بنگلادیش اے اور جنوبی افریقا اے کے درمیان ٹیسٹ میچ کے دوران کھلاڑی ایک دوسرے سے ہاتھا پائی پر اُتر آئے۔

میرپور کے شیر بنگلہ کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے جارہے ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقا اے نے بنگلادیش اے کی ٹیمیں مدمقابل تھیں، جہاں دونوں ٹیموں کے کھلاڑی میدان پر ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔

واقعہ اسوقت پیش آیا جب بنگلادیش کے رپن مونڈول نے جنوبی افریقی کرکٹر کو چھکا لگایا جس کے بعد بولر اور بیٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور پھر بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔

مزید پڑھیں: حسن علی 5 وکٹیں لینے والے چوتھے پاکستانی بولر بن گئے

وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جنوبی افریقی بالر شیپو اینٹولی نے بنگلادیشی بیٹر کو پہلے دھکا اور پھر ہاتھا پائی شروع کردی، اس دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑی اور امپائر دونوں کو الگ کرتے نظر آئے۔

مزید پڑھیں: فیفا نے شاہین آفریدی کو عظیم فٹبالرز کی فہرست میں لاکھڑا کیا، مگر کیسے؟

واقعہ کی رپورٹ آن فیلڈ امپائر جنوبی افریقی بورڈ اور بنگلادیش کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں کو پیش کریں گے اور دونوں کھلاڑیوں پر سخت پابندیاں لگنے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: شاہین آفریدی نے رمیز راجا کو لائیو ٹی وی پر شرمندہ کردیا

یہ پہلا موقع نہیں کہ میدان پر دونوں ٹیموں کے کھلاڑی آپس میں الجھے ہوں، اس سے قبل ون ڈے سیریز کے دوران بھی انڈیل سمیلانے اور جشن عالم کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور دونوں کرکٹرز کو معطلی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 

دوسری جانب میچ میں بنگلادیش اے نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 371 رنز بنائے جبکہ جواب میں جنوبی افریقی 42.

3 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 152 رنز بناچکی ہے۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنوبی افریقی ہاتھا پائی

پڑھیں:

جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) جنوبی ایشیا میں جیلیں صرف قید و بند کی جگہیں نہیں رہیں، یہ تاریخ کے وہ خاموش گوشے بھی ہیں جہاں کئی نسلوں کے سیاسی خواب، جدوجہد، اذیتیں اور اصولی اقدار کاغذ پر منتقل ہوتے رہے ہیں۔ جیل کے سناٹے میں لکھی گئی یہ تحریریں نہ صرف فرد کی مزاحمت کا بیانیہ ہیں، بلکہ پورے عہد کا عکاس بھی۔

برصغیر میں زندان ادب یا زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کی روایت نے آزادی کی تحریک کے دوران جڑ پکڑی، جب برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو جیل کی دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ نہرو، گاندھی، بھگت سنگھ اور خان عبدالغفار خان جیسے رہنماؤں نے جیل کو ایک فکری خلا کے بجائے تخلیق کا میدان بنایا۔ لاہور جیل میں بھگت سنگھ کی مشہور تحریر ’وائے آئی ایم این ایتھیئسٹ‘ ہو یا خان عبدالغفار خان کی خود نوشت 'مائی لائف مائی اسٹرگل‘ یہ تحریریں آج بھی وقت سے ماورا سچ بولتی ہیں۔

(جاری ہے)

کتاب سے اسکرین تک، ادب کی بے ادبی

پاکستان میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کے فقدان کے اسباب

آزادی کے بعد سیاسی جبر کی شدت کم ہوئی، اور یوں جیل ادب بھی طویل وقفے میں داخل ہو گیا۔ مگر پھر 1975ء میں بھارت میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی نے اسے دوبارہ جنم دیا۔ صحافی کلدیپ نئیر نے اپنی اسیری کی کہانی ’اِن جیل ایمرجنسی ری ٹولڈ‘ میں لکھی، جبکہ جے پرکاش نارائن اور لال کرشن اڈوانی جیسے سیاستدانوں نے بھی جیل کو اپنے فکری سفر کا سنگ میل بنایا۔

پاکستان میں چونکہ آمریت اور مارشل لا کے ادوار آتے جاتے رہے، اس لیے وہاں زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کا سفر جاری رہا۔

پاکستانی فوجی سربراہ ایوب خان کے 1958ء سے 1969ء تک جاری رہنے والے مارشل لا کے دوران فیض احمد فیض نے ’زندان نامہ‘ اور ’دست صبا‘ جیسی شاہکار شاعری تخلیق کی۔

