انقلاب، جمہور اور انتخابات امام خمینی کی نظر میں
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امام خمینی رضوان اللہ علیہ امور سلطنت میں عوام کی شرکت کو واجب کے قریب تر سمجھتے تھے۔ وہ عوام کو انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سختی کیساتھ حکم دیتے تھے۔ امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد اپنے وطن کو جمہوری اسلامی سمجھتے تھے اور اس انقلاب کو جو کہ اصلاً ایک اسلامی انقلاب تھا، اسکو اسلامی عوامی انقلاب سمجھتے تھے۔ حضرت امام خمینی عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونیوالی پارلیمنٹ کو ایک مقدس ادارہ سمجھتے تھے اور اسکے سامنے جھکنے کو اسلام کے سامنے جھکنا قرار دیتے تھے۔ حضرت امام خمینی جمہور کے ذریعے منتخب کی گئی پارلیمنٹ کو سلطنت کے تمام امور میں سرفہرست قرار دیتے تھے۔ تحریر: محمد اشفاق شاکر
گذشتہ کچھ عرصے سے چند علماء کے کچھ افکار و نظریات کی وجہ سے ملک میں اہل تشیع کے مابین ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا جمہوریت، انتخابات اور پارلیمنٹ اسلام اور ولایت کے مطابق ہے یا یہ کوئی ضدِ انقلاب ہے۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ کچھ علماء نے جمہوریت کو ولایت اور نظام ولایت کی ضد قرار دیا اور اپنے پیروکاروں کو جمہوری سسٹم کا حصہ بننے اور انتخابات میں حصہ لینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا، جس کی وجہ سے اس طبقہ کے درمیان جو خود کو انقلابی اور ولائی طبقہ قرار دیتا ہے، شدید قسم کی بحث چھڑ گئی، جو کہ اب آہستہ آہستہ نفرت میں بدلتی چلی جا رہی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ آج جب ہم انقلاب کے بانی، امامِ راحل، رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رح) کی 36 ویں برسی منا رہے ہیں تو اس موضوع یعنی انقلاب، جمہور اور انتخابات کو خود رہبر کبیر حضرت امام خمینی کے فرامین کی روشنی میں دیکھیں، تاکہ ایک انقلابی، فکری اور ولائی طبقہ کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی نفرت کو روکنے میں جس حد تک ممکن ہو، اپنا کردار ادا کرسکیں۔
امام راحل کے فرامین نقل کرنے سے پہلے اپنے قارئین کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد ایک یا دو ماہ کے اندر اندر حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک ریفرنڈم کروایا، جس کے ذریعے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی جمہوری نظام چاہتے ہیں اور پھر امام نے عوام کی اسی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام کیا اور یہ جمہوری نظام اتنا پائیدار اور پختہ ہے کہ آٹھ سالہ دفاعی جنگ میں بھی کبھی ایرانی انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ البتہ بین الاقوامی سطح پر ایران مخالف قوتیں ان انتخابات کو انتخابات تسلیم نہیں کرتیں اور نہ ہی ایران کی جمہوریت کو جمہوریت تسلیم کرتی ہیں، حالانکہ وہی قوتیں عربوں کی شاہی حکومتوں اور آمریت کو بھی دل و جان سے آئینی اور قانونی حکومتیں تسلیم کرتی ہیں اور ان کی بقا کے لیے سب کچھ کرنے کو بھی تیار رہتی ہیں۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ انقلاب عوام یعنی جمہور اور انتخابات کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ امام خمینی اس انقلاب کو ایک مکمل اسلامی انقلاب کے ساتھ عوامی انقلاب بھی قرار دیتے تھے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ اس انقلاب کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ انقلاب حقیقت میں سب سے بڑا اور بہترین انقلاب تھا، ہمہ گیر ہونے کے لحاظ سے۔ پھر فرماتے ہیں کہ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب سیاسی و اجتماعی انقلاب ہونے سے پہلے ایک معنوی اور روحانی انقلاب ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ہمارے عوامی انقلاب کا دارومدار عوام پر ہے، لہذا عوام کو اپنے انقلاب پر مرتب ہونے والے اثرات کا شکوہ نہیں کرنا چاہیئے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ انقلاب اور نظام کی بقاء اور پائیداری کے لیے جمہور یعنی عوام کی شرکت اور عوام کی رائے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: "ساری قوم کو سیاسی معاملات میں دخیل ہونا چاہیئے، آپ مسلمان عوام کی میدان عمل میں موجودگی ہے، جو تاریخی ستم گروں اور حیلہ بازوں کی سازشوں کو ناکارہ بنا رہی ہے، جو چیز ہم سب پر لازم ہے، وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو میدان میں حاضر رکھنے کی فکر میں رہیں۔
انقلاب کے نتیجے میں نافذ ہونے والے نظام کی حفاظت اور بقاء کے متعلق ارشاد فرمایا کہ "اس جمہوری اسلامی کی حفاظت سب سے بڑے فرائض میں سے ہے۔ انتخابات کی اہمیت اور عوام کو ان انتخابات میں شرکت سے متعلق حضرت امام خمینی نے بہت واضح اور بہت سخت قسم کے ارشادات فرمائے ہیں اور بعض فرامین سے تو ایسے لگتا ہے، جیسے حضرت امام خمینی عوام کی انتخابات میں شرکت کو واجب سمجھتے تھے، جیسے کہ ارشاد فرمایا کہ "آپ سب حضرات و خواتین اور ہم سب اور ہر مکلف کو جس طرح نماز پڑھنا چاہیئے، اسی طرح اپنی تقدیر معین کرنے میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ آج مسئولیت کا بوجھ ملت کے کاندھوں پر ہے، اگر ملت کنارہ کش ہو جائے، مومن اور باعمل اشخاص گھروں میں بیٹھ جائیں اور جن افراد نے اس ملک کے لیے منصوبہ بنا رکھا ہے، وہ دائیں بائیں سے پارلیمنٹ میں گھس آئیں تو اس کی ذمہ دار ملت ہے۔ اگر لوگ اسلام، استقلال، آزادی اور شرق و غرب کے زیر اثر نہیں رہنا چاہتے تو سب انتخاب میں شرکت کریں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ "اس ملت شریف کو میری وصیت یہ ہے کہ تمام انتخابات میں شرکت کریں، چاہے صدارتی انتخابات ہوں یا پارلیمانی یا شورائی رہبری یا رہبر کے تعین کے لیے خبرگان کے انتخابات ہوں، ہر قسم کے انتخابات میں شرکت کریں۔ ملت اپنے ووٹ کے ذریعے صدر کو منتخب کرتی ہے، جمہوری اسلامی کو ووٹ دیتی ہے اور پارلیمنٹ میں موجود اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت کو معین کرتی ہے، گویا تمام امور میں ملت کا ہاتھ ہے۔ عوام کے ذریعے، عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ اور اس کی اہمیت کے متعلق امام راحل حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ "پارلیمنٹ ملت کا حقیقی گھر ہے، پارلیمنٹ کے سامنے جھکنا اسلام کے سامنے جھکنا ہے، پارلیمنٹ تمام امور میں سر فہرست ہے۔"
نقل کیے گئے فرامین پر غور کرنے سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں، ان کے مطابق امام خمینی رضوان اللہ علیہ امور سلطنت میں عوام کی شرکت کو واجب کے قریب تر سمجھتے تھے۔ وہ عوام کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سختی کے ساتھ حکم دیتے تھے۔ امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد اپنے وطن کو جمہوری اسلامی سمجھتے تھے اور اس انقلاب کو جو کہ اصلاً ایک اسلامی انقلاب تھا، اس کو اسلامی عوامی انقلاب سمجھتے تھے۔ حضرت امام خمینی عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو ایک مقدس ادارہ سمجھتے تھے اور اس کے سامنے جھکنے کو اسلام کے سامنے جھکنا قرار دیتے تھے۔ حضرت امام خمینی جمہور کے ذریعے منتخب کی گئی پارلیمنٹ کو سلطنت کے تمام امور میں سر فہرست قرار دیتے تھے،
بلکہ جمہوری اسلامی ایران میں ولی فقیہ کا انتخاب بھی بالواسطہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے، بالواسطہ اس لیے کہ پہلے عوام اپنے براہِ راست ووٹوں سے مجلس خبرگان کے نمائندگان کا انتخاب کرتی ہے اور پھر وہی مجلس خبرگان ضرورت پڑنے پر رہبر یا ولی فقیہہ کا انتخاب کرتی ہے باقاعدہ انتخاب کے ذریعے۔
اس سلسلے میں ایران کے موجودہ سپریم لیڈر یعنی ولی فقیہ کا انتخاب اس کی واضح مثال ہے۔ اس لیے میری رائے میں کسی بھی اسلامی ملک میں جمہوری نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اس نظام کو ایران کے اسلامی و ولائی نظام کی ضد قرار دیتے ہوئے ایران کے نظام کو ولایت اور جمہوری نظام کی ضد قرار دینے کا مطلب یہ ہے آپ دانستہ یا نادانستہ طور پر ان اسلام دشمن قوتوں کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں، جو جمہوری اسلامی ایران کے مثالی جمہوری نظام کو غیر جمہوری یا شخصی نظام اور آمریت کی ہی ایک قسم قرار دیتے ہیں، حالانکہ ایران کے جمہوری نظام جیسا مثالی جمہوری نظام پوری دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام خمینی رضوان اللہ علیہ انتخابات میں شرکت ارشاد فرماتے ہیں کے ذریعے منتخب کے سامنے جھکنا جمہوری اسلامی اسلامی انقلاب فرماتے ہیں کہ قرار دیتے تھے عوامی انقلاب اور انتخابات جمہوری نظام پارلیمنٹ کو کو جمہوری کا انتخاب اس انقلاب انقلاب کے کے متعلق کو اسلام ایران کے ملک میں کرتی ہے نظام کی عوام کی عوام کو اور ان کے لیے
پڑھیں:
نومبر، انقلاب کا مہینہ
نومبر کی شامیں جب دھیرے دھیرے اُترتی ہیں تو یورپ کے شمال میں سرد ہوا کے جھونکے صرف پتوں کو ہی نہیں، تاریخ کے اوراق کو بھی ہلا دیتے ہیں۔ 1917 نومبر میں جب پیٹرو گراڈ کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں سپاہیوں اور طلبہ کے نعرے گونج رہے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ کر ٹھہری۔ روس کے عوام نے صدیوں پر محیط ظلم جاگیرداری اور سامراجی جکڑ سے نکلنے کے لیے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھام لیا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ اقتدار محلات سے نکل کر کارخانوں اورکھیتوں کے بیٹے، بیٹیوں کے ہاتھ میں آیا۔
اکتوبر انقلاب جو ہمارے کیلنڈر میں نومبر میں آیا، صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، یہ انسان کی برابری، آزادی اور عزتِ نفس کے خواب کی تعبیر تھی۔
لینن اور ان کے رفقا نے جو راہ دکھائی وہ صرف روس کے لیے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھی جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا تک کے محکوم دلوں میں اُمیدکے چراغ روشن کیے۔
اس انقلاب نے بتایا کہ تاریخ کے پہیے کو صرف طاقتور نہیں گھماتے، کبھی کبھی محروم مزدور اور مفلس بھی اُٹھ کر دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ کوئی سماج اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس کے مزدور اورکسان زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ مگر ہر انقلاب کے بعد وقت کی گرد بیٹھتی ہے۔
خوابوں کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نئے تضادات جنم لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرا کہ کیا انقلاب محض ایک رومانی تصور تھا یا تاریخ کا ایسا موڑ جس نے انسان کو وقتی طور پر یقین دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے؟
نومبرکی یاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ انقلاب محض بندوقوں یا قلعوں کی فتح نہیں ہوتا بلکہ ذہنوں اور دلوں کی آزادی کا نام ہے۔ وہ سماج جو اپنے فکری اور اخلاقی سانچوں کو بدلنے سے گریزکرے، وہ انقلاب کے قابل نہیں ہوتا۔
روس نے یہ جرات کی اس نے بتوں کو توڑا، بادشاہت کو ختم کیا اور محنت کش انسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ مگر جب ہم اس روشنی کو اپنے وطن پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو دل کسی اداس شام کی طرح بھاری ہو جاتا ہے۔
