سروس ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم، سب انسپکٹر ملازمت پر بحال
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ نے پنجاب سروس ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے سب انسپکٹر کو ملازمت پر بحال کردیا۔ ٹریبونل نے سب انسپکٹر کی اپیل کو جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے اسکی سزا کم کرکے تنخواہ میں تنزلی کا حکم دیا تھا جسے عدالت عظمیٰ نے غیرآئینی قرار دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے فیصلے میں قرار دیا کہ ٹریبونل کے مطابق پراسیکیوشن الزامات ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا، اس کے باوجود ٹریبونل نے درخواست گزار کو بری کرنے کے بجائے صرف سزا کو کم کرنے کا انتخاب کیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ جن مقدمات میں سزا کی بنیاد مکمل طور پر بے بنیاد ہو وہاں ٹریبونل کا کردار رحم یا مصالحت کی مشق کرنا نہیں۔ ایک بار جب ٹریبونل نے طے کرلیا کہ الزامات بے بنیاد ہیں، تو واحد قانونی راستہ درخواست گزار کو بری کرنا تھا۔
مس کنڈکٹ ثابت کیے بغیر کوئی بھی سزا فطری انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور اس سے واضح طور پر ناانصافی ہوتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ کسی بھی مقدمے میں دی گئی سزا کی جرم سے مطابقت ہونی چاہیے اور اس اصول کو انتہائی احتیاط اور مکمل سیاق و سباق کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہیے خاص طور پر جب بنیادی حقوق اور انسانی وقار خطرے میں ہوں۔
اس عدالت نے حال ہی میں انتظامی اور ڈسپلنری فیصلوں کی قانونی حیثیت جانچنے کے لیے چار مرحلوں پر مشتمل ایک معیار کو اپنایا ہیجو یقینی بناتا ہے کہ حقوق میں مداخلت جائز، ضروری اور قانونی ہو۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ٹریبونل کے اپنے نتائج اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ درخواست گزار کا مبینہ مس کنڈکٹ ثابت کرنے کے لیے کوئی معتبر ثبوت موجود تھا نہ ہی کوئی باقاعدہ انکوائری نہیں کی گئی۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی سزا چاہے کتنی ہی معمولی ہو وہ غیر متناسب ہے جبکہ ثبوت کی عدم موجودگی کسی بھی سزا کے قانونی جواز کو ختم کر دیتی ہے۔
مزید برآں، آئین کے آرٹیکلز 4، 14 اور 25، جو قانون کے مطابق سلوک، انسانی وقار اور قانون کے سامنے برابری کے حق کی ضمانت دیتے ہیں، تمام فورمز بشمول ٹریبونلز، سے تقاضا کرتے ہیں کہ تادیبی اقدامات نہ صرف قانونی ہوں بلکہ منصفانہ اور عادلانہ بھی ہوں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حکومت کا کوئی فورم ہونا چاہیے جو برطرف ملازمین کے کیسز کا فیصلہ کرے: جسٹس محمد علی مظہر
---فائل فوٹوسپریم کورٹ کراچی کی رجسٹری میں قومی ایئرلائن کے ملازم کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کا کوئی فورم ہونا چاہیے جو برطرف ملازمین کے کیسز کا فیصلہ کرے۔
سپریم کورٹ کراچی کی رجسٹری میں قومی ایئرلائن کے ملازم کی برطرفی کے خلاف درخواست پر جسٹس محمد علی مظہر نے سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ قومی ایئرلائن انتظامیہ نے ملازم ندیم لودھی کو 2015ء میں برطرف کیا تھا، سندھ ہائی کورٹ نے برطرفی کے خلاف درخواست مسترد کی تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سرکاری اور نجی اداروں سے ملازمین کی برطرفیوں کا فورم نہ ہونے ہر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اور پی آئی اے سمیت دیگر کو نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چاہتے ہیں اس طرح کے کیسز میں آپ معاونت کریں، ہم سارے کیسز کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو بھی لکھ چکا ہوں کہ اس معاملے کو دیکھیں، ، سرکاری سمیت دیگر اداروں میں ملازمین کو نکال دیا جاتا ہے، ملازمین سول سوٹ دائر کرتے ہیں جو 20، 20 سال تک چلتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیسز کی پیروی کرتے ہوئے ملازمین مرجاتے ہیں، جن اداروں میں سروس کے قواعد نہیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑتا۔