صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کم عمری (نابالغ) کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے، جس کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن گیا ہے۔ بل قومی اسمبلی میں شرمیلا فاروقی اور سینیٹ میں شیری رحمٰن کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔

نئے قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کا نکاح ممنوع قرار دیا گیا ہے، اور کسی بھی نکاح خواں کو ایسے نکاح کی ادائیگی پر ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔

اگر 18 سال سے زائد عمر کا شخص کسی کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے، تو اسے 3 سال تک قیدِ بامشقت کی سزا دی جا سکے گی۔ اسی طرح والدین یا سرپرست اگر کم عمر بچوں کی شادی کرائیں یا اسے روکنے میں ناکام رہیں، تو انہیں بھی 3سال قید بامشقت اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: کم عمر بچوں کی شادیوں کے بل میں کیا سزائیں تجویز کی گئی ہیں؟

قانون میں عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر اسے کسی کم عمر شادی کی اطلاع ہو، تو وہ شادی رکوانے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔ اطلاع دینے والا شخص اگر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنا چاہے تو عدالت اُسے تحفظ فراہم کرے گی۔

یہ قانون کم عمری کی شادیوں کی روک تھام اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بل کی مخالفت کیوں کی؟

کم عمر بچوں کی شادیوں کے بل کی مخالفت ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور اب بھی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگر ایسے بل آئیں گے جو کہ شریعت کے مطابق نہیں ہوں گے تو تنازع پیدا ہوگا۔ اسمبلیاں بانجھ نہیں ہیں، قرآن و سنت کے خلاف اگر کوئی بل یا قانون ہو تو اسے اسمبلی میں آنا ہی نہیں چاہیے۔

بل میں کیا سزائیں تجویز کی گئی ہیں؟

سینیٹ اور قومی اسمبلی سے کم عمر بچوں کی شادیوں پر پابندی سے متعلق بل منظوری اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے۔ وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے کم عمر بچوں کی شادیوں پر پابندی سے متعلق بل میں کیا سزائیں تجویز کی گئیں ہیں؟

شادی کے مرتکب کی سزا

بل کے متن کے مطابق 18 سال سے زائد عمر مرد کی اگر کمسن لڑکی سے شادی ہوتی ہے تو اس کے لیے سزا مقرر کی گئی ہے، اس مرد کو کم سے کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال قید بامشقت ہوگی، اس کے علاوہ جرمانہ بھی ہوگا۔

مزید پڑھیں: بیک وقت 2 لڑکیوں کی ایک لڑکے سے شادی: ’ایک کو بھگا کر لایا، دوسری خود پہنچ گئی‘

اس کے علاوہ بل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کم عمر بچوں کی شادی کے نتیجے میں مباشرت نابالغ فرد سے زیادتی تصور کی جائے گی چاہی یہ شادی رضامندی سے ہوئی ہو یا بغیر رضامندی کے۔

نکاح کروانے والی کی سزا

بل کے مطابق نابالغ دلہن یا دولہے کو شادی پر مائل کرنے، مجبور کرنے، ترغیب دینے یا زبردستی شادی کرانے والا شخص چاہے وہ کوئی بھی رشتے دار ہو وہ شخص بھی زیادتی کا مرتکب قرار دیا جائےگا۔ ایسے شخص کو کم سے کم 5 اور زیادہ سے زیادہ 7 سال قید، اور 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔

والدین کو کم عمر بچوں کی شادی کرانے پر 3 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا ہوگی۔

نکاح رجسڑار کی سزا

بل میں نکاح رجسٹرار کے لیے بھی سزائیں تجویز کی گئی ہے، کم عمر بچوں کا نکاح پڑھانے والا شخص نکاح پڑھانے سے قبل دولہا دلہن کے اصلی کمپیوٹررائز شناختی کارڈز کی موجودگی یقینی بنائے گا، اگر کمپیوٹررائز شناختی کارڈز کی غیر موجودگی میں نکاح پڑھایا گیا اور رجسٹر کرایا گیا تو ایسے نکاح رجسٹرار ایک سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

عدالتی اختیار

بل کے مطابق کم عمر بچوں کی شادی رکوانے کے لیے عدالت کو اختیار ہوگا کہ وہ حکم امتنا جاری کرے جبکہ عدالت پر پابندی ہوگی کہ وہ کم عمر کی شادی کے مقدمات کا فیصلہ 90 روز میں کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بچے بچیاں بل دستخط شادی کی ممانعت صدر مملکت آصف علی زرداری کم عمری نابالغ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بچے بچیاں شادی کی ممانعت صدر مملکت آصف علی زرداری نابالغ کم عمر بچوں کی شادیوں سزائیں تجویز کی گئی کم عمر بچوں کی شادی کے مطابق سال قید کی سزا گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

کم عمری میں شادی کے خلاف بل پر اعتراضات کیوں؟

شانزے جو ابھی کالج سے گھر آئی تھی، ماں کے کہنے پر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ سامنے بیٹھے انجان چہروں نے لڑکی پسند آنے کی نوید سنائی تو مارے خوشی کے ماں نے بیٹی کا ماتھا چوم لیا۔ شانزے کی عمر ابھی 17 برس ہے، شادی کے نام پر شانزے کا بچپن ختم کردیا گیا۔

