’بائیڈن وائٹ ہاؤس کی اپنی الماری میں ہی کھو جاتے تھے‘، گارڈ کے سابق صدر کی ذہنی حالت پر انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
سابق امریکی صدر جو بائیڈن طبی حالت کے باعث اکثر خبروں میں رہا کرتے تھے، حال ہی میں ان میں پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر سامنے آئی تھی۔
اب ان کے بارے میں ایک اور حیران کن دعویٰ سامنے آیا ہے جسے جان کر لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی سینیٹر جوش ہاؤلی نے سابق صدر جو بائیڈن کے حوالے سے ایک سنسنی خیز اور حیران کن دعویٰ کیا ہے۔ فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ریپبلکن سینیٹر نے کہا کہ ایک نامعلوم سیکرٹ سروس ایجنٹ نے انہیں بتایا کہ بائیڈن اپنی صدارت کے دوران بعض اوقات وائٹ ہاؤس میں صبح کے وقت اپنی ہی الماری میں گم ہو جایا کرتے تھے۔
امریکی سینیٹر جوش ہاؤلی نے کہا کہ ایک سیکرٹ سروس اہلکار نے مجھے بتایا کہ بائیڈن وائٹ ہاؤس کے رہائشی حصے میں صبح کے وقت اپنی الماری کے اندر گم ہو جاتے تھے۔ یعنی امریکہ کا صدر اپنے ہی کمرے میں راستہ تلاش نہیں کر پاتا تھا۔ یہ ناقابل یقین بات ہے اور ہمیں دھوکہ دیا گیا ہے۔
یہ دعویٰ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کانگریس میں جو بائیڈن کی ذہنی صحت اور صدارت کے دوران ان کی انتظامی اختیارات کے استعمال پر تحقیقات جاری ہیں۔ بائیڈن کے قریبی مشیروں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق صدر اہم فیصلے لینے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔
ان تحقیقات کی قیادت ہاؤس اوور سائٹ کمیٹی کے چیئرمین جیمز کومر کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانچ رہے ہیں کہ آیا بائیڈن کے عملے نے سرکاری احکامات، حتیٰ کہ صدارتی معافیاں دینے کے لیے، بغیر بائیڈن کی براہ راست منظوری کے آٹو پین (autopen) کا استعمال کیا۔
جیمز کومر نے بائیڈن کے دور صدارت میں وائٹ ہاؤس کے معالج ڈاکٹر کیون اوکونر کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا ڈاکٹر اوکونر کی طرف سے بائیڈن کی طبی رپورٹس میں مکمل شفافیت برتی گئی یا کچھ اہم معلومات کو چھپایا گیا۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں 82 سالہ بائیڈن نے انکشاف کیا کہ وہ ایک جارحانہ قسم کے پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا ہیں، جس نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بائیڈن کے وائٹ ہاؤس
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