اسلام آباد – ایکٹ الائنس پاکستان کے نیشنل کنوینر مبشر اکرم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کی مالی خودمختاری کو محفوظ بنانا ناگزیر ہے، اور ٹیکس پالیسی سازی کو قومی مفادات اور مقامی زمینی حقائق سے ہم آہنگ رہنا چاہیے۔ اسلام آباد میں ایک میڈیا بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وفاقی بجٹ سے قبل کے ہفتوں میں پاکستان کی تمباکو ٹیکس پالیسی پر بیرونی مداخلت کے جارحانہ تسلسل پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) حالیہ ہفتوں میں تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ کے لیے سرگرم ہو گیا ہے، جبکہ اس سے قبل یہی بیانیہ غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے والی تنظیموں، جیسے “کیمپین فار ٹوبیکو فری کڈز” (CTFK) اور “وائٹل اسٹریٹیجیز”، کے ذریعے مسلسل پھیلایا جاتا رہا ہے۔ مبشر اکرم نے نشاندہی کی کہ “یہ تنظیمیں پاکستان میں برسوں تک بلا اجازت سرگرم رہیں، اور انہوں نے اکنامک افیئرز ڈویژن سے این او سی اور وزارت داخلہ سے رجسٹریشن حاصل نہیں کی۔”
“ہم عوامی صحت کو قومی ترجیح تسلیم کرتے ہیں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی ٹیکس پالیسی شفاف اور مشاورت پر مبنی عمل سے طے ہو، نہ کہ بین الاقوامی خیرات پر چلنے والے اداروں کے بیانیہ کے ذریعے مسلط کی جائے،” مبشر اکرم نے کہا۔ “اس قسم کے بیانیے اکثر پاکستان کے پیچیدہ کاروباری ماحول کو نظرانداز کرتی ہیں اور قانونی و ٹیکس دینے والے اداروں اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔”
انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی پالیسیوں کے تضاد پر سوال اٹھایا، اور پاکستان کے لیے تجویز کردہ اقدامات اور سوئٹزرلینڈ ، جو WHO کا میزبان ملک ہے، کی اپنی پالیسیوں کے درمیان نمایاں فرق کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا: “اگرچہ WHO عالمی سطح پر ایف سی ٹی سی (ٹوبیکو کنٹرول فریم ورک کنونشن) کی وکالت کرتا ہے، لیکن سوئٹزرلینڈ نے تاحال اس معاہدے کی توثیق نہیں کی۔ وہاں تمباکو کی اسپانسرشپ، اشتہارات، اور کاروباری مارکیٹنگ کی اجازت دی جاتی ہے، جو ایف سی ٹی سی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، اور کئی بنیادی پابندیاں بھی صرف اکتوبر 2024 میں نافذ کی گئی ہیں۔”
انہوں نے زور دیا کہ ٹیکس میں بے تحاشا اضافے کے مطالبے کو زمینی حقائق اور نفاذ کی عملی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھنا چاہیے۔ “پاکستان کے تمباکو سیکٹر کو ہر سال غیر قانونی تجارت، ٹیکس چوری اور مسلسل قانونی خلاف ورذیوں کی وجہ سے 300 ارب روپے سے زائد کے نقصان کا سامنا ہے۔ قانونی صنعت، جو پہلے ہی 2023 کے بھاری ٹیکس اقدامات کے باعث دباؤ میں ہے، مزید دباؤ برداشت نہیں کر سکتی، کیونکہ اس سے مارکیٹ کا توازن مکمل طور پر بگڑ سکتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اس وقت تقریباً 300 ارب روپے سالانہ کے ٹیکس محصولات کھو دینے کے خطرے سے دوچار ہے، جو قانونی صنعت قومی خزانے میں جمع کراتی ہے، “اور اس کا فائدہ صرف غیر قانونی سگریٹ مافیا کو ہوگا۔”
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ باضابطہ معاشی شعبوں، خصوصاً قانونی تمباکو ساز اداروں کے مارکیٹس میں مسابقت کے منصفانہ حق کو ترجیح دے، اور نفاذ کے میکانزم کو مضبوط بناتے ہوئے غیر قانونی سگریٹ تجارت اور ٹیکس چوری کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے۔ “ہم دیکھ رہے ہیں کہ قانونی انڈسٹری کا مارکیٹ شیئر مسلسل سکڑ رہا ہے، جو قومی ٹیکس اہداف کے لیے بھی بے پناہ نقصان دہ ہے،” انہوں نے کہا۔
اختتام پر مبشر اکرم نے ایکٹ الائنس پاکستان کی پالیسی پر مبنی تعمیری مکالمے اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معاشی پالیسیاں، پاکستان کے مفاد میں ہی بننی چاہئیں۔ “ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ادارہ جاتی صلاحیت کو مضبوط کرے، اور قومی پالیسی سازی کو بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھے۔ ٹیکس سے متعلق فیصلے اقتصادی ماڈلنگ، انڈسٹری کے اعداد و شمار، اور تمام متعلقہ فریقوں کی شمولیت سے ہونے چاہییں، نہ کہ بیرون ملک تیار شدہ بیانیوں کی بنیاد پر کیونکہ قومی معاشی فیصلہ سازی کی خودمختاری کا تحفظ ہی پائیدار ترقی اور قومی وقار کی ضمانت ہے۔”

