18 سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج جرم قرار؛ صدر مملکت نے بل پر دستخط کردیے
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کے بل پر دستخط کردیے، جس کے بعد 18 سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج قانونی جرم قرار ہوگا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد یہ بل قانون کا حصہ بن گیا ہے، جس کے تحت 18 سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج قانونی جرم ہوگا۔
ایکٹ کے مطابق نکاح رجسٹرار کم عمر بچوں کی شادی کا اندارج نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسی طرح نکاح پڑھانے والا شخص نکاح پڑھانے یا رجسٹرڈ کرنے سے قبل فریقین کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کی موجودگی یقینی بنائے گا۔
قانون کے مطابق بنا کوائف کے نکاح رجسٹر کرنے یا پڑھانے پر ایک سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔ 18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی بھی جرم قرار دے دی گئی ہے اور 18 سال سے زائد عمر کے مرد کی کمسن لڑکی سے شادی پر سزا مقرر کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں کمسن لڑکی سے شادی پر کم سے کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال قید بامشقت ہوگی۔ کمسن لڑکی سے شادی پر جرمانہ بھی ہوگا اور کم عمر بچوں کی رضامندی یا بغیر رضامندی شادی کے نتیجے میں مباشرت نابالغ فرد سے زیادتی سمجھی جائے گی۔
ایکٹ کے مطابق نابالغ دلہن یا دلہے کو شادی پر مائل یا مجبور کرنے، ترغیب دینے اور زبردستی کرنے والا شخص بھی زیادتی کا مرتکب قرار ہوگا۔ نابالغ دلہن یا دلہے کی شادی کرانے پر 5 سے 7 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔
شادی کی غرض سے کسی بچے کو ملازمت پر رکھنے، پناہ دینے یا تحویل میں دینے والے شخص کو 3 سال قید بمع جرمانہ سزا ہوگی۔ قانون میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی پر والدین اور سرپرست کے لیے بھی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
ایکٹ کے مطابق کمسن بچوں کی شادی کے فروغ، بدسلوکی یا شادی کے انعقاد پر والدین کو 3 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا ہوگی۔ شادی کے لیے کمسن بچوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور یا زبردستی کرنا بچوں کی اسمگلنگ قرار دیا گیا ہے اور بچوں کی اسمگلنگ کے مرتکب شخص کو 5 سے 7 سال قید اور جرمانے کی سزائیں ہوں گی۔
قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی رکوانے کے لیے عدالت کو حکم امتناع دینے کا اختیار ہوگا۔ عدالت کم عمر بچوں کی شادی سے متعلق مقدمات 90 روز میں نمٹانے کی پابند ہوگی۔
بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت میں فی الفور نافذ العمل ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کم عمر بچوں کی شادی سال سے کم عمر بچوں لڑکی سے شادی کے مطابق کے نکاح سال قید شادی کے
پڑھیں:
18 سال سے کم عمر میں شادی ناقابل ضمانت جرم قرار، صدر نے بل پر دستخط کردیے
اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری نے کم عمری کی شادی کی ممانعت سے متعلق اسلام آباد ’کیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل‘ پر دستخط کرکے اس کی منظوری دے دی۔
پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایوانِ صدر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پر شیئر کیا۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ اور بچوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادیوں کے خاتمے کے لیے تیار کیا گیا بل 27 مئی کو ایوانِ صدر پہنچا تھا، اس سے قبل قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس بل کی منظوری دی تھی۔
تاہم، اس اقدام کو معاشرے کے مذہبی حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی کو ریپ قرار دینا اسلامی قوانین کے مطابق نہیں۔
ایوان صدر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 2025 کو پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے بعد صدر کی منظوری حاصل ہو گئی ہے۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے اس قانون کو پاکستان میں بچوں کی شادیوں کے خلاف قانون سازی کی ایک اہم منزل قرار دیا اور کہا کہ مختلف حلقوں کی مزاحمت کے باوجود یہ کامیابی حاصل ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل پر دستخط اصلاحات کے ایک نئے دور کی علامت ہیں، یہ خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جیت ہے، یہ قانون ایک لمبی اور مشکل جدوجہد کے بعد ممکن ہوا۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ بل محض ایک قانون نہیں بلکہ اس عزم کی علامت ہے کہ ہماری بچیوں کو تعلیم، صحت اور خوشحال زندگی کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پارٹی رہنماؤں، دیگر سیاسی جماعتوں، اپوزیشن اور عوام کا شکریہ ادا کیا اور باقی صوبوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھی ایسی قانون سازی کی طرف قدم بڑھائیں۔
دوسری طرف، جماعت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا جلال الدین نے کہا کہ صدر زرداری کو یہ بل سائن نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ یہ بل نہ صرف شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ہماری سماجی اقدار اور روایات سے بھی متصادم ہے، یہ مغرب کی سازش ہے تاکہ ہمارا خاندانی نظام تباہ کیا جا سکے’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجے بغیر خفیہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور کرانا بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم، پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی، جنہوں نے یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، نے کہا کہ نابالغ بچیوں کی شادی کے معاملے کو مذہبی رنگ دینے کے بجائے انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم شادیوں کے خلاف نہیں، لیکن 13 یا 14 سال کی بچیوں کی شادی اس وقت انصاف کے خلاف ہے جب انہیں ووٹ ڈالنے، قومی شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔
شرمیلا نے 2022 کے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا، جس میں ریاست کو شادی کی کم از کم عمر مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
بل میں کیا ہے؟
کم عمری کی شادی کی روک تھا سے متعلق قانون کے مطابق 18 سال سے بڑی عمر کے مرد کو کم عمر لڑکی سے شادی پر 3 سال تک قید بامشقت ہوگی، اسی طرح 18 سال کی عمر سے قبل ساتھ رہنےکو بچے سے زیادتی تصور کیا جائےگا، کم عمر دلہن یا دلہےکو شادی پر مجبور کرنے والے کو 7 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
قانون کے مطابق بچے کی شادی کے لیے ٹریفکنگ پر7 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا، کم عمر بچے کی شادی میں معاونت پر 3 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔
قانون کے مطابق ایسا نکاح پڑھانے کی ممانعت ہوگی جہاں دلہا یا دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوگی، نکاح خواں یقینی بنائےگا کہ دونوں فریقین کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے جبکہ خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے ۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کا بل منظور کیا تھا، قومی اسمبلی میں یہ بل شرمیلا فاروقی اور سینیٹ میں شیری رحمٰن نے پیش کیا تھا،اسلامی نظریاتی کونسل کم عمری کی شادی کے بل کو غیر اسلامی قرار دے چکی ،کونسل نے اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر سزاؤں کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