Express News:
2025-09-18@14:51:07 GMT

سولر پینلز پر ٹیکس کی تجویز

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

ہم وہ لوگ ہیں جو اندھیرے کے عادی تھے، سرشام گھروں میں دیے جلائے جاتے تھے۔ پھر زمانے نے ترقی کی، انگریزوں نے مٹی کے تیل کے کنستر لا لا کر بیچے اور ہم خریدتے چلے گئے۔ اس کے لیے انگلینڈ کی بنی ہوئی لالٹینیں خریدتے رہے۔ پھر بجلی آئی، ہر طرف اس کی طلب پیدا ہوئی، عالمی بینک نے بڑے دو ڈیم بنا کردیے، کہا جلد ہی تیسرا بنا لینا پھر چوتھا اور پانچواں۔ سستی بجلی پیدا ہوگی، عوام کو کسانوں کو سستی ملے گی، کارخانے والوں کو بھی سستی ترین بجلی ملے گی۔ ان کی مصنوعات کا دنیا بھر میں راج ہوگا، لیکن پھر ایسا تو نہ ہوا البتہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کا راج بڑھنے لگا اور بجلی مہنگی ہونے لگی۔ پھر لوڈ شیڈنگ بڑھنے لگی تو جنریٹرز کی گھڑ گھڑ سے جینا دوبھر ہونے لگا۔

اتنے میں دنیا نے ترقی کی ایک اور زقند بھری۔ سائنسدان سورج تک جا پہنچے، اپنا دکھڑا سنایا۔ سورج نے کہا مجھ سے روشنی مفت میں لے لو۔ اپنے اندھیروں کو خیرباد کہہ دو۔ سورج سے مفت بجلی لینے کا نام ’’ سولر انرجی سسٹم‘‘ رکھا گیا۔ یوں روشنی کی ایک نئی دنیا نے جنم لیا۔ جہاں کچھ چیزوں کے دام تھے لیکن سورج کی روشنی مفت اور عام تھی، اس کے ساتھ کئی پرزے بھی تھے۔

میری ناقص معلومات کے مطابق فوٹو وولٹیک سیل، ہائی برڈ انورٹرز، لیتھیم بیٹریز، مونو کرسٹیلائن پینلز وغیرہ۔ اب ان سب باتوں کو سورج سے روشنی لینے کے رازکی گرہیں بیرون ملک جدید ترقی یافتہ ممالک کھول رہے تھے۔ پاکستانی تاجر اس ضرورت کو محسوس کر رہے تھے، کیونکہ یہ سسٹم لوڈ شیڈنگ کے خلاف زبردست بغاوت تھی اور سورج کی طرف سے ایک پیغام تھا کہ اب واپڈا کے بلوں سے آزاد ہو جاؤ کیونکہ سورج تمہارا ہے، تمہارے ملک میں روز نکلتا ہے، خوب چمکتا ہے، روشنی بھی دیتا ہے، فصلیں بھی پکاتا ہے، آم بھی پکتے ہیں اور بہت کچھ۔

اب آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے کہ سولر انرجی پر ٹیکس لگایا جائے، اس کے درآمدی سامان پر ٹیکس لگایا جائے، یہ تاجر بیرون ملک جا کر وہ ٹیکنالوجی ساتھ لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم جدید دنیا کے ساتھ مل کر چل سکیں، کیا کیا ٹیکنالوجی آ رہی ہے، اسمارٹ انورٹرزکی۔ لیتھیم، فاسفیٹ کی، بی ایم ایس کی۔ مگر حکومتی پالیسی پرانی فائلوں میں گم ہے، سولر کے بیوپاری کنٹینرز منگواتے ہیں تو اس کے بعد کتنے جھمیلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بالآخر ان کو کہنا پڑتا ہے میں تو سورج کو لے آیا تھا۔ مگر سرکار کو اندھیروں سے کام ہے۔

میں ایسے تاجروں کی کہانی سن چکا ہوں جو بیرون ملک سولرکی منڈیوں میں جا کر وہاں کے سولر نمائش گاہوں میں جا کر کمپنی سے بھاؤ تاؤ کرتے ہیں، انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں غریب ہیں، غریب کسان ہیں، ان کے لیے سستا پیکیج بنا کردو، پاکستان میں سورج خوب چمکتا ہے اور یوں ایک تاجر جو دل کا مریض بھی ہے لیکن پاکستانیوں کو سستے سولرزکی فراہمی کے لیے جان کو ہتھیلی پر لیے دیار غیر میں پھرتا ہے کہ میں غریب کسانوں کے دامن سورج کی روشنی سے بھردوں، اور جب اس روشنی سے فائدہ اٹھانے والی ٹیکنالوجی کو ڈبوں میں بند کرکے کنٹینرز میں لاد کر لاتا ہے تو بندرگاہ پرکہا جاتا ہے کہ بھائی! روشنی مفت بانٹ رہے ہو تو پھر ٹیکس ادا کرو۔

اب اور زیادہ ٹیکس دینا ہوگا، پھر وہ کہتا ہے بھائی! یہ سولر پینلز ہیں جوکہ سورج کی مفت کرنوں کو روشنی میں بدلنے کا بنیادی آلہ ہے اور یہ انورٹر ہے، اور یہ بیٹری ہے دھوپ جمع کرنے کا ڈبہ، تاکہ راتیں روشن کی جا سکیں۔ اور یہ چارجر،کنٹرولر ہے، اب آئی ایم ایف کہتا ہے۔

ان سب پر ٹیکس لگا دو تاکہ سورج کی مفت روشنی مہنگی ہو کر رہ جائے۔ سولر پینلز بیچنے کے علاوہ صنعتی ملکوں سے خرید کر لانے والے تاجر نے تو یہ چاہا کہ میرا ملک اندھیرے سے نکلے، بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے آزاد ہو۔ اب ان کو پریشان کرنا، جرمانے بھی عائد ہوتے ہیں، ایک بزنس مین نے بتایا ۔ اب کیا کہوں کل کو شاعر پر بھی جرمانہ ہوگا کہ اپنی غزل میں چاند کی چاندنی اس کی ٹھنڈک کو کیوں مفت میں کھینچ لائے ہو۔ یہ صرف سولر پر ٹیکس نہیں، روشنی پر قدغن ہے۔ بجلی کی پیداوار میں خود کفالت کی منزل کو گم کرنا ہے۔

کراچی کی بندرگاہ سے لے کر گوانگژو میں سولر پینلز کمپنیوں کی نمائش گاہ تک دل تھام کر جانے والا دل کا مریض تاجر، مگر عوام کو اندھیروں سے نکالنے کے جذبے سے سرشار تھا۔ جب ہر بار ڈالر ریٹ بڑھتا اس کی سانسیں گھٹتی تھیں۔ اس نے سولر پینلز کے ہاتھوں عوام کو سورج کا یہ پیغام دیا۔ اندھیرے دور کردو، کیوں کہ یہ سورج تمہارا ہے۔ لیکن اب اس پر ٹیکس لگے گا۔ اب یہ مہنگا سسٹم کون خریدے گا، یہ تاجر جو دنیا کی منڈیوں سے سولر سسٹم خرید کر لایا تھا اب بجٹ نے اس پر اندھیرا سایہ ڈال دیا ہے۔ ہمیں بجلی کی ضرورت تھی، جدید ٹیکنالوجی نے سورج کی مفت روشنی سے اندھیرا دور کرنے کا ہنر سکھا دیا تھا لیکن اب ٹیکس اس پر رکاوٹیں ڈال دے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سولر پینلز سورج کی پر ٹیکس

پڑھیں:

اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری

اسلام آباد: حکومت نے اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری کر لی ۔ اس حوالے سے سینیٹر انوشہ رحمان نے “پاکستان اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956” میں ترمیم کا بل سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا ۔
نجی بل میں ایکٹ کی دفعہ 14 اور دفعہ 9 میں ترامیم کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ دوبارہ صدر مملکت مقرر کریں گے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ واضح رہے کہ 2022 میں یہ اختیار صدر سے لے کر اسٹیٹ بینک بورڈ کو دے دیا گیا تھا۔
بورڈ کی خودمختاری پر سوالات؟
سینیٹر انوشہ رحمان نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی تنخواہ بورڈ آف ڈائریکٹرز طے کرتا ہے، لیکن بورڈ کے چیئرمین خود گورنر ہی ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے شفافیت پر سوالات اٹھنا فطری ہیں۔”
انوشہ رحمان کا کہنا تھا کہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تنخواہ طے کرنے کا اختیار صدر مملکت کو واپس دیا جائے۔
بورڈ میں پارلیمنٹ کی نمائندگی کی تجویز
بل میں ایک اور اہم تجویز یہ دی گئی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایک سینیٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کو شامل کیا جائے تاکہ ادارے پر پارلیمانی نگرانی کو مؤثر بنایا جا سکے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • جلال پور پیروالا سے پانی نہ نکالا جاسکا، ایم فائیو موٹروے پر شگاف ڈالنے کی تجویز
  • جلال پور پیروالا میں سیلابی پانی کی کمی کے لیے ایم فائیو موٹروے پر شگاف ڈالنے کی تجویز
  • دریائے ستلج کا پانی دریائے چناب میں ڈالنے کیلئے ایم فائیو موٹروے پر شگاف ڈالنے کی تجویز
  • یورپی یونین کی اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات محدود کرنے اور وزرا پر پابندیوں کی تجویز
  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی، سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • کراچی میں آشوب چشم کی وبا پھیل گئی، مریضوں میں اضافہ
  • سیلاب متاثرین کی بحالی، کاروں، سگریٹ اور الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
  • اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری
  • اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار