انقلاب، جمہور اور انتخابات امام خمینی کی نظر میں
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امام خمینی رضوان اللہ علیہ امور سلطنت میں عوام کی شرکت کو واجب کے قریب تر سمجھتے تھے۔ وہ عوام کو انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سختی کیساتھ حکم دیتے تھے۔ امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد اپنے وطن کو جمہوری اسلامی سمجھتے تھے اور اس انقلاب کو جو کہ اصلاً ایک اسلامی انقلاب تھا، اسکو اسلامی عوامی انقلاب سمجھتے تھے۔ حضرت امام خمینی عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونیوالی پارلیمنٹ کو ایک مقدس ادارہ سمجھتے تھے اور اسکے سامنے جھکنے کو اسلام کے سامنے جھکنا قرار دیتے تھے۔ حضرت امام خمینی جمہور کے ذریعے منتخب کی گئی پارلیمنٹ کو سلطنت کے تمام امور میں سرفہرست قرار دیتے تھے۔ تحریر: محمد اشفاق شاکر
گذشتہ کچھ عرصے سے چند علماء کے کچھ افکار و نظریات کی وجہ سے ملک میں اہل تشیع کے مابین ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا جمہوریت، انتخابات اور پارلیمنٹ اسلام اور ولایت کے مطابق ہے یا یہ کوئی ضدِ انقلاب ہے۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ کچھ علماء نے جمہوریت کو ولایت اور نظام ولایت کی ضد قرار دیا اور اپنے پیروکاروں کو جمہوری سسٹم کا حصہ بننے اور انتخابات میں حصہ لینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا، جس کی وجہ سے اس طبقہ کے درمیان جو خود کو انقلابی اور ولائی طبقہ قرار دیتا ہے، شدید قسم کی بحث چھڑ گئی، جو کہ اب آہستہ آہستہ نفرت میں بدلتی چلی جا رہی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ آج جب ہم انقلاب کے بانی، امامِ راحل، رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رح) کی 36 ویں برسی منا رہے ہیں تو اس موضوع یعنی انقلاب، جمہور اور انتخابات کو خود رہبر کبیر حضرت امام خمینی کے فرامین کی روشنی میں دیکھیں، تاکہ ایک انقلابی، فکری اور ولائی طبقہ کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی نفرت کو روکنے میں جس حد تک ممکن ہو، اپنا کردار ادا کرسکیں۔
امام راحل کے فرامین نقل کرنے سے پہلے اپنے قارئین کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد ایک یا دو ماہ کے اندر اندر حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک ریفرنڈم کروایا، جس کے ذریعے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی جمہوری نظام چاہتے ہیں اور پھر امام نے عوام کی اسی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام کیا اور یہ جمہوری نظام اتنا پائیدار اور پختہ ہے کہ آٹھ سالہ دفاعی جنگ میں بھی کبھی ایرانی انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ البتہ بین الاقوامی سطح پر ایران مخالف قوتیں ان انتخابات کو انتخابات تسلیم نہیں کرتیں اور نہ ہی ایران کی جمہوریت کو جمہوریت تسلیم کرتی ہیں، حالانکہ وہی قوتیں عربوں کی شاہی حکومتوں اور آمریت کو بھی دل و جان سے آئینی اور قانونی حکومتیں تسلیم کرتی ہیں اور ان کی بقا کے لیے سب کچھ کرنے کو بھی تیار رہتی ہیں۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ انقلاب عوام یعنی جمہور اور انتخابات کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ امام خمینی اس انقلاب کو ایک مکمل اسلامی انقلاب کے ساتھ عوامی انقلاب بھی قرار دیتے تھے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ اس انقلاب کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ انقلاب حقیقت میں سب سے بڑا اور بہترین انقلاب تھا، ہمہ گیر ہونے کے لحاظ سے۔ پھر فرماتے ہیں کہ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب سیاسی و اجتماعی انقلاب ہونے سے پہلے ایک معنوی اور روحانی انقلاب ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ہمارے عوامی انقلاب کا دارومدار عوام پر ہے، لہذا عوام کو اپنے انقلاب پر مرتب ہونے والے اثرات کا شکوہ نہیں کرنا چاہیئے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ انقلاب اور نظام کی بقاء اور پائیداری کے لیے جمہور یعنی عوام کی شرکت اور عوام کی رائے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: "ساری قوم کو سیاسی معاملات میں دخیل ہونا چاہیئے، آپ مسلمان عوام کی میدان عمل میں موجودگی ہے، جو تاریخی ستم گروں اور حیلہ بازوں کی سازشوں کو ناکارہ بنا رہی ہے، جو چیز ہم سب پر لازم ہے، وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو میدان میں حاضر رکھنے کی فکر میں رہیں۔
انقلاب کے نتیجے میں نافذ ہونے والے نظام کی حفاظت اور بقاء کے متعلق ارشاد فرمایا کہ "اس جمہوری اسلامی کی حفاظت سب سے بڑے فرائض میں سے ہے۔ انتخابات کی اہمیت اور عوام کو ان انتخابات میں شرکت سے متعلق حضرت امام خمینی نے بہت واضح اور بہت سخت قسم کے ارشادات فرمائے ہیں اور بعض فرامین سے تو ایسے لگتا ہے، جیسے حضرت امام خمینی عوام کی انتخابات میں شرکت کو واجب سمجھتے تھے، جیسے کہ ارشاد فرمایا کہ "آپ سب حضرات و خواتین اور ہم سب اور ہر مکلف کو جس طرح نماز پڑھنا چاہیئے، اسی طرح اپنی تقدیر معین کرنے میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ آج مسئولیت کا بوجھ ملت کے کاندھوں پر ہے، اگر ملت کنارہ کش ہو جائے، مومن اور باعمل اشخاص گھروں میں بیٹھ جائیں اور جن افراد نے اس ملک کے لیے منصوبہ بنا رکھا ہے، وہ دائیں بائیں سے پارلیمنٹ میں گھس آئیں تو اس کی ذمہ دار ملت ہے۔ اگر لوگ اسلام، استقلال، آزادی اور شرق و غرب کے زیر اثر نہیں رہنا چاہتے تو سب انتخاب میں شرکت کریں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ "اس ملت شریف کو میری وصیت یہ ہے کہ تمام انتخابات میں شرکت کریں، چاہے صدارتی انتخابات ہوں یا پارلیمانی یا شورائی رہبری یا رہبر کے تعین کے لیے خبرگان کے انتخابات ہوں، ہر قسم کے انتخابات میں شرکت کریں۔ ملت اپنے ووٹ کے ذریعے صدر کو منتخب کرتی ہے، جمہوری اسلامی کو ووٹ دیتی ہے اور پارلیمنٹ میں موجود اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت کو معین کرتی ہے، گویا تمام امور میں ملت کا ہاتھ ہے۔ عوام کے ذریعے، عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ اور اس کی اہمیت کے متعلق امام راحل حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ "پارلیمنٹ ملت کا حقیقی گھر ہے، پارلیمنٹ کے سامنے جھکنا اسلام کے سامنے جھکنا ہے، پارلیمنٹ تمام امور میں سر فہرست ہے۔"