اسی طرح جنرل ضیا الحق کی طرف سے لگائے گئے مارشل لاء کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی جیل ڈائریاں اور کتابیں منظر عام پر آئیں، جو انہوں نے موت کی سزا کا انتظار کرتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لکھیں۔

اکیسویں صدی میں بھارت میں جب ایک بار پھر صحافیوں، کارکنوں اور سیاستدانوں پر ریاستی شکنجہ کسنے لگا، جیل ادب نے ایک نئی کروٹ لی۔ ممبئی کے استاد عبدالوحید شیخ نے، جو 2006ء کے ٹرین دھماکوں کے جھوٹے الزام میں نو برس تک قید و بند میں رہے نہ صرف اپنی روداد لکھی، بلکہ انہوں نے دیگر جیل ڈائریوں اور جیل ادب کو یکجا کر کے ان پر ڈاکٹریٹ کےلیے مقالہ بھی لکھا۔

حال ہی میں ان کو ایک یونیورسٹی نے انہیں اس کاوش کے لیے ڈاکٹریٹ سے نوازا۔

عبدالوحید شیخ کے مطابق، ’’جیل کے اندر نعت، حمد، نظم، غزل، ڈائری اور خودنوشت تک ہر صنف کو برتا گیا ہے۔ یہ ادب یا تو دل سے نکلا ہوا جذباتی اظہار ہے یا مزاحمت کی پرزور صدا۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’’یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ آزادی کے بعد ایسے قیدیوں کی تحریروں کو وہ مقام نہیں دیا گیا جن پر ریاست نے ملک مخالف قوانین تھوپے۔

‘‘

سینئر صحافی افتخار گیلانی نے، جو 2002ء میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت نو ماہ قید میں رہے، 1975ء کے بعد بھارت میں قید و بند کے حوالے سے پہلی یاداشت لکھی۔ ان کی انگریزی کتاب 'مائی ڈیز اِن پریزن‘ 2005ء میں جبکہ اس کا اردو ورژن ’تہاڑ میں میرے شب و روز‘ 2006ء میں منظر عام پر آئی۔

قید خانے میں تخلیق پانے والے ادب کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’ایمرجنسی کے بعد تین دہائیوں تک جیل ادب جیسے خاموش ہو گیا تھا، مگر اب جب پھر سے اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے، یہ روایت پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔

‘‘

اسی سلسلے میں سدھا بھردواج، جی این سائبابا اور ڈاکٹر بنائک سین، کوبڈ گاندھی جیسے سماجی کارکنوں نے بھی اپنی قید کی کہانیاں قلمبند کی ہیں، جو صرف ذاتی اذیت کی داستانیں نہیں بلکہ ریاست اور فرد کے بیچ جاری کشمکش کا آئینہ بھی ہیں۔

جنوبی ایشیا کا زندان ادب دراصل ان آوازوں کا مجموعہ ہے جنہیں دبانے کی کوشش کی گئی، مگر مرزا غالب کے اس شعر کے مصداق:

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

جیلوں اور قید خانوں کی دیواریں ان آوازوں کو قید رکھنے میں ناکام رہیں۔ یہ صرف قیدیوں کا ادب نہیں، یہ گواہی ہے اس سچ کی جسے طاقت نے بارہا قید کرنے کی کوشش کی، مگر ہر بار قلم نے آزاد کیا۔

متعلقہ مضامین

  • منیب بٹ نے صابری قوال کے قتل پر خاموشی کے خلاف آواز اٹھا دی، ویڈیو وائرل
  • پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت
  • اسلام آباد ٹریفک پولیس کے انسپکٹر کی ایمبولینس اسٹاف کے ساتھ بدسلوکی؛ ویڈیو وائرل
  • اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی پیرا گلائیڈنگ کرتے ویڈیو وائرل
  • موسلا دھار بارش کا خطرہ: بالائی علاقوں میں اربن فلڈنگ اور لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ
  • لِپ فلرز ختم کروانے پر عرفی جاوید کا چہرہ بگڑ گیا، ویڈیو وائرل
  • کراچی میں بے رحم ڈکیتوں نے اسکول طالبہ کے سامنے والد کو لوٹ لیا، ویڈیو وائرل
  • غیرت کے نام پر خاتو ن ومرد کا بہیمانہ قتل، ویڈیو وائر ل
  • مولانا طارق جمیل کی عمران خان سے متعلق وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی