سولر پینلز پر ٹیکس کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
ہم وہ لوگ ہیں جو اندھیرے کے عادی تھے، سرشام گھروں میں دیے جلائے جاتے تھے۔ پھر زمانے نے ترقی کی، انگریزوں نے مٹی کے تیل کے کنستر لا لا کر بیچے اور ہم خریدتے چلے گئے۔ اس کے لیے انگلینڈ کی بنی ہوئی لالٹینیں خریدتے رہے۔ پھر بجلی آئی، ہر طرف اس کی طلب پیدا ہوئی، عالمی بینک نے بڑے دو ڈیم بنا کردیے، کہا جلد ہی تیسرا بنا لینا پھر چوتھا اور پانچواں۔ سستی بجلی پیدا ہوگی، عوام کو کسانوں کو سستی ملے گی، کارخانے والوں کو بھی سستی ترین بجلی ملے گی۔ ان کی مصنوعات کا دنیا بھر میں راج ہوگا، لیکن پھر ایسا تو نہ ہوا البتہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کا راج بڑھنے لگا اور بجلی مہنگی ہونے لگی۔ پھر لوڈ شیڈنگ بڑھنے لگی تو جنریٹرز کی گھڑ گھڑ سے جینا دوبھر ہونے لگا۔
اتنے میں دنیا نے ترقی کی ایک اور زقند بھری۔ سائنسدان سورج تک جا پہنچے، اپنا دکھڑا سنایا۔ سورج نے کہا مجھ سے روشنی مفت میں لے لو۔ اپنے اندھیروں کو خیرباد کہہ دو۔ سورج سے مفت بجلی لینے کا نام ’’ سولر انرجی سسٹم‘‘ رکھا گیا۔ یوں روشنی کی ایک نئی دنیا نے جنم لیا۔ جہاں کچھ چیزوں کے دام تھے لیکن سورج کی روشنی مفت اور عام تھی، اس کے ساتھ کئی پرزے بھی تھے۔
میری ناقص معلومات کے مطابق فوٹو وولٹیک سیل، ہائی برڈ انورٹرز، لیتھیم بیٹریز، مونو کرسٹیلائن پینلز وغیرہ۔ اب ان سب باتوں کو سورج سے روشنی لینے کے رازکی گرہیں بیرون ملک جدید ترقی یافتہ ممالک کھول رہے تھے۔ پاکستانی تاجر اس ضرورت کو محسوس کر رہے تھے، کیونکہ یہ سسٹم لوڈ شیڈنگ کے خلاف زبردست بغاوت تھی اور سورج کی طرف سے ایک پیغام تھا کہ اب واپڈا کے بلوں سے آزاد ہو جاؤ کیونکہ سورج تمہارا ہے، تمہارے ملک میں روز نکلتا ہے، خوب چمکتا ہے، روشنی بھی دیتا ہے، فصلیں بھی پکاتا ہے، آم بھی پکتے ہیں اور بہت کچھ۔
اب آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے کہ سولر انرجی پر ٹیکس لگایا جائے، اس کے درآمدی سامان پر ٹیکس لگایا جائے، یہ تاجر بیرون ملک جا کر وہ ٹیکنالوجی ساتھ لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم جدید دنیا کے ساتھ مل کر چل سکیں، کیا کیا ٹیکنالوجی آ رہی ہے، اسمارٹ انورٹرزکی۔ لیتھیم، فاسفیٹ کی، بی ایم ایس کی۔ مگر حکومتی پالیسی پرانی فائلوں میں گم ہے، سولر کے بیوپاری کنٹینرز منگواتے ہیں تو اس کے بعد کتنے جھمیلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بالآخر ان کو کہنا پڑتا ہے میں تو سورج کو لے آیا تھا۔ مگر سرکار کو اندھیروں سے کام ہے۔
میں ایسے تاجروں کی کہانی سن چکا ہوں جو بیرون ملک سولرکی منڈیوں میں جا کر وہاں کے سولر نمائش گاہوں میں جا کر کمپنی سے بھاؤ تاؤ کرتے ہیں، انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں غریب ہیں، غریب کسان ہیں، ان کے لیے سستا پیکیج بنا کردو، پاکستان میں سورج خوب چمکتا ہے اور یوں ایک تاجر جو دل کا مریض بھی ہے لیکن پاکستانیوں کو سستے سولرزکی فراہمی کے لیے جان کو ہتھیلی پر لیے دیار غیر میں پھرتا ہے کہ میں غریب کسانوں کے دامن سورج کی روشنی سے بھردوں، اور جب اس روشنی سے فائدہ اٹھانے والی ٹیکنالوجی کو ڈبوں میں بند کرکے کنٹینرز میں لاد کر لاتا ہے تو بندرگاہ پرکہا جاتا ہے کہ بھائی! روشنی مفت بانٹ رہے ہو تو پھر ٹیکس ادا کرو۔
اب اور زیادہ ٹیکس دینا ہوگا، پھر وہ کہتا ہے بھائی! یہ سولر پینلز ہیں جوکہ سورج کی مفت کرنوں کو روشنی میں بدلنے کا بنیادی آلہ ہے اور یہ انورٹر ہے، اور یہ بیٹری ہے دھوپ جمع کرنے کا ڈبہ، تاکہ راتیں روشن کی جا سکیں۔ اور یہ چارجر،کنٹرولر ہے، اب آئی ایم ایف کہتا ہے۔
ان سب پر ٹیکس لگا دو تاکہ سورج کی مفت روشنی مہنگی ہو کر رہ جائے۔ سولر پینلز بیچنے کے علاوہ صنعتی ملکوں سے خرید کر لانے والے تاجر نے تو یہ چاہا کہ میرا ملک اندھیرے سے نکلے، بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے آزاد ہو۔ اب ان کو پریشان کرنا، جرمانے بھی عائد ہوتے ہیں، ایک بزنس مین نے بتایا ۔ اب کیا کہوں کل کو شاعر پر بھی جرمانہ ہوگا کہ اپنی غزل میں چاند کی چاندنی اس کی ٹھنڈک کو کیوں مفت میں کھینچ لائے ہو۔ یہ صرف سولر پر ٹیکس نہیں، روشنی پر قدغن ہے۔ بجلی کی پیداوار میں خود کفالت کی منزل کو گم کرنا ہے۔
کراچی کی بندرگاہ سے لے کر گوانگژو میں سولر پینلز کمپنیوں کی نمائش گاہ تک دل تھام کر جانے والا دل کا مریض تاجر، مگر عوام کو اندھیروں سے نکالنے کے جذبے سے سرشار تھا۔ جب ہر بار ڈالر ریٹ بڑھتا اس کی سانسیں گھٹتی تھیں۔ اس نے سولر پینلز کے ہاتھوں عوام کو سورج کا یہ پیغام دیا۔ اندھیرے دور کردو، کیوں کہ یہ سورج تمہارا ہے۔ لیکن اب اس پر ٹیکس لگے گا۔ اب یہ مہنگا سسٹم کون خریدے گا، یہ تاجر جو دنیا کی منڈیوں سے سولر سسٹم خرید کر لایا تھا اب بجٹ نے اس پر اندھیرا سایہ ڈال دیا ہے۔ ہمیں بجلی کی ضرورت تھی، جدید ٹیکنالوجی نے سورج کی مفت روشنی سے اندھیرا دور کرنے کا ہنر سکھا دیا تھا لیکن اب ٹیکس اس پر رکاوٹیں ڈال دے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سولر پینلز سورج کی پر ٹیکس
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی کی امریکی تجویز پر حماس کا ردعمل سامنے آگیا
حماس نے امریکی صدر کی جانب سے پیش کردہ غزہ میں جنگ بندی کے منصوبے پر اپنا دوٹوک مؤقف مذاکرات کے ثالثوں قطر اور مصر کے سامنے رکھ دیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حماس نے امریکی جنگ بندی کی تجویز پر تین واضح اور بنیادی مطالبات پیش کیے ہیں۔
پہلا مطالبہ غزہ میں مستقل اور پائیدار جنگ بندی کا ہے نہ کہ عارضی یا محدود پیمانے پر سیزفائر کرنا جیسا کہ امریکی تجویز میں کہا گیا تھا۔
حماس نے امریکی تجویز کے مقابلے میں دوسرا مطالبہ غزہ اور مغربی کنارے کے تمام علاقوں سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا کا کیا ہے۔
جنگ بندی کے لیے حماس کا تیسرا مطالبہ غزہ میں انسانی امداد کی بغیر کسی رکاوٹ کے آزادانہ فراہمی ہے جس میں بنیادی ضروریات کی اشیا، ادویات، طبی آلات اور تعمیراتی مشینری بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ جنوری میں ہونے والے 42 روزہ جنگ بندی معاہدے میں بھی یہی دو نکات (فوجی انخلا اور امداد کی فراہمی) ابتدائی مرحلے میں شامل تھے، مگر اسرائیل نے معاہدے کی ان دونوں شرائط پر عمل نہیں کیا تھا۔
حماس کے ترجمان نے امید ظاہر کی ہے کہ اسرائیل ان مطالبات پر مثبت ردعمل دے گا تاکہ کسی قابلِ عمل اور دیرپا امن معاہدے کی راہ ہموار ہوسکے۔
دوسری جانب سی این این کے مطابق امریکی حمایت یافتہ اور اسرائیل سے منظور شدہ ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے میں تجویز دی گئی تھی کہ حماس 10 اسرائیلی یرغمالیوں اور 18 ہلاک شدگان کی باقیات واپس کرے گا جس کے بدلے میں اسرائیل 125 عمر قید کی سزا پانے والے فلسطینیوں اور 1,111 غزہ کے دیگر باشندوں کو رہا کرے گا۔
جنگ بندی کے امریکی منصوبے کے تحت 60 روزہ جنگ بندی کے پہلے دن سے ہی مستقل جنگ بندی پر بات چیت کا آغاز ہو جائے گا جب کہ فوری طور پر انسانی امداد غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
یہ امداد اقوام متحدہ اور ریڈ کریسنٹ جیسے متفقہ ذرائع سے تقسیم کی جائے گی۔ تاہم اس مسودے میں کسی مستقل جنگ بندی کی ضمانت شامل نہیں جو کہ حماس کا بنیادی مطالبہ ہے۔
امریکی جنگ بندی کی تجویز میں جنگ بندی کے تسلسل کی کوئی واضح یقین دہانی بھی نہیں کرائی گئی ہے۔
اس کے بجائے کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ مخلصانہ مذاکرات جاری رہیں جب تک کوئی حتمی معاہدہ طے نہ پا جائے۔
حماس نے ابتدائی طور پر معاہدے کے ان شرائط پر ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کا امریکی فریم ورک غزہ کے عوام کی کسی بھی بنیادی مطالبے کو پورا نہیں کرتا۔
تاہم حماس نے ان تحفظات کے باوجود بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