نقل کیے گئے فرامین پر غور کرنے سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں، ان کے مطابق امام خمینی رضوان اللہ علیہ امور سلطنت میں عوام کی شرکت کو واجب کے قریب تر سمجھتے تھے۔ وہ عوام کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سختی کے ساتھ حکم دیتے تھے۔ امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد اپنے وطن کو جمہوری اسلامی سمجھتے تھے اور اس انقلاب کو جو کہ اصلاً ایک اسلامی انقلاب تھا، اس کو اسلامی عوامی انقلاب سمجھتے تھے۔ حضرت امام خمینی عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو ایک مقدس ادارہ سمجھتے تھے اور اس کے سامنے جھکنے کو اسلام کے سامنے جھکنا قرار دیتے تھے۔ حضرت امام خمینی جمہور کے ذریعے منتخب کی گئی پارلیمنٹ کو سلطنت کے تمام امور میں سر فہرست قرار دیتے تھے،
بلکہ جمہوری اسلامی ایران میں ولی فقیہ کا انتخاب بھی بالواسطہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے، بالواسطہ اس لیے کہ پہلے عوام اپنے براہِ راست ووٹوں سے مجلس خبرگان کے نمائندگان کا انتخاب کرتی ہے اور پھر وہی مجلس خبرگان ضرورت پڑنے پر رہبر یا ولی فقیہہ کا انتخاب کرتی ہے باقاعدہ انتخاب کے ذریعے۔
اس سلسلے میں ایران کے موجودہ سپریم لیڈر یعنی ولی فقیہ کا انتخاب اس کی واضح مثال ہے۔ اس لیے میری رائے میں کسی بھی اسلامی ملک میں جمہوری نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اس نظام کو ایران کے اسلامی و ولائی نظام کی ضد قرار دیتے ہوئے ایران کے نظام کو ولایت اور جمہوری نظام کی ضد قرار دینے کا مطلب یہ ہے آپ دانستہ یا نادانستہ طور پر ان اسلام دشمن قوتوں کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں، جو جمہوری اسلامی ایران کے مثالی جمہوری نظام کو غیر جمہوری یا شخصی نظام اور آمریت کی ہی ایک قسم قرار دیتے ہیں، حالانکہ ایران کے جمہوری نظام جیسا مثالی جمہوری نظام پوری دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام خمینی رضوان اللہ علیہ انتخابات میں شرکت ارشاد فرماتے ہیں کے ذریعے منتخب کے سامنے جھکنا جمہوری اسلامی اسلامی انقلاب فرماتے ہیں کہ قرار دیتے تھے عوامی انقلاب اور انتخابات جمہوری نظام پارلیمنٹ کو کو جمہوری کا انتخاب اس انقلاب انقلاب کے کے متعلق کو اسلام ایران کے ملک میں کرتی ہے نظام کی عوام کی عوام کو اور ان کے لیے
پڑھیں:
امام خمینی ؒ ۔۔۔۔۔ احیاء گر اسلام، عدیم المثال شخصیت
اسلام ٹائمز: یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بیسویں صدی کا یہ عظیم انسان اور دلوں پر حکمرانی کرنے والی سب سے بلند مرتبہ شخصیت آج بھی دنیا بھر کے آزادی و حریت کا شعار بلند کرنے والوں کی مکمل راہنمائی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ اس عظیم مسیحا اور روشنی کے مینار کا کردار ظلم کی چکی میں پسنے والے اور مظلوم بنا دیئے گئے، پا برہنہ لوگوں کیلئے مشعل راہ اور کامیابی کی کلید ہے۔۔۔۔ یہ اگرچہ سخت اور مشکل راہ ہے، تکلیفوں اور مصائب کی راہ ہے۔۔۔۔ قربانیوں و ایثار کی راہ ہے۔۔۔۔ دکھوں اور غموں کی راہ ہے۔۔۔۔ جان گنوانے کی راہ ہے۔۔۔۔ مگر یہ آزادی، حریت، غیرت، حمیت اور نسلوں کے مستقبل سنوارنے کی راہ ہے۔۔۔۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
