امام خمینی ؒ، ایک منفرد قائد
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: وسائل کے نہ ہونے اور وطن سے دور رہنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ رابطہ رکھا اور قوم کے حوصلوں میں اضافہ فرماتے رہے، حتیٰ کہ انقلاب رونما ہوگیا۔ انقلاب اسلامی کے قیام کے بعد اب امام خمینی ؒ کے سامنے ایک اور امتحان درپیش تھا، جس میں انقلاب اسلامی کا تحفظ کرنا تھا اور انقلاب کو ترقی کے ساتھ آگے بڑھانا تھا۔ دنیا کے اکثر حکمرانوں بالخصوص عالمی طاقتوں کے سربراہوں کو امید تھی کہ امام خمینی ؒ کا انقلاب سال دو سال کے عرصے میں ناکام ہو کر ختم ہو جائے گا، لیکن امام نے انہیں ایک بار پھر حیرت میں ڈال دیا، جس میں نہ صرف انقلاب نے ترقی اور ترویج حاصل کی بلکہ ملک ایران بھی گذشتہ کی نسبت زیادہ ترقی کے میدان میں گامزن ہوگیا۔ تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
(مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان)
رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ رحمۃ اللہ بہت سارے پہلووں میں انفرادیت کے حامل تھے۔ لیکن قیادت و رہبریت کے معاملے میں ان کا مقام مزید منفرد ہے۔ انہوں نے 1960ء کی دہائی میں ایرانی استعماری حکمرانوں کی سازشوں کو جس گہرائی میں بھانپا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ حالانکہ وہ زمانہ آپ کی قیادت اور مرجعیت کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اس کے باوجود آپ نے امت مسلمہ بالخصوص ملت ایران کی امراض کی تشخیص ایک ماہر امراض سے بڑھ کر فرمائی۔ نہ صرف امراض کی تشخیص فرمائی بلکہ علاج بھی تجویز فرما دیا۔ حیرت اور لطف کی بات یہ ہے کہ جو علاج انہوں نے انقلاب رونماء ہونے سے تین دہائیاں قبل تجویز فرمایا، وہی علاج ہی تین نسلیں جوان ہونے اور تیس سال گذرنے کے باوجود کارگر ثابت ہوا۔ امام خمینی ؒنے ایرانی قوم بطور قوم منظم کرنے میں منفرد کردار ادا فرمایا۔ امام سے قبل ایرانی قوم محض بادشاہ پرست قسم کی تھی۔ غلامانہ ذہنیت کے ساتھ اپنے بادشاہ کے ہر حکم پر لبیک کہنا عادت بن چکی تھی۔
بادشاہوں نے بے دینی، لادینیت، کرپشن، بدکرداری، تباہ کن معیشت اور فحاشی و عریانی کو رواج دیا ہوا تھا، مگر ایرانی عوام اپنے بادشاہ کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریزاں تھے، سوائے ان چند دیندار علماء اور چند باشعور و تعلیم یافتہ طبقے کے افراد کے اور کوئی بولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ امام خمینی ؒ نے ان دو طبقات کو منظم اور ہم آہنگ کیا، جس کے بعد ایسی تبدیلی کی بنیاد رکھی گئی، جس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ امام خمینی ؒ نے انقلاب سے پہلے ہی دنیا بھر میں اپنی شخصیت کو نہ صرف متعارف کرا لیا، بلکہ تسلیم بھی کرا لیا۔ تمام عالمی رہنماؤں کی امام خمینی ؒ پر انقلاب سے قبل ہی نظر تھی۔ بالخصوص عالمی طاقتوں نے امام خمینی ؒ کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی اور ایران پر مسلط بادشاہوں کو بھرپور مدد فراہم کرکے امام خمینی ؒ کی جدوجہد میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں، لیکن امام خمینی ؒ پوری طاقت سے آگے بڑھتے رہے۔ عراق اور فرانس میں جلاوطنی کے ایام گذارتے رہے، لیکن عزم کم نہ ہوئے۔
وسائل کے نہ ہونے اور وطن سے دور رہنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ رابطہ رکھا اور قوم کے حوصلوں میں اضافہ فرماتے رہے، حتیٰ کہ انقلاب رونماء ہوگیا۔ انقلاب اسلامی کے قیام کے بعد اب امام خمینی ؒ کے سامنے ایک اور امتحان درپیش تھا، جس میں انقلاب اسلامی کا تحفظ کرنا تھا اور انقلاب کو ترقی کے ساتھ آگے بڑھانا تھا۔ دنیا کے اکثر حکمرانوں بالخصوص عالمی طاقتوں کے سربراہوں کو امید تھی کہ امام خمینی ؒ کا انقلاب سال دو سال کے عرصے میں ناکام ہو کر ختم ہو جائے گا، لیکن امام نے انہیں ایک بار پھر حیرت میں ڈال دیا، جس میں نہ صرف انقلاب نے ترقی اور ترویج حاصل کی بلکہ ملک ایران بھی گذشتہ کی نسبت زیادہ ترقی کے میدان میں گامزن ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں ایران ایک بہترین معیشت کا حامل ہوا۔ حالانکہ عراق کے ساتھ طویل جنگ بھی درپیش رہی، جس میں امام خمینی ؒ نے قوم کو سنبھال کر رکھا اور ہزاروں شہداء دینے کے باوجود قوم کے حوصلے پست نہیں ہونے دیئے۔ امام خمینی ؒ نے انقلاب اسلامی کے پہلے دس سال اپنی موجودگی میں انقلاب کو بڑھتے اور پھولتے پھلتے دیکھا۔