یہاں مزدور اب بھی اپنی مزدوری کے لیے ترستا ہے، کسان اب بھی زمین کا بوجھ اُٹھائے فاقہ کرتا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب کے نعرے گونجے۔ ہماری زمین پر جنم لینے والی ترقی پسند تحریکیں چاہے، وہ مزدور تحریک ہو، کسان کمیٹی ہو یا طلبہ کی جدوجہد سب کسی نہ کسی موڑ پر ریاستی جبر، نظریاتی تقسیم اور مایوسی کا شکار ہوئیں۔
ایک زمانہ تھا جب کراچی کی فیکٹریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک سرخ جھنڈا ہوا میں لہرا کرکہتا تھا کہ ’’ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ‘‘ مگرآج وہ آواز مدھم ہے، نہ وہ جلسے رہے نہ وہ عزم، شاید اس لیے کہ ہماری سیاست نے نظریے کو نکال پھینکا اور موقع پرستی کو گلے لگا لیا۔
جو لوگ مزدوروں کے حق کی بات کرتے تھے، وہ خود سرمایہ داروں کے دربار میں جا بیٹھے، جو قلم عوام کی جدوجہد کا ہتھیار تھا، وہ اب اشتہار کا آلہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی کمزوری دراصل ہمارے اجتماعی احساسِ زیاں کی علامت ہے۔
ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، وہ نسلیں جو کبھی لینن چی گویرا یا فیض کے الفاظ سے آگ پاتی تھیں، آج کسی موبائل اسکرین پر عارضی غم اور مصنوعی خوشی کی پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ یہ وہ خلا ہے جو صرف فکر سے یقین سے اور اجتماعی جدوجہد سے پُر ہو سکتا ہے۔
نومبرکا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ وہ برسوں کے صبر، قربانی اور شعور سے جنم لیتا ہے۔ روس کے مزدور اگر محض اپنی بھوک کے خلاف اُٹھتے تو شاید تاریخ نہ بدلتی۔ مگر انھوں نے صرف روٹی نہیں، عزت، علم اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
یہی مطالبہ آج بھی زندہ ہے ماسکو سے کراچی تک انسان کے دل میں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انقلاب کا خواب اگر دھندلا بھی جائے تو اس کی چنگاری باقی رہتی ہے۔ وہ چنگاری جو کسی طالب علم کے ذہن میں سوال بن کر جنم لیتی ہے، کسی مزدورکے نعرے میں صدا بن کر گونجتی ہے یا کسی ادیب کے قلم میں احتجاج بن کر ڈھلتی ہے، یہی چنگاری آنے والے کل کی روشنی ہے۔
یہ مہینہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر وہ سماج جو ظلم اور نابرابری کو معمول سمجھ لے وہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، اگر روس کے عوام اپنی خاموشی توڑ سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں اپنی تقدیر کے فیصلے چند طاقتور ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں؟
شاید اس لیے کہ ہم نے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا زندگی میں نہیں جیا۔وقت گزر چکا مگر تاریخ کے اوراق کبھی بند نہیں ہوتے۔ شاید کسی اور نومبر میں کسی اور زمین پر نئی نسل پھر سے وہی سرخ پرچم اُٹھائے اورکہے ہم اس دنیا کو بدلیں گے اور جب وہ دن آئے گا تو ماسکو سے کراچی تک ہر انقلابی روح ایک لمحے کے لیے مسکرائے گی۔
آج کے عہد میں جب دنیا ایک بار پھر معاشی ناہمواری، ماحولیاتی تباہی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے تو اکتوبر انقلاب کی گونج نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا انسان پھر سے وہی جرات کرسکتا ہے کیا طاقتورکے خلاف کھڑے ہوکر نظام کو بدلنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے؟
شاید یہی سوال نومبر کی ہوا میں بسا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بت پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں مگر ساتھ ہی دنیا کے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی مزدور طالب علم یا ادیب اب بھی انصاف اور برابری کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
وہ شاید تھکے ہوئے ہیں مگر ہارے نہیں۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ بکھری ہوئی چنگاریاں مل کر پھر سے ایک روشنی بن جائے۔