آج امام خمینی (رح) کی چھتیسویں برسی ہے، سیاست عالم پر حضرت امام خمینی کے اثرات اس قدر گہرے اور موثر ہیں کہ ان چھتیس برسوں میں وہ مسلسل اپنے افکار، بلند کردار اور جدوجہد کے حامل انقلاب اسلامی ایران کی سیاست کے ذریعے ہر لمحہ و لحظہ سیاست کے بڑوں کے ذہنوں پر چھائے دیکھے گئے۔ اس لیے کہ یہ ان کا لایا ہوا انقلاب اور اس کے محافظین، اور ملت ایران نے ان کی روش، ان کے راستہ، ان کی سوچ، ان کے افکار اور ان کے راستے کو ترک نہیں کیا۔ سختیاں، پابندیاں اور ناروا سلوک برداشت کیا ہے، مگر انقلاب کے ہدف، امام خمینی (رح) کے مقصد کو زندہ رکھا ہے۔ قدیم و جدید، اگر غور کریں تو تاریخ انسانی زندگی کے روشن اور تاریک کرداروں کے کارناموں سے لبریز ہے، تاریک کرداروں کے بارے میں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے انسانوں کی فطری آزادی کو زنجیروں میں جکڑنے، ان کی سوچ، فکر اور حریت کو قید کرنے کیلئے اور لوگوں کے شخصی و اجتماعی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے طرح طرح کے ظالمانہ اقدامات کئے اور آزادی کے نعروں کے علمبرداروں، ایسے افکار و کردار کے حاملوں اور حق کے شعاروں کو بلند کرنیوالوں کو اپنے سخت شکنجوں میں جکڑ کر سخت سے سخت سزائیں دی ہیں۔۔۔
تاریخ کے یہ کردار ہر دور اور ہر زمانے میں کہیں حاکم بن کر، کہیں بادشاہ، کہیں فرعون، کہیں شداد اور کہیں جدید تہذیب کے بانی جمہوری وزیراعظم اور صدر بن کر ابھرے، ان کے زمانے تو مختلف تھے، ان کے ممالک اور سلطنتیں تو جدا تھیں، مگر ان کا کام، ان کا کردار، ان کے افعال، ان کی جدوجہد، ان کی خواہش، ان کی آرزوئیں، ان کے اہداف، نہ صرف یکساں تھے بلکہ ان مقاصد، اہداف اور آرزوئوں کی تکمیل میں سدراہ بننے والوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور طریقہء واردات بھی یکساں تھا۔ یعنی سختی، ظلم و جبر اور قتل۔۔۔ سختی کیساتھ یہ لوگ اپنے مقابل کھڑے ہونے والوں کو دبا دیتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ یہ سختی الٹا ان کے گلے پڑ جاتی۔۔۔۔ اور ان کا ظلم جلتی پر تیل کا کام کر جاتا۔۔۔۔ چنانچہ تاریخ کے جھروکوں میں ان کالے کرتوتوں کے مالک تاریک کرداروں کے مقابل ہمیں انبیاء الہیٰ اور اولیائے خدا سالاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ ، حضرت خاتم الانبیاء ؐ اور پھر مولائے متقیان حضرت علی ؑ اس کی چند مثالیں ہیں۔
آج جب حضرت امام خمینیؒ کو ہم سے جدا ہوئے 36برس ہوگئے ہیں تو آپ کی عظیم جدوجہد اور کامیاب اسلامی انقلاب اور اس کے ثمرات و اثرات انبیاء و اولیائے الہیٰ کی ان تاریخی و روشن تحریکوں کی طرح نمایاں اور بلند ترین دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت امام خمینیؒ کی تحریک اگرچہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی تحریک تھی، مگر اس کے اثرات کو دیکھا جائے تو یہ ایک تسلسل ہے، یہ تحریک اگرچہ ایک ظالم و سفاک حکمران خاندان کے خلاف تھی، جس نے اپنے عوام کو اپنی مملکت اور اس کے وسائل کو غیروں کے سامنے گروی رکھ چھوڑا تھا اور ظلم و بربریت و طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی کر رہا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک ان تمام ظالم و جابر اور استعماری کرداروں کے خلاف تھی، جو ایران کی شاہی حکومت کے "شہنشاہ" تھے اور اس خطے پر اصلی حکمران بھی تھے۔ لہٰذا۔۔۔۔ حضرت امام خمینیؒ کا انقلاب ان تمام طاقتوں کی شکست تھا، جو ایران پر اپنے پنجے گاڑ کر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کو اب ہلانے والا اب کوئی نہیں۔