اس دوران انہوں نے انقلاب کا تسلسل قائم رکھنے، انقلاب جاری رکھنے اور اسے دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے کثیر تعداد میں اپنے معاونین و شاگردان کی ایک منظم ٹیم تشکیل دی۔ یہ ان کی انفرادیت تھی، ورنہ اکثر قیادتیں جب دنیا سے رخصت ہوتی ہیں تو ان کے انقلاب بھی ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو صاحب ِ انقلاب کی زندگی میں ہی انقلاب شکستہ یا ختم ہو جاتے ہیں۔ مگر امام خمینی ؒ کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے اپنا ملک اور انقلاب جن امین ہاتھوں میں دیا، آج ان ہاتھوں نے دیانتداری کے ساتھ انقلاب کو سنبھالا ہوا ہے۔ ان امین مجاہدوں کے سرخیل رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہیں، جبکہ ایران کے گذشتہ صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی بھی اسی عظیم ٹیم کے اہم ترین رکن تھے۔ شہید رئیسی نے امام خمینی ؒ سے رفاقت کا حق ادا فرمایا۔ اپنی پوری زندگی اپنے امام اور رہبر کے خط پر گذار دی۔ امام اور رہبر کی پالیسیوں کے اجراء کے لیے پوری توانائیاں صرف کیں۔
دنیا بھر میں امام اور رہبر کا پیغام پہنچانے کی سعی کی، رہبر معظم کے بعد اگر موجودہ زمانے میں امام خمینی ؒ کا حقیقی عکس کسی شخص میں نظر آتا ہے تو وہ شہید ابراہیم رئیسی ہیں۔ آپ نے یقیناً امام سے فیض حاصل کیا ہے۔ دنیا بھر کے عالمی فورمز میں اسلام اور ایران کا پیغام بھی پہنچایا اور دفاع کرنے کے لیے میدان میں بھی رہے۔ شہید رئیسی ہر مسلمان اور ہر مظلوم کی آواز تھے۔ قرآن کریم کے ساتھ ان کی وابستگی بالکل امام کی طرح تھی۔ دشمنان قرآن کو جیسے صدر ابراہیم نے للکارا، ویسے کوئی جرات نہیں کرسکا۔ جس طرح شہید رئیسی نے امام خمینی ؒ کے مشن کو آگے بڑھایا اور امام کی سیرت پر عمل کیا، اسی طرح اگر ہم بھی اسی خلوص اور محنت کے ساتھ امام خمینی ؒ کے انوار سے روشنی لیں اور اپنے آپ کو امام کا مطیع و فرمان بردار بنائیں تو پوری دنیا انقلاب اسلامی کے وجود سے معطر ہوسکتی ہے اور امام خمینی ؒ کی روح شادمان و سرفراز ہوسکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی کے انقلاب کو نے انقلاب کے باوجود دنیا بھر کے ساتھ ترقی کے قوم کے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
’غزہ کی ہولناکیوں‘ کے سائے میں اقوام متحدہ کی امن کی اپیل
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) * ’غزہ کی ہولناکیوں‘ کے سائے میں اقوام متحدہ کی امن کی اپیل
’غزہ کی ہولناکیوں‘ کے سائے میں اقوام متحدہ کی امن کی اپیلاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منگل 22 جولائی کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کر لی، جس میں تمام 193 رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج تمام پرامن ذرائع کو بروئے کار لائیں۔
یہ قرارداد پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی تھی اور اسے 15 رکنی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر منظور کیا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے اس موقع پر کہا کہ دنیا کو اس وقت پرامن سفارت کاری کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ ’’غزہ میں ہولناکیوں کا منظر‘‘ اور یوکرین، سوڈان، ہیٹی اور میانمار جیسے خطوں میں جاری تنازعات عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا، ’’ہم دنیا بھر میں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزیاں دیکھ رہے ہیں۔‘‘غزہ پٹی کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے گوٹیرش نے کہا کہ ’’بھوک ہر دروازے پر دستک دے رہی ہے‘‘ اور اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کو امداد کی فراہمی کے لیے محفوظ راستہ فراہم نہ کرنے سے فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ دنیا بھر میں بھوک اور انسانوں کی بے دخلی کی شرح ریکارڈ سطح پر ہے، جب کہ دہشت گردی، پرتشدد انتہا پسندی اور سرحد پار جرائم نے عالمی سلامتی کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سفارت کاری ہمیشہ تنازعات کو روکنے میں کامیاب نہیں رہی، لیکن اس میں اب بھی انہیں روکنے کی طاقت موجود ہے۔‘‘
اس منظور شدہ قرارداد میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج پرامن ذرائع جیسے مذاکرات، تحقیق، ثالثی، مصالحت، ثالثی عدالت، عدالتی فیصلے، علاقائی انتظامات یا دیگر پرامن ذرائع کے استعمال پر زور دیا گیا ہے۔
اجلاس کی صدارت کرنے والے پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے غزہ پٹی اور کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پرامن حل ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا، ’’دنیا بھر میں جاری بیشتر تنازعات کی جڑ کثیرالجہتی نظام کا بحران ہے، نہ کہ اصولوں کی ناکامی۔ اس کی وجہ اداروں کا مفلوج ہونا نہیں بلکہ سیاسی عزم اور سیاسی جرأت کی کمی ہے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان، مقبول ملک