Daily Ausaf:
2025-07-25@02:03:53 GMT

نیت نہیں، نتیجہ دیکھو

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی نے جہاں دنیا کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی چیلنجز بھی ابھرے ہیں۔ ان میں سے ایک سنگین مسئلہ گستاخانہ مواد کا پھیلائو ہے جو نہ صرف مذہبی جذبات کو مجروح کرتا ہے بلکہ نوجوانوں کو بھی قانونی اور سماجی مسائل میں مبتلا کر رہا ہے۔ اس کالم کا مقصد نوجوانوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرنا اور انہیں اس سے بچائو کے طریقوں سے روشناس کروانا ہے۔گستاخانہ مواد وہ مواد ہے جو کسی مذہب، مذہبی شخصیت یا عقیدہ کی توہین یا تذلیل کرتا ہے۔ یہ مواد مختلف شکلوں میں ہوسکتا ہےجیسے کہ تحریری مواد، تصاویر، ویڈیوز یا میمز وغیرہ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پراس قسم کے موادکا پھیلائو تیزی سے بڑھ رہا ہے جو نوجوانوں کے لیےایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ گزشتہ چاربرسوں میں 23 ملزمان کو سزائے موت سنائی جاچکی ہےاور 500 کے قریب کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس کے علاوہ، اس قسم کے مواد میں ملوث افراد کو سماجی سطح پر بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں پر اس قسم کے مقدمات کا نفسیاتی دبائو بھی ہوتا ہےجو ان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)نے گستاخانہ اور غیراخلاقی مواد پر 100,183 گستاخانہ یو آر ایل اور 844,008 فحش ویب سائٹس بلاک کی ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت نےسوشل میڈیا پلیٹ فارمزسےبھی گستاخانہ مواد ہٹانے کےلیے دبائو ڈالا ہے۔ حالیہ برسوں میں،وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کی سائبر کرائم ونگ نے 400,000 سے زائد سوشل میڈیا اکائونٹس کو گستاخانہ مواد پھیلانے کے الزام میں بے نقاب کیا ہے جن میں سے 160 افراد طلباء یافارغ التحصیل ہیں۔ ان میں سے 140 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سے 11کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھی گستاخانہ مواد ہٹانے کے لئے دبائو ڈالا ہے۔
نوجوانوں کے لیےاس مسئلے سے بچائو کے لئے چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ سب سے پہلے، انہیں مواد کی تصدیق کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ کسی بھی مواد کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی حقیقت اورماخذ کی تصدیق کریں۔ اس کے علاوہ، انہیں قانونی آگاہی حاصل کرنی چاہیےتاکہ وہ انٹرنیٹ پر موجود قوانین سے آگاہ رہیں اور غیر ارادی طور پر کسی جرم کاارتکاب نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ، انہیں مثبت موادکو فروغ دیناچاہیے اور سوشل میڈیا پر مثبت اور تعمیری مواد شیئر کرنا چاہیے جو معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دے۔ گزشتہ دہائی میں جہاں ڈیجیٹل دنیا نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے وہیں اس تیز رفتار ترسیل اور آزاد اظہارِ رائے نے کئی سماجی، مذہبی اور اخلاقی پہلوئوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انٹرنیٹ، خصوصاً سوشل میڈیا، ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں ہر قسم کی معلومات چاہے وہ درست ہوں یا گمراہ کن چند لمحوں میں دنیا کے کسی بھی کونے تک پہنچ جاتی ہیں۔ اکثر نوجوان لاعلمی، جذباتیت یا محض ’’وائرل‘‘مواد شیئر کرنے کی خواہش میں وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس کے نتائج ان کی زندگی کو برباد کر سکتے ہیں۔ وہ جانے انجانے میں ایسے ویڈیوز، تصاویر، تبصرے یا پوسٹس شیئر کر دیتے ہیں جنہیں پاکستان کے آئین، مذہبی اقدار اور سماجی روایتیں توہین سمجھتے ہیں۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان میں توہینِ مذہب ایک نہایت حساس موضوع ہے۔ آئینی اور قانونی طور پر اس پر سخت ترین سزائیں موجود ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295، 295-A، 295-B اور 295-C کے تحت ایسے جرائم پر عمر قید، سزائے موت یا جرمانے جیسے سخت نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ ان دفعات کا اطلاق صرف مذہبِ اسلام پر ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے احترام پر ہوتا ہے لیکن عملی طور پر زیادہ تر کیسز اسلام کے مقدس شعائر سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالتیں جب ایسے مقدمات کی سماعت کرتی ہیں تو وہ قانون کے ہر پہلو پر باریک بینی سے غور کرتی ہیں، لیکن عوامی ردِ عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ کئی بار مقدمہ چلنے سے پہلے ہی فیصلے سڑکوں پر ہو جاتے ہیں۔نوجوانوں کے لئے اس ماحول میں ایک باخبر، ذمہ دار اور محتاط شہری بننا نہایت ضروری ہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈیجیٹل دنیا کی ہر ’’شیئر‘‘اور ہر ’’لائیک‘‘صرف ایک بٹن دبانے کا عمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے نتائج کی ایک پوری دنیا ہے۔ اگر کوئی نوجوان کسی بھی توہین آمیز ویڈیو کو بغیر سوچے سمجھے صرف ’’دلچسپی‘‘ یا’’مزاح‘‘کے جذبے سے شیئر کرتا ہے تو وہ قانونی طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ایسے درجنوں کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں نوجوانوں نے لاعلمی میں گستاخانہ پوسٹس شیئر کیں اور بعدازاں نہ صرف ان کی گرفتاری ہوئی بلکہ ان کی زندگی کے کئی قیمتی سال جیل میں گزرے۔ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق، گستاخانہ مواد سے متعلق تقریبا چارلاکھ سوشل میڈیا اکائونٹس کی نگرانی کی گئی، جن میں سینکڑوں نوجوانوں کو شامل تفتیش کیا گیا۔ ان میں سے کئی طالبعلم تھے جو نہایت ذہین اور باصلاحیت تھے، لیکن صرف ایک غلطی ان کے مستقبل کو داغدار کر گئی۔ ایسے واقعات نہ صرف انفرادی سانحہ ہوتے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں خوف، تشویش اور مذہبی عدم برداشت کو جنم دیتے ہیں۔یہاں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں، ان سے کھل کر بات کریں، انہیں بتائیں کہ آزادی اظہار رائے اور مذہبی اقدار کے درمیان ایک نازک توازن ہوتا ہے۔ محض اظہارِ رائے کے نام پر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔ تعلیمی ادارے خاص طور پر اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہاں اس موضوع پر لیکچرز، سیمینارز، ورکشاپس اور مباحثے ہونے چاہئیں، تاکہ طلبہ و طالبات کو یہ شعور دیا جا سکے کہ ڈیجیٹل دنیا میں ہر قدم سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت اٹھانا ضروری ہے۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے موثر روابط قائم رکھے تاکہ گستاخانہ مواد کے خلاف فوری کارروائی ممکن ہو۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ایسے مواد کو ہٹایا ہے، لیکن یہ عمل تیز اور مربوط ہونا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی صرف سزا دینے کے بجائے آگاہی، تربیت اور بحالی پر توجہ دینی چاہیے۔ نوجوانوں کو صرف مجرم کے طور پر نہیں بلکہ اصلاح کے قابل شہری کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز گستاخانہ مواد نوجوانوں کو اس کے علاوہ ہیں بلکہ ہوتا ہے کے ساتھ کرتا ہے

پڑھیں:

سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد اسمبلی میں جمع

پنجاب کے سکولوں میں طلبا کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی کی قرارداد اسمبلی میں جمع کرادی گئی ۔ مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی راحیلہ خادم حسین نے قرارداد جمع کرائی۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور ان کی ذہنی و سماجی تربیت کی اولین ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، موجودہ دور میں موبائل اور سوشل میڈیا کی بدولت بچوں کے ذہن اور اخلاقی اقدار بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس سماجی مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنےکا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
متن میں لکھا گیا ہے کہ پہلے قدم کے طورپر یہ ایوان تجویز کرتا ہے کہ تمام سکولز میں طلبا کے موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے اور بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے بارے میں قانون سازی کی جائے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • سوشل میڈیا اور ہم
  • 16 سال سے کم عمر بچوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنایا تو کتنی سزا ہوگی؟
  • کون ہارا کون جیتا
  • ڈرامہ "گونج" میں کومل میر کی ظاہری تبدیلی اور اداکاری سوشل میڈیا پر زیر بحث
  • بونی کپور کے وزن میں حیرت انگیز تبدیلی، مداح دنگ رہ گئے
  • کومل میر کی کاسمیٹک سرجری سے متعلق سوشل میڈیا پر تبصرے
  • اجے دیوگن کی اسٹیڈیم میں شاہد آفریدی سے ملاقات، بھارت میں ہنگامہ مچ گیا
  • نیپوکڈز کی دائی جان! کرن جوہر سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں
  • سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد اسمبلی میں جمع
  • علیزے شاہ کا تہلکہ خیز انکشاف: "میرا گرنا ایک حادثہ نہیں تھا، مجھے جان بوجھ کر دھکا دیا گیا"