امام خمینیؒ نے اس تحریک کی سپہ سالاری کی او راس راہ پُرخار میں آپ کو بے انتہاء مظالم کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ قید و بند، شکنجے، دربدری، نظر بندی، جلاوطنی، ہجرتیں اور اپنے پیاروں کا خون پیش کرنا پڑ، اپنوں اور پرایوں کے طعنے برداشت کرنا پڑے، انقلاب اسلامی کے قیام اور اس کی بقاء کیلئے ہزاروں نہیں لاکھوں جوان، مرد، پیر، بچے، خواتین اس راہ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اپنے خون سے آزادی، استقلال، حریت جیسے معتبر الفاظ لوگوں کے ذہنوں پر گہرے انمٹ نقوش کی مانند تحریر کر گئے۔ امام خمینیؒ نے عظیم فتح حاصل کرکے اسلامی انقلاب برپا کیا تو مشکلات اور مصائب نے ایران پر یلغار کر دی۔ عالمی طاقتوں کی مخالفتوں کی تمام توپوں کا رخ ایران کی طر ف مڑ گیا۔ سازشوں کے جال چہار اطراف میں ڈال دیئے گئے۔ کبھی صدام سے ایران پر حملہ کروا کر، کبھی مساجد اور پارلیمنٹ میں بم چلوا کر اس کے قائدین کا خون بہا کر اس انقلاب کو ناکام بنانے کی کوششیں ہوئیں۔
عالمی سطح پر ایران پر اقتصادی پابندیاں لگیں، بائیکاٹ ہوا، مگر امام ؒ کے پایہء استقلال میں کمی نہ آئی۔ شعب ابی طالب ؑ کے پروردہ امام خمینیؒ نے اپنے جد کی یاد بیسویں صدی میں تازہ کر دی اور ثابت کر دیا کہ کل مکہ کے سرداروں کے سامنے جس طرح پیغمبر اکرم ؐ نے جھکنے سے انکار کر دیا تھا، اسی طرح آج کے نام نہاد عالمی ٹھیکیداروں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور یہی عزت و غیرت کا راستہ و شیوہء پیغمبری ہے۔ امام خمینیؒ نے حریت، آزادی، استقلال اور غیر متزلزل اندازِ سیاست اور کردار کا جو نمونہ پیش کیا، اس نے دیگر مظلوم اور ستم رسیدہ اقوام میں بھی حوصلہ اور ہمت پیدا کر دی۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد مشرق وسطیٰ بالخصوص اور پوری دنیا میں چلنے والی اسلامی و آزادی کی تحریکوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ہمارے ملک سمیت ہر خطہ میں لوگوں کی زبان پر یہ جملہ ہوتا تھا کہ ہمارے ملک کو ایک خمینیؒ کی ضرورت ہے۔
فلسطین کی آزادی کی تحریک کی جو حمایت اور مدد امام خمینیؒ نے کی، اس کی وجہ سے ہی مظلومین فلسطین نے آج تک اپنی تحریک جہاد و شہادت کو جاری رکھا ہوا ہے اور امام خمینی کے بعد ان کے جانشین و مسئولین انقلاب اسلامی نے اس حوالے سے کبھی کوتاہی نہیں کی اور اہل فلسطین کو دیگر مسلم ممالک کی طرح مایوس نہیں کیا۔ ان کی برملا مدد اور تعاون جاری رکھا ہوا ہے، آج تحریک آزادی فلسطین اپنی حیثیت منوا چکی ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کا وجود حضرت امام خمینیؒ کی شاندار پالیسیوں اور افکار و کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حزب اللہ لبنان نے عالمی بدمعاش اسرائیل کے خلاف جس طرح جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے، وہ جہاد، شہادت، عزم، ارادہ، عہد، پیروی ولایت و رہبری جیسے خوبصورت افکار جن کی بنیاد حضرت امام خمینی (رح) کی ذات بابرکات ہے، کی بدولت ہی اسرائیل کا مقابلہ ڈت کے کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حزب اللہ نے جو عظیم المرتبت قربانیاں پیش کیں، وہ عشاقان امام خمینی کے سالار ہی تو تھے۔
اسلامی جہاد اور حماس کی صورت میں فلسطین کے اندر امام خمینیؒ کی فکر سے رُشد حاصل کرنے والے مزاحمت اسلامی کے سرخیل آج اپنی گردن اور سر جھکانے کیلئے تیار نہیں ہوئے، اس لئے کہ ان کے سامنے ایک روشن کردار موجود ہے، جو استعمار کے سامنے کبھی نہیں جھکا۔ عراق جس کیساتھ آٹھ سال تک مسلسل امام خمینی کو مسلط کردہ جنگ میں دھکیلا گیا تھا، آج فرزندان عراق امام خمینی کی فکر سے روشنی پا کر ہی اپنے ملک کو عالمی استعمار امریکہ کے چنگل سے آزاد کروانے میں مشغول اور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یمن میں انصاراللہ کا وجود اس دور میں کسی غیبی امداد و مدد کا بہترین نمونہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انصار اللہ یمن کے انقلابی افکار کے مالک پابرہنہ یمنی مسلمان فکر امام خمینی کی وراثت کا حق ادا کر ہے ہیں، اہل یمن کو دونوں ہاتھوں سے سلیوٹ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس کے حقدار ہیں، انہوں نے استعمار کے سامنے ایک دن بھی گردن نہیں جھکائی۔
امام خمینی کی جانب سے روس کے ٹوٹنے کی پیشین گوئی اور روسی صدر گورباچوف کو اسلام کی دعوت امام خمینیؒ کا افتخار و اعزاز بھی ہے اور اسلام کی صداقت پر مہر تصدیق بھی۔ رسول خدا ؐ کے خلاف سلمان رشدی ملعون کی کتاب کی اشاعت کے بعد آپ نے تاریخی فتویٰ دے کر اسے ہمیشہ کیلئے محدود کر دیا، یورپ اس فتویٰ کی وجہ سے کئی بار ایران سے تعلقات توڑنے کا اعلان کرتا رہا، مگر ایران نے اس فتویٰ کو ہمیشہ واپس لینے سے انکار ہی کیا اور ہر قسم کے پریشر اور دبائو کو خاطر میں لائے بغیر اس پر قائم و دائم رہا ہے، یہ فتویٰ آج بھی قابل عمل ہے۔ امام خمینیؒ اگرچہ 4 جون 1989ء کو ہم سے جدا ہوگئے، مگر ان کا دکھایا ہوا راستہ آج بھی اسی طرح روشن ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ امام خمینیؒ کی راہ، نجات کی راہ ہے۔۔۔ آزادی کی راہ ہے۔۔۔ عالمی قذاقوں اور غنڈوں کے سامنے جرات اظہار اور مظلوموں کی حمایت و نصرت کی راہ ہے۔۔۔۔ اپنے مقصد اور ہدف کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کی راہ ہے۔۔۔ اس راہ کا راہی ہر کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس پر چلنے کیلئے گھر بار، اولاد، مال و دولت، ملک کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ رات کی تاریکیاں خدا سے راز و نیاز میں صرف کرنا پڑتی ہیں۔ کردار کا نمونہ عمل بننا پڑتا ہے، عمل کا ہمالیہ سر کرنا پڑتا ہے اور تقویٰ و اخلاص کی بلندی کو چھونا پڑتا ہے۔ امام خمینیؒ نے ہمیشہ عوام کی طاقت پر بھروسہ کیا اور اس یقین و بھروسہ کے بل بوتے پر طویل و کٹھن تحریک کے پُرخار مراحل کو طے کیا۔ عزم راسخ اور پختہ یقین کے ساتھ قربانیوں کی داستان رقم کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسلام و مسلمانوں کی عزت رکھ لی۔ آپ نے امریکی اسلام کو طشت از بام کیا اور ظالم حکمرانوں سے تنگ آئے ہوئے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں انقلاب و آزادی کی روح پھونکنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ امام خمینیؒ ہی تھے، جنہوں نے امریکہ کو شیطان بزرگ، "بڑا شیطان" اور انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا اور اس کے خلاف بغاوت کی۔ اپنی اس بغاوت کے ذریعے عصرِ حاضر کے فرعونوں کی نافرمانی کا درس دیا۔ امریکہ جو عالمی سطح پر طاقتور ترین سمجھا جا رہا تھا، ناقابل شکست ہو چلا تھا، اس کا ناقابل شکست ہونے کا طلسم توڑ دیا۔ آپ کی اس بغاوت نے فلسطین، الجزائر، افغانستان اور دیگر کئی ممالک میں جہاد کے در وا کر دیئے اور امت کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد آگیا، امریکہ و استعماری طاقتوں کا گھمنڈ خاک میں ملا دیا۔۔۔ امام خمینیؒ کی عدیم المثال شخصیت تھی، جن کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھنے والی تحریکوں اور تنظیموں کی قیادتوں میں خود اعتمادی اور امید پیدا ہوئی اور ان کی جدوجہد میں تیزی آئی اور کئی ایک مسلمان ممالک میں باشعور نوجوان کھلے عام اپنے استعمار شکن نظریات کا اظہار کرنے لگے۔
یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بیسویں صدی کا یہ عظیم انسان اور دلوں پر حکمرانی کرنے والی سب سے بلند مرتبہ شخصیت آج بھی دنیا بھر کے آزادی و حریت کا شعار بلند کرنے والوں کی مکمل راہنمائی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ اس عظیم مسیحا اور روشنی کے مینار کا کردار ظلم کی چکی میں پسنے والے اور مظلوم بنا دیئے گئے، پا برہنہ لوگوں کیلئے مشعل راہ اور کامیابی کی کلید ہے۔۔۔۔ یہ اگرچہ سخت اور مشکل راہ ہے، تکلیفوں اور مصائب کی راہ ہے۔۔۔۔ قربانیوں و ایثار کی راہ ہے۔۔۔۔ دکھوں اور غموں کی راہ ہے۔۔۔۔ جان گنوانے کی راہ ہے۔۔۔۔ مگر یہ آزادی، حریت، غیرت، حمیت اور نسلوں کے مستقبل سنوارنے کی راہ ہے۔۔۔۔ آ ج ہم یہ بات برملا کہہ سکتے ہیں کہ 4 جون 1989ء بہشت زہراؑ تہران کی طرف ایک کروڑ انسانوں کا بڑھتا ہوا ہجوم جس انسان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے پورے ایران سے اُمڈ آیا تھا، دراصل یہ ان نظریات و افکار کو سلام پیش کیا جا رہا تھا، جس پر چلتے ہوئے آج کا ایران دنیا کی ظالم و متکبر طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر امام خامنہ ای اور ڈاکٹر احمدی نژاد کی ولولہ انگیز مدبر قیادت میں مقابلہ کرنے کیلئے تیار دکھائی دے رہا ہے اور دنیا بھر کے پسے ہوئے انسانوں کیلئے مینارہ نور کا کام کر رہا ہے۔
آخر میں ان کے الہیٰ و سیاسی وصیت نامہ کا ایک ٹکڑا قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں (یہ وصیت نامہ ہر جوان کو پڑھنا چاہیئے) امام اُمّت، بت شکن زمان، عارفِ زمان، مرجع جہان آیت اللہ العظمیٰ حضرت امام سید روح اللہ موسوی خمینی؛ میں پرسکون دل، مطمئن قلب، شادمان روح اور فضلِ الہیٰ کیلئے آرزو مند ضمیر کے ساتھ رخصت ہو کر ابدی دنیا کی طرف سفر کر رہا ہوں۔ مجھے آپ سب کی دُعاؤں کی شدید ضرورت ہے۔ میں اپنے پروردگار، خداوند رحمان و رحیم سے دعا گو ہوں کہ وہ میری کوتاہی، کمی اور لغزشوں کو درگزر فرمائے اور میری خدمت کو قبول فرمائے۔