بلوچستان کے زرعی شعبے میں سولرائزیشن اور بجلی چوری کی روک تھام سے متعلق بل پر سفارشات منظور
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
زابد علی ریکی کی زیر صدارت بلوچستان اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں زرعی سولرائزیشن اور بجلی چوری کی روک تھام سے متعلق بل، 2025 پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔
زیر غور بل کا مقصد زرعی صارفین کو سبسڈی والی بجلی سے مرحلہ وار سولر توانائی پر منتقل کرنا ہے تاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین طے شدہ سولرائزیشن معاہدوں پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
اس بل کے ذریعے زرعی صارفین کو دوبارہ غیر قانونی طور پر بجلی کے روایتی نظام سے منسلک ہونے سے روکنے، بجلی چوری کے خاتمے اور اس عمل کو قابل سزا جرم قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزیر زراعت کس بات پر آمنے سامنے آگئے؟
بل میں ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جو سولر نظام کی مؤثر تنفیذ اور توانائی کے شعبے میں شفافیت کے لیے ضروری ہیں۔
اجلاس کے دوران کمیٹی اراکین نے بل کی شقوں پر تفصیلی غور کیا اور اپنی سفارشات پیش کیں، اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ قانون صوبے میں توانائی کی پائیداری، سبسڈی کے بوجھ میں کمی اور بجلی کے غیر قانونی استعمال کی روک تھام کے لیے انتہائی اہم ہے۔
قائمہ کمیٹی کی سفارشات کو شامل کرنے کے بعد بل کو منظوری کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کا فیصلہ
اجلاس میں کمیٹی کے اراکین جناب میر اصغر رند، جناب فضل قادر مندوخیل، فرح عظیم شاہ اور اُم کلثوم نے شرکت کی۔ اس موقع پر سیکریٹری بلوچستان اسمبلی جناب طاہر شاہ کاکڑ، سیکریٹری توانائی جناب داؤد خان بازئی، اسپیشل سیکریٹری اسمبلی عبدالرحمٰن اور ایڈیشنل سیکریٹری قانون جناب سعید اقبال بھی موجود تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بجلی چوری بلوچستان پائیداری توانائی زرعی سولرائزیشن سبسڈی قائمہ کمیٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بجلی چوری بلوچستان پائیداری توانائی زرعی سولرائزیشن سبسڈی قائمہ کمیٹی بجلی چوری کے لیے
پڑھیں:
قائمہ کمیٹی اجلاس میں محکمہ موسمیات کی پیشگوئی سے متعلق سوالات
پیپلز پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) محکمہ موسمیات سے ادارے کی بارش سے متعلقہ پیشگوئی پر سوالات پوچھ لیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس ہوا، جس میں ڈی جی محکمہ موسمیات نے شرکاء کو بریفنگ دی۔
اس موقع پر پی پی پی کے منور علی تالپور نے کہا ہے کہ ایک بار محکمہ موسمیات نے 4 دن کی بارش بتائی، ایک قطرہ بھی برسات نہیں ہوئی۔
پی پی پی شازیہ مری نے کہا کہ محکمہ موسمیات جس دن بارش بتاتا ہے اس دن بارش نہیں ہوتی، جس دن محکمہ موسمیات کہتا ہے آج بارش نہیں ہوگی اس دن ہوجاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم بارش کا سن کر چھتری لے کر نکلتے ہیں تو بارش ہی نہیں ہوتی، بتایا جائے کہ محکمہ موسمیات کا بجٹ کتنا ہے اور ملازمین کتنے ہیں۔
ڈی جی محکمہ موسمیات نے بتایا کہ ہمارے ملک بھر میں 120 سینٹرز ہیں، جہاں سے ہر گھنٹے ڈیٹا آتا ہے، میٹ ڈپارٹمنٹ کا بجٹ 4 ارب اور ملازمین کی تعداد 2 ہزار 430 ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کہا گیا تھا کہ سندھ کو سپر فلڈ ہٹ کرے گا، ہم نے پہلے دن سے کہا تھا سندھ کو سپر فلڈ ہٹ نہیں کرے گا، ہماری اتنی محنت کے باوجود ہمارا نام نہیں لیا جاتا۔
ڈی جی محکمہ موسمیات نے مزید کہا کہ اپریل کے آخر میں مون سون سے متاثرہ 10ممالک کا اجلاس ہوا، جنوبی ایشیا کلائمنٹ فورم میں بھی خطے کی معلومات شیئر ہوئی تھیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مئی کے درجہ حرارت کی بنیاد پر کئی گئی فورکاسٹ میں پاکستان اور بھارت میں معمول سے زیادہ بارشیں تھیں، 29 مئی کو زیادہ بارشوں سےمتعلق بتادیا تھا، اس دفعہ محکمہ موسمیات کی بات سنی ہی نہیں گئی۔
فیڈرل فلڈ کمشنر نے بتایا کہ 22 جولائی کو کراچی میں 1 گھنٹے میں 160 ملی میٹر بارش ہوئی، اسلام آباد میں 22 جولائی کو 184 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
اس پر شازیہ مری نے سوال اٹھایا کہ کیا ماضی میں بھی اسلام آباد میں اتنی بارش ہوئی جتنی اس بار ہوئی؟
ڈی جی محکمہ موسمیات نے جواب دیا کہ جولائی2001ء میں یہاں 600 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سب اداروں کو بتا دیا تھا کہ تیز بارشیں آئیں گی، ہم نے یہ بھی بتایا تھا کہ ملک میں سیلاب آئیں گے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ہم کسی دن محکمہ موسمیات چلے جاتے ہیں، سسٹم کا جائزہ لے لیتے ہیں، دیکھیں گے محکمہ موسمیات کی پیشگوئیاں کیوں نہیں درست ہوتیں، یہ بھی دیکھیں گے کہ محکمہ موسمیات کے پاس ٹیکنالوجی کونسی ہے۔