٹر عرفان صدیقی WhatsAppFacebookTwitter 0 27 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی کال پر کوئی باہر نہیں نکلے گا، تحریک انصاف انتشار اور مذاکرات کے مداروں میں چکر کھا رہی ہے۔
اسلام آباد سے جاری بیان میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت تو شاید بانی پی ٹی آئی کو بہت کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے، البتہ عمران خان کیا دے سکتے ہیں؟ وہ کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پہلے یہ طے کر لیں کہ کیا بات کرنی ہے؟ کس نے کرنی ہے؟ اور کس سے کرنی ہے؟ یہ پہلے بھی مذاکرات سے بھاگ گئے تھے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ لائیں تحریکِ عدم اعتماد، ہمارے تو نہیں البتہ پی ٹی آئی کے لوگ ضرور کم ہو جائیں گے، ہماری صفوں میں کوئی علوی یا قاسم سوری نہیں۔مسلم لیگ ن کے سینیٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ مودی گولی چلائیں گے تو جواب میں گولہ کھائیں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرروس یوکرین تنازعہ میں ہم پاکستان کے غیر جانبدارانہ موقف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،روسی سفیر البرٹ پی خورئیو روس یوکرین تنازعہ میں ہم پاکستان کے غیر جانبدارانہ موقف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،روسی سفیر البرٹ پی خورئیو چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا سے ایشیائی ترقیاتی بینک کے اعلی سطح وفد کی ملاقات ، مختلف شعبوں میں شراکت داری پر... جہاز میں 2بار فنی خرابی، لیبیا کے شہری کی حج پر جانے کی معجزاتی کہانی وائرل عوام کو مہنگائی کا بڑا جھٹکا لگنے کا امکان، پیٹرولیم لیوی سے 1311ارب وصولی کا ہدف پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیرکا معاملہ ،الیکشن کمیشن بینچ کی عدم دستیابی کے باعث 29مئی کو ہونیوالی سماعت ملتوی اسلامی نظریاتی کونسل نے 18سال سے کم عمرشادی کی ممانعت کا بل مسترد کردیا
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سینیٹر عرفان صدیقی پی ٹی آئی
پڑھیں:
کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی لیکن کانگریس نے نہیں کی تو یہ کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشور مانا۔ عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840ء کی دہائی میں نو آبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا، ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ عرفان حبیب نے مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1947ء تک، کانگریس اور مسلم لیگ دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عرفان حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی، تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے۔ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔ عرفان حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئے، ایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں، یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک "ہندو پارٹی" مان لیا گیا۔ انہوں نے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940ء) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظرانداز کر دیا، جو مسلم لیگ کے تئیں اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