وفاقی بجٹ کیلیے آئی ایم ایف کی سخت تجاویز؛ عوام کے لیے مہنگائی کا نیا طوفان تیار
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
نئے مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کی سخت تجاویز میں عوام کے لیے مہنگائی کا نیا طوفان آنے کو تیار ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تجاویز پر عمل درآمد کرتے ہوئے سخت مالیاتی اقدامات کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق بجٹ میں پرتعیش اشیا پر عائد سیلز ٹیکس کو 25 فیصد سے بھی بڑھانے کی تجویز زیر غور ہے، جب کہ ان اشیا کی فہرست میں مزید مصنوعات کو شامل کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی معاشی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان بجٹ سازی کے حوالے سے ورچوئل بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، جس میں ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور مالی خسارے میں کمی کے لیے سخت تجاویز زیر غور آ رہی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیکس نظام میں شفافیت لائی جائے، ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھایا جائے اور ٹیکس حکام کو اختیارات کے مؤثر استعمال کی اجازت دی جائے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے ٹیکس نادہندگان کے خلاف سخت اقدامات کرنے اور پی او ایس (پوائنٹ آف سیل) پر ٹیکس چوری کی صورت میں جرمانہ 5 لاکھ سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس چوری پر جرمانے کے علاوہ فوجداری مقدمات درج کرنے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئندہ بجٹ میں سولر پینلز سمیت تمام شعبوں کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، جو ایک طرف توانائی کے متبادل ذرائع کو متاثر کرے گی اور دوسری جانب مہنگائی کا نیا بوجھ عوام پر ڈال سکتی ہے۔
اسی طرح کھاد، زرعی اسپرے اور آلات پر بھی 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کرنے کی تجویز ہے جب کہ زرعی ان پٹس اور مشینری پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ بھی زیر غور ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ تمام تجاویز بجٹ میں شامل کی جاتی ہیں تو مہنگائی میں مزید اضافہ، زرعی پیداوار پر دباؤ اور توانائی کے متبادل ذرائع کی حوصلہ شکنی جیسے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،تاہم حکومت کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو یقینی بنا کر قرض کی نئی قسط حاصل کی جائے تاکہ ملکی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔
آئندہ بجٹ میں کیے جانے والے یہ ممکنہ اقدامات جہاں بین الاقوامی اداروں کے مطالبات کی تکمیل کا حصہ ہیں، وہیں ملکی معیشت میں استحکام پیدا کرنے کی حکومتی کوششوں کی عکاسی بھی کرتے ہیں، تاہم ان کا اثر براہ راست عوام کی جیب پر پڑنے کا خدشہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف کے مطابق کی تجویز کرنے کی کے لیے
پڑھیں:
ملک میں پیسے والا آدمی ڈائریکٹ ٹیکس دینے کو تیار نہیں
لاہور:تجزیہ کار فیصل حسین کا کہنا ہے کہ جو ٹیکس کی بات ہے یہ وہی والی بات آ رہی ہے کہ جس پر زور چل رہا ہے اسی سے ٹیکس لے رہے ہیں، اس ملک میں تنخواہ دار آدمی کی گردن آپ کے جوتے کے نیچے آ چکی ہے تو آپ اس کو دبائے چلے جا رہے ہیں دبائے چلے جا رہے ہیں، لیکن جو آپ کے قابو میں نہیں آ رہا اس پر سے آپ نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس ملک کے اندر پیسے والا آدمی ڈائریکٹ ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہے، ان ڈائریکٹ دیتا ہوگا۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہاکہ میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے کہ جب ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتے ہیں توہمیں سال ڈیڑھ سال بڑی اسٹیبلیٹی نظر آتی ہے اکانومی میں، ہمیں سارے مائیکرو اکنامک انڈیکیٹرز بہتری کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل سچویشن اس کے بعد اسٹارٹ ہوتی ہے جب گورنمنٹ گروتھ کی طرف جاتی ہے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ ظاہر ہے اس میں ہماری غلطیاں ہیں ، کبھی کوئی فوجی حکمران کوئی ڈرامہ لگا کہ بیٹھ جاتا تھا، کچھی کچھ، کبھی امریکا کے پیسوں کے سہارے چلتے تھے اور جیسے ہی پیسے گئے سارے کے سارے یہاں پر انسٹی ٹیوشنز ہی غائب تھے، کوئی کام ہی نہیں تھا۔
تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ آئی ایم ایف اگلے مالی سال کیلیے 14ہزار ارب روپے ٹیکس کا بڑا ہدف دے رہی ہے، رواں مالی سال میں بجٹ میں ٹیکسوں کی وصولی کا جو ہدف تھا اس میں بھی پہلے دس ماہ میں 830 ارب روپے کا شارٹ فال ہے، ایک طرف تو حکومت اور ایف بی آر کو چیلنج یہ ہوگا کہ کیا وہ اس ہدف کو پورا کر سکیں گے؟، بھارت کے ساتھ جو کشیدگی ہوئی ہے جو بھارتی جارحیت ہوئی ہے اس کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا جو دفاعی بجٹ ہے اس میں بڑا اضافہ ناگزیرہوگا۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہاکہ آئی ایم ایف کا پریشر یہی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ ریونیو جنریٹ کریں، ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو بڑھایا جائے تاکہ ٹیکس نیٹ میں جو چیزیں ہیں وہ لے کہ آئی جائیں، اب گورنمنٹ کا یہی تھا کہ سیلیرڈ کلاس کو ریلیف دیا جائے، کتنا ریلیف دے دیں گے دو پرسنٹ ،تین پرسنٹ یا ٹیکس کی جو سلیب ہے ایک لاکھ سوا لاکھ تک کر دیںگے،گورنمنٹ پٹرولیم لیوی سے یا سیلیرڈ کلاس سے ریونیو جنریٹ کرتی ہے باقی کیا دیتے ہیں۔