کم عمری کی شادی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں ایسا مسئلہ ہے جو کئی دیگر مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یونیسیف کے مطابق 12 ملین لڑکیوں کی شادی 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کردی جاتی ہے۔ عالمی منظرنامے پر نگاہ دوڑائی جائے تو صرف بھارت ہی ایک تہائی کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کا ملک ہے۔

طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی جیسے ظالمانہ اقدامات کے بعد افغانستان میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جس کے نتیجے میں 15 سے 19 برس کی لڑکیوں میں زچگی کے دوران اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2002 میں ہر 3 میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 برس سے کم عمر میں ہوئی۔

افریقی ممالک جیسے کہ نائیجیریا، چاڈ اور سینٹرل افریقن ریپبلک میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی شادی کی شرح 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ شدید غربت، تعلیم اور خواتین میں خودمختاری کا فقدان ہے۔

2023 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 18 فیصد لڑکیاں 18 برس سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں جبکہ 4 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس سے کم عمر میں ہوجاتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں اس شرح میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے، البتہ اب بھی یہ مسئلہ لاکھوں بچوں کو متاثر کررہا ہے۔

 

صحت پر مہلک اثرات 

کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی بڑی وجہ غربت ہے۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کے ساتھ آنے والی نسلوں کی صحت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس عمر میں جلد حاملہ ہونے کی وجہ سے ماں اور بچے دونوں میں غذائی کمی اور امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں 15 سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں اور ماں اور بچے کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین کے بچوں میں اسہال کی بیماری کا خطرہ 59 فیصد زیادہ ہوتا ہے جو اکثر اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔

 

تعلیم اور معاشی مواقع کی محرومی

کم عمری کی شادی میں زیادہ تر لڑکیوں پر گھریلو اور ازدواجی ذمے داریوں کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے خواتین مستقبل میں بہتر معاشی مواقع سے محروم رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 631,000 لڑکیاں کم عمری میں شادی کے باعث تعلیم سے محروم ہوئیں۔ یہ محرومی نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ قومی معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کم ہو جاتی ہے۔

 

گھریلو تشدد اور نفسیاتی مسائل

کم عمری کی شادی کے نتیجے میں لڑکیاں گھریلو تشدد اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین میں گھریلو تشدد کا خطرہ دگنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈپریشن، اضطراب اور دیگر نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرتی ہیں۔

 

کم عمر کی شادیوں کے لڑکوں پر اثرات

اگرچہ کم عمری کی شادیاں زیادہ تر لڑکیوں کو متاثر کرتی ہیں، لیکن لڑکوں پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ یونیسیف کے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں 115 ملین لڑکوں کی 18 سال سے پہلے شادی ہوئی۔ کم عمر لڑکوں کو خاندان کی مالی ذمے داری اٹھانے کا دباؤ پڑتا ہے، جس کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے۔ یہ ان کی تعلیم اور ذاتی ترقی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں شادی شدہ جوڑا جو ذہنی طور پر خود ناپختہ ہوتا ہے ان پر بچوں کی بھاری ذمے داری بھی پڑجاتی ہے جسے احسن طریقے سے پورا کرنا صرف ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔

قومی اسمبلی میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کا بل منظور ہونا خوش آئند ہے۔ اس بل میں نہ صرف کم عمر بچوں کے نکاح کے اندراج کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ ایسی شادیوں میں والدین اور سرپرستوں کےلیے سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں جن کا مقصد اس مسئلے کو حقیقتاً جڑ سے ختم کرنا ہے جو کہ یقیناً ایک بہترین اقدام ہے۔

لیکن بدقسمتی سے کئی حلقوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس بل پر نہ صرف اعتراض اٹھایا ہے بلکہ بل کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دے کر دباؤ بھی ڈالا جارہا ہے۔ یعنی جن افراد کو قوم کو سمجھانے کا فرض ادا کرنا چاہیے تھا وہ ایسے بچوں کے ساتھ جنسی تعلق جوڑنا اور ازدواجی مسائل کو فروغ دینا جائز سمجھتے ہیں جن کو ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں دیا جاسکتا۔

ان تمام معترضین سے سوال ہے کہ کبھی وہ آبادی کے بڑھنے، بے ہنگم ہجوم سے لے کر خواتین پر تشدد سمیت ایسے کون سے مسائل ہیں جن کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوں؟ کیا ملک بھر میں تمام مسائل حل ہوچکے ہیں جو اب آپ 18 برس سے کم عمر بچوں سے ان کا بچپن اور لڑکپن چھین کر انھیں ازدواجی زندگی کے بوجھ تلے دبانے کے لیے اتنے پرجوش ہیں؟ اور اگر آپ ایسی خواہش رکھتے ہیں تو کیا کم عمری کی شادیوں کے سنگین نتائج کی ذمے داریاں بھی قبول کریں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • 18 سال سے کم عمر شادی کی ممانعت کا بل قانون بن گیا: صدر نے دستخط کر دیئے
  • آصف علی زرداری نے بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے
  • صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کردیے۔
  • صدر مملکت نے بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے
  • صدر زرداری نے کم عمر بچوں کی شادی کے بل پر دستخط کر دیئے
  • 18 سال سے کم عمر بچوں کے نکاح کا اندراج جرم قرار؛  صدر مملکت نے بل پر دستخط کردیے
  • کم عمری میں شادی کے خلاف بل پر اعتراضات کیوں؟
  • صدرِ مملکت نے بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کردیے
  • صدر مملکت نے بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیئے