Daily Ausaf:
2025-06-01@20:03:32 GMT

نیت نہیں، نتیجہ دیکھو

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی نے جہاں دنیا کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی چیلنجز بھی ابھرے ہیں۔ ان میں سے ایک سنگین مسئلہ گستاخانہ مواد کا پھیلائو ہے جو نہ صرف مذہبی جذبات کو مجروح کرتا ہے بلکہ نوجوانوں کو بھی قانونی اور سماجی مسائل میں مبتلا کر رہا ہے۔ اس کالم کا مقصد نوجوانوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرنا اور انہیں اس سے بچائو کے طریقوں سے روشناس کروانا ہے۔گستاخانہ مواد وہ مواد ہے جو کسی مذہب، مذہبی شخصیت یا عقیدہ کی توہین یا تذلیل کرتا ہے۔ یہ مواد مختلف شکلوں میں ہوسکتا ہےجیسے کہ تحریری مواد، تصاویر، ویڈیوز یا میمز وغیرہ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پراس قسم کے موادکا پھیلائو تیزی سے بڑھ رہا ہے جو نوجوانوں کے لیےایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ گزشتہ چاربرسوں میں 23 ملزمان کو سزائے موت سنائی جاچکی ہےاور 500 کے قریب کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس کے علاوہ، اس قسم کے مواد میں ملوث افراد کو سماجی سطح پر بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں پر اس قسم کے مقدمات کا نفسیاتی دبائو بھی ہوتا ہےجو ان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)نے گستاخانہ اور غیراخلاقی مواد پر 100,183 گستاخانہ یو آر ایل اور 844,008 فحش ویب سائٹس بلاک کی ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت نےسوشل میڈیا پلیٹ فارمزسےبھی گستاخانہ مواد ہٹانے کےلیے دبائو ڈالا ہے۔ حالیہ برسوں میں،وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کی سائبر کرائم ونگ نے 400,000 سے زائد سوشل میڈیا اکائونٹس کو گستاخانہ مواد پھیلانے کے الزام میں بے نقاب کیا ہے جن میں سے 160 افراد طلباء یافارغ التحصیل ہیں۔ ان میں سے 140 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سے 11کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھی گستاخانہ مواد ہٹانے کے لئے دبائو ڈالا ہے۔
نوجوانوں کے لیےاس مسئلے سے بچائو کے لئے چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ سب سے پہلے، انہیں مواد کی تصدیق کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ کسی بھی مواد کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی حقیقت اورماخذ کی تصدیق کریں۔ اس کے علاوہ، انہیں قانونی آگاہی حاصل کرنی چاہیےتاکہ وہ انٹرنیٹ پر موجود قوانین سے آگاہ رہیں اور غیر ارادی طور پر کسی جرم کاارتکاب نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ، انہیں مثبت موادکو فروغ دیناچاہیے اور سوشل میڈیا پر مثبت اور تعمیری مواد شیئر کرنا چاہیے جو معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دے۔ گزشتہ دہائی میں جہاں ڈیجیٹل دنیا نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے وہیں اس تیز رفتار ترسیل اور آزاد اظہارِ رائے نے کئی سماجی، مذہبی اور اخلاقی پہلوئوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انٹرنیٹ، خصوصاً سوشل میڈیا، ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں ہر قسم کی معلومات چاہے وہ درست ہوں یا گمراہ کن چند لمحوں میں دنیا کے کسی بھی کونے تک پہنچ جاتی ہیں۔ اکثر نوجوان لاعلمی، جذباتیت یا محض ’’وائرل‘‘مواد شیئر کرنے کی خواہش میں وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس کے نتائج ان کی زندگی کو برباد کر سکتے ہیں۔ وہ جانے انجانے میں ایسے ویڈیوز، تصاویر، تبصرے یا پوسٹس شیئر کر دیتے ہیں جنہیں پاکستان کے آئین، مذہبی اقدار اور سماجی روایتیں توہین سمجھتے ہیں۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان میں توہینِ مذہب ایک نہایت حساس موضوع ہے۔ آئینی اور قانونی طور پر اس پر سخت ترین سزائیں موجود ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295، 295-A، 295-B اور 295-C کے تحت ایسے جرائم پر عمر قید، سزائے موت یا جرمانے جیسے سخت نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ ان دفعات کا اطلاق صرف مذہبِ اسلام پر ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے احترام پر ہوتا ہے لیکن عملی طور پر زیادہ تر کیسز اسلام کے مقدس شعائر سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالتیں جب ایسے مقدمات کی سماعت کرتی ہیں تو وہ قانون کے ہر پہلو پر باریک بینی سے غور کرتی ہیں، لیکن عوامی ردِ عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ کئی بار مقدمہ چلنے سے پہلے ہی فیصلے سڑکوں پر ہو جاتے ہیں۔نوجوانوں کے لئے اس ماحول میں ایک باخبر، ذمہ دار اور محتاط شہری بننا نہایت ضروری ہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈیجیٹل دنیا کی ہر ’’شیئر‘‘اور ہر ’’لائیک‘‘صرف ایک بٹن دبانے کا عمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے نتائج کی ایک پوری دنیا ہے۔ اگر کوئی نوجوان کسی بھی توہین آمیز ویڈیو کو بغیر سوچے سمجھے صرف ’’دلچسپی‘‘ یا’’مزاح‘‘کے جذبے سے شیئر کرتا ہے تو وہ قانونی طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ایسے درجنوں کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں نوجوانوں نے لاعلمی میں گستاخانہ پوسٹس شیئر کیں اور بعدازاں نہ صرف ان کی گرفتاری ہوئی بلکہ ان کی زندگی کے کئی قیمتی سال جیل میں گزرے۔ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق، گستاخانہ مواد سے متعلق تقریبا چارلاکھ سوشل میڈیا اکائونٹس کی نگرانی کی گئی، جن میں سینکڑوں نوجوانوں کو شامل تفتیش کیا گیا۔ ان میں سے کئی طالبعلم تھے جو نہایت ذہین اور باصلاحیت تھے، لیکن صرف ایک غلطی ان کے مستقبل کو داغدار کر گئی۔ ایسے واقعات نہ صرف انفرادی سانحہ ہوتے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں خوف، تشویش اور مذہبی عدم برداشت کو جنم دیتے ہیں۔یہاں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں، ان سے کھل کر بات کریں، انہیں بتائیں کہ آزادی اظہار رائے اور مذہبی اقدار کے درمیان ایک نازک توازن ہوتا ہے۔ محض اظہارِ رائے کے نام پر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔ تعلیمی ادارے خاص طور پر اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہاں اس موضوع پر لیکچرز، سیمینارز، ورکشاپس اور مباحثے ہونے چاہئیں، تاکہ طلبہ و طالبات کو یہ شعور دیا جا سکے کہ ڈیجیٹل دنیا میں ہر قدم سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت اٹھانا ضروری ہے۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے موثر روابط قائم رکھے تاکہ گستاخانہ مواد کے خلاف فوری کارروائی ممکن ہو۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ایسے مواد کو ہٹایا ہے، لیکن یہ عمل تیز اور مربوط ہونا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی صرف سزا دینے کے بجائے آگاہی، تربیت اور بحالی پر توجہ دینی چاہیے۔ نوجوانوں کو صرف مجرم کے طور پر نہیں بلکہ اصلاح کے قابل شہری کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز گستاخانہ مواد نوجوانوں کو اس کے علاوہ ہیں بلکہ ہوتا ہے کے ساتھ کرتا ہے

پڑھیں:

میلی آنکھ سے دیکھو گے تو آنکھیں نکال لیں گے، گورنر سندھ کا بھارت کو منہ توڑ پیغام

کراچی:

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے سعود آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قوم، دین، اور خود انحصاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں اجتماعی طور پر خود احتسابی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں بیٹھا ہر شخص یہ ضرور سوچے کہ جس سچے نبی ﷺ کے ہم امتی ہیں، کیا ہم خود بھی اتنے سچے ہیں؟

انہوں نے معروف اسلامی اسکالر پیر حسان کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے کلمات سے ہمیں سیکھنے اور اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

گورنر سندھ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہم اس لیے پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ ہم نے قرآن مجید پر عمل نہیں کیا۔ ہمیں اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کہ اللہ نے ہمیں خاتم النبیین ﷺ کی امت بنایا۔

مزید پڑھیں: بھارتی مظالم سے کشمیری مسلمان دن رات شہید ہو رہے ہیں، گورنر سندھ

انہوں نے مسلم امہ پر ہونے والے مظالم بالخصوص کشمیر اور فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج سوال یہ ہے کہ مسلمان کہاں ہیں؟

خطاب میں گورنر سندھ نے فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں صرف دعوے کیے جاتے تھے کہ گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی بنائیں گے، لیکن الحمدللہ آج وہاں 50 ہزار نوجوان آئی ٹی کورسز کر رہے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان کورسز کے لیے حکومت سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا گیا۔

گورنر سندھ نے نوجوانوں کو تلقین کرتے ہوئے کہا کہ بڑا انسان بڑی سوچ سے بنتا ہے۔ اگر تم خود کو بدلنا چاہتے ہو تو خود سے آگے بڑھنا ہوگا، کوئی دوسرا آکر تمہاری زندگی نہیں بدلے گا۔ انہوں نے کہا کہ دوسروں کی غیبت اور رکاوٹ بننے والا کبھی بڑا انسان نہیں بن سکتا۔

مزید پڑھیں: آج ہمارے پاسپورٹ کی ویلیو میں اضافہ ہوگیا ہے، گورنر سندھ

10 مئی کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے گورنر سندھ نے کہا کہ پاکستان کے سپہ سالار نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ یہ ملک کلمے کے نام پر بنا ہے، انہوں نے کہا کہ پاک فوج اور ایئر فورس نے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی غیرت مند قوم ہیں۔ کراچی والے اپنے خون کا نذرانہ دینے سے دریغ نہیں کریں گے، ملک کی طرف جو میلی آنکھ سے دیکھے گا، اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔

اختتام پر گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کراچی کے شہریوں کو صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ گٹکا کھانا چھوڑ دو، اپنی صحت کا خیال رکھو۔ صبح اٹھو، ورزش کرو، پانچ وقت کی نماز پڑھو اور یہ سوچو کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ریحام رفیق کی پرانی ڈانس ویڈیو وائرل، سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا
  • کیرالہ کمیونٹی کے ایونٹ میں شاہد آفریدی اور عمر گل مدعو، بھارتیوں کو آگ لگ گئی
  • سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں اور منفی خبروں کا تدارک کریں، کور کمانڈرز
  • فیصل قریشی کی اہلیہ اپنی کسی حرکت پر سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں
  • مدینہ منورہ ایئرپورٹ پر سعودی امیگریشن حکام کی جانب سے عازمینِ حج کا شاندار استقبال،’’پاکستان زندہ باد‘‘کے نعرے، ویڈیو وائرل
  • مناہل ملک کے ’لال پری‘ گانےپر ڈانس کی سوشل میڈیا پر دھوم
  • پیپلزپارٹی کارکنان گتھم گتھا ، تھپڑ جڑ دیا ، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
  • سوشل میڈیا کی کمائی پر ٹیکس کی خبریں، یوٹیوبرز اور فری لانسرز کیا کہتے ہیں؟
  • میلی آنکھ سے دیکھو گے تو آنکھیں نکال لیں گے، گورنر سندھ کا بھارت کو منہ توڑ پیغام