کراچی میں ملیر جیل سے فرار متعدد قیدی دوبارہ گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جون 2025ء) پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق کراچی پولیس اور صوبائی حکام نے بتایا کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب ملیر جیل سے 100 سے زائد قیدی 'زلزلے کے باعث کمزور ہونے والی‘ دیوار توڑ کر فرار ہو گئے، جن میں سے 76 کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا جبکہ دیگر کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پاکستانی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد میں اضافہ کیوں؟
ایس ایس پی ملیر نے بتایا کہ ملیر ڈسٹرکٹ جیل سے 500 سے 600 قیدیوں نے فرار ہونے کی کوشش کی۔
ایس ایس پی نے کہا کہ 100 سے زیادہ قیدی فرار ہو گئے، اور ان میں سے 73 کو دوبارہ پکڑ لیا گیا اور دیگر فرار ہونے والوں کی تلاش جاری ہے۔ پولیس نے نو مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لے لیا۔(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ قیدیوں نے پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا اور فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے دوران ایک قیدی ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کے تبادلے میں تین ایف سی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
جیل کے قریب فائرنگ سے علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔ پولیس اور رینجرز نے اطراف کے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا۔ کراچی میں ہائی الرٹپولیس حکام کے مطابق کراچی میں پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے اور شہر بھر میں گشت بڑھا دیا گیا ہے۔
سندھ کے وزیر جیل خانہ جات علی حسن نے جیل سے قیدیوں کے فرار ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی جیل خانہ جات اور ڈی آئی جی جیل خانہ جات سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
اڈیالہ جیل پر ناکام حملے کی خبروں کے بعد انکوائری کا مطالبہ
وزیر جیل خانہ جات نے کہا کہ فرار ہونے والے قیدیوں کو ہر صورت پکڑا جائے اور واقعے میں غفلت برتنے والے اہلکاروں کی نشاندہی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ناکہ بندی، جاسوسی، نگرانی اور انٹیلیجنس کے ذریعے تمام اقدامات کو کامیاب بنایا جائے گا اور تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ قیدیوں کے مکمل کوائف موجود ہیں اور کوئی خطرناک یا دہشت گرد قیدی فرار نہیں ہوا۔
ہم اس بارے میں کیا جانتے ہیں؟کراچی میں گذشتہ 48 گھنٹوں میں 11 بار زلزلے محسوس کیے گئے۔ زلزلوں کے بعد قیدیوں کو حفاظتی طور پر بیرکوں سے باہر منتقل کیا گیا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیدیوں نے دیوار کو دھکا دے کر توڑ دیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پاکستان: جیلوں میں بند سینکڑوں افراد کے خاندانوں کی صعوبتیں
ابتدائی تحقیقات کے مطابق ملیر جیل کی دیوار حالیہ زلزلوں کے جھٹکوں کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھی۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جیل خانہ جات حسن سہتو نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اس وقت جیل میں تقریباً چھ ہزار قیدی موجود ہیں۔ 'زلزلے کے بعد قیدیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا اور انہوں نے نہ صرف دیوار توڑی بلکہ تالے بھی توڑنے کی کوشش کی۔
'ہزاروں ڈالر کمانے والے کراچی جیل کے ہنرمند قیدی
حکام نے بتایا کہ نیشنل ہائی وے کے دونوں اطراف کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ رینجرز اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر فرار ہونے والے قیدیوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر اور باہر سکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے تاکہ مزید کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
ج ا ⁄ ص ز (خبر رساں ادارے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جیل خانہ جات نے بتایا کہ دیا گیا ہے فرار ہونے کراچی میں انہوں نے فرار ہو کر دیا جیل سے ہو گئے
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر اسرائیلی تشدد؛ ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا آفیسر کو حراست میں لے لیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انھوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔
میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی نے فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی اور اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ بھی دیدیا تھا۔
یہ ویڈیو اسرائیل کے سدے تیمن کے فوجی حراستی مرکز کی تھی جس میں اہلکاروں کو چند قیدیوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو میڈیا کو فراہم کی گئی تھی۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو گزشتہ رات مستعفی ہونے والی تومر یروشلمی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
عدالت میں پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو پہلے سے علم تھا کہ ویڈیو لیک کرنے میں ملٹری لا آفیسر تومر یروشلمی ملوث ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔
جس پر چیف پراسیکیوٹر سولوموش کے وکیل ناتی سمخونی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو اس بات کا علم اپنا بیان جمع کرانے کے کافی بعد میں ہوا تھا۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سولوموش اُس ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے جو تومر یروشلمی نے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے لیے بنائی تھی جس میں بریگیڈیئر جنرل گل اسائل اور ڈپٹی اسٹیٹ پراسیکیوٹر آلون آلٹمین شامل تھے۔
اُن کے بقول اس ٹیم نے 25 ستمبر کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں ویڈیو لیک سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں تومر یروشلمی کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت سولوموش اپنی مدتِ ملازمت مکمل کر کے عہدے سے جا چکے تھے۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر سولوموش کو رہا کیا گیا تو وہ جاری تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے ان کی حراست بدھ دوپہر تک بڑھا دی۔
اسی طرح، پولیس نے تومر یروشلمی کی حراست میں پانچ دن کی توسیع کی درخواست کی تھی، تاہم تل ابیب مجسٹریٹ کورٹ کی جج شیلی کوٹین نے اسے تین دن تک محدود کر دیا۔
تومر یروشلمی پر فراڈ، اعتماد شکنی، شواہد میں رکاوٹ ڈالنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔
تومر یروشلمی کے وکیل ڈوری کلاگسبلاد نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کی موکلہ بے گناہ ہیں اور پولیس کے پاس پہلے ہی دیگر مشتبہ افراد سے حاصل کردہ کافی شواہد موجود ہیں۔
پس منظر:
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی میڈیا میں سدے تیمن فوجی حراستی مرکز کی وہ ویڈیو لیک ہوئی جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی غزہ کے قیدی کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔
ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد اسرائیل میں فوجی طرزِ عمل پر سخت تنقید ہوئی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے فوجی زیادتیوں کا ثبوت قرار دیا۔
تومر یروشلمی، جو اُس وقت فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھیں، نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ ویڈیو انھوں نے خود لیک کی تاکہ فوجی زیادتیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔
جس کے بعد تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا فوج کے دیگر اعلیٰ افسران، خصوصاً سولوموش، نے اس عمل کو چھپانے یا کم کرنے کی کوشش تو نہیں کی۔