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مبشر اکرم نے ٹیکس پالیسی کہ پاکستان پاکستان کی پاکستان کے انہوں نے نے کہا

پڑھیں:

ٹیکس بل پر اختلافات، ایلون مسک نے ٹرمپ حکومت سے استعفیٰ دے دیا

امریکی صدر کے مشیر ، ارب پتی ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں،

وائٹ ہاؤس نے بھی ان کے استعفے کی تصدیق کر دی ہے۔

ایلون مسک نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’ایک خصوصی سرکاری ملازم کے طور پر میری طے شدہ مدت کے اختتام پر میں صدر  ٹرمپ  کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے فضول اخراجات کو کم کرنے کا موقع دیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (DOGE) مشن وقت کے ساتھ مضبوط ہوتا جائے گا، کیونکہ یہ حکومت میں ایک طرزِ زندگی بن جائے گا۔‘

ایک وائٹ ہاؤس اہلکار نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ مسک انتظامیہ چھوڑ رہے ہیں اور ان کا ’آف بورڈنگ‘ آج رات سے شروع ہوگا۔

ایک ایسے شخص کا اچانک اور غیر رسمی طور پر جانا، جس نے خود کو ٹرمپ کا ’پہلا دوست‘ قرار دیا تھا، غیر متوقع تھا،

معاملے سے واقف ذرائع کے مطابق مسک نے استعفیٰ دینے سے قبل ٹرمپ سے باقاعدہ بات چیت نہیں کی اور ان کا فیصلہ ’سینئر اسٹاف کی سطح پر‘ کیا گیا تھا۔

دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے ایک غیر منتخب عہدیدار کے طور پر اپنے کردار کا دفاع کیا، جنہیں ٹرمپ نے امریکی حکومت کے بعض حصے ختم کرنے کے لیے بے مثال اختیارات دیے تھے،

ٹرمپ انتظامیہ میں ایلون مسک کی 130 دن کی مدت 30 مئی کو مکمل ہو رہی تھی۔

ایلون مسک نے ٹرمپ کے ٹیکس بل پر اختلاف کے بعد امریکی حکومت کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

مسک اور انتظامیہ دونوں نے کہا ہے کہ ڈوج کے حکومت کو از سر نو ترتیب دینے اور سکڑنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔

ایلون مسک پورا ہفتہ واشنگٹن سے واپسی اور اپنے کاروباری منصوبوں میں واپسی کے عزم کا اشارہ دیتے آرہے تھے،

انہوں نے ٹرمپ کے اخراجاتی منصوبے پر شدید تنقید کی اور محکمہ برائے حکومتی کارکردگی کی کوششوں کے ردعمل پر مایوسی کا اظہار کیا۔

انہوں نے صدر کے اہم ٹیکس بل کو بہت مہنگا قرار دیا اور کہا کہ یہ حکومت کو مؤثر بنانے کی ان کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا۔

ایلون مسک نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا تھا کہ وفاقی بیوروکریسی کی صورتحال میری توقعات سے کہیں بدتر ہے، لگتا تھا کہ کچھ مسائل ہیں لیکن ڈی سی میں بہتری لانے کی کوشش ایک مشکل جنگ ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈوج (DOGE) کو ’قربانی کا بکرا‘ بنا دیا گیا جسے ٹرمپ انتظامیہ میں کسی بھی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

ایلون مسک نے نجی طور پر کابینہ کے چند اعلیٰ سطح کے حکام سے اختلاف کیا اور پبلک میں وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو کو ’بیوقوف‘ کہا، کیونکہ انہوں نے امریکا اور یورپ کے درمیان زیرو ٹیرف کی مسک کی تجویز کو مسترد کیا تھا۔

مسک نے حال ہی میں وائٹ ہاؤس حکام سے ابوظبی اور اوپن اے آئی کے درمیان ہونے والے معاہدے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا تھا، انہوں نے اس سے پہلے اس معاہدے کو اس وقت تک روکنے کی کوشش کی تھی جب تک کہ ان کی کمپنی کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔

نیویارک ٹائمز نے مزید بتایا کہ ایلون مسک کی سیاست سے حالیہ ’مایوسی‘ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وسکونسن میں ان کا پسندیدہ عدالتی امیدوار ناکام ہو گیا، حالانکہ مسک نے اس مہم میں ڈھائی کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے۔

رائٹرز کے ایک جائزے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈوج نے وفاقی سول ورک فورس میں سے تقریباً 12 فیصد یعنی 23 لاکھ میں سے 2 لاکھ 60 ہزار ملازمین کو نکال دیا ہے جو بنیادی طور پر برطرفی کی دھمکیوں، بائی آؤٹ اور قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی پیشکشوں کے ذریعے ممکن ہوا۔

ایلون مسک کی سیاسی سرگرمیوں نے مظاہروں کو جنم دیا اور کچھ سرمایہ کاروں نے مطالبہ کیا کہ وہ ٹرمپ کے مشیر کے طور پر کام چھوڑ کر ٹیسلا پر زیادہ توجہ دیں۔

گزشتہ سال ٹرمپ کی صدارتی مہم اور دیگر ریپبلکن امیدواروں کے لیے تقریباً 30 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے بعد انہوں نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ وہ اپنی سیاسی فنڈنگ کو نمایاں طور پر کم کریں گے،

قطر میں اقتصادی فورم سے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں، میں کافی کچھ کر چکا ہوں‘۔

اگرچہ مسک نے اس سال ٹرمپ کے مشیروں سے کہا تھا کہ وہ 2026 کے وسط مدتی انتخابات سے قبل صدر سے منسلک گروپوں کو 10 کروڑ ڈالر دیں گے،

تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ رقم اس ہفتے تک فراہم نہیں کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • انسانی حقوق کمیشن کا چائلڈ میرج بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت پر اظہار تشویش
  • ایچ آر سی پی کا پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کی مکمل منسوخی کا مطالبہ
  • ٹیکس بل پر اختلافات، ایلون مسک نے ٹرمپ حکومت سے استعفیٰ دے دیا
  • بانی کو بتایا جب تک بڑا الائنس نہیں بنتا حکومت پر دبا ﺅ نہیں بڑھ سکتا: فواد چودھری
  • بانی کو بتایا جب تک بڑا الائنس نہیں بنتا حکومت پر دباؤ نہیں بڑھ سکتا، فواد چودھری
  • ابیہہ بتول: بچوں کی آواز جو قومی و عالمی سطح پر گونجی
  • غزہ: اسرائیل سے لوگوں کو بھوکا رکھنے کی پالیسی ترک کرنے کا مطالبہ
  • غیر قانونی تارکین وطن نے قومی سلامتی اور خودمختاری کو خطرے میں ڈال دیا ہے، نائب صدر ہند
  • قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ کا گنے کی پیدوار کے اعدادوشمار پر تحفظات کا اظہار