جاپان میں5 جولائی کو خوفناک سونامی اور زلزلے کا امکان ہے ، بابا وانگا کی پیشگوئی
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
جاپان(اوصاف نیوز)بابا وانگا ایک بلغارین نابینا پیش گو بابا وانگا نے جولائی 2025 میں جاپان میں ایک بڑے سونامی یا زلزلے کی پیش گوئی کی ہے۔
ان کی اس پیش گوئی نے بین الاقوامی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، جس کے نتیجے میں جاپان کی سیاحت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ریو تاتسوکی یا بابا وانگا کی مشہور پیش گوئیاں ’The Future I Saw‘ میں انہوں نے 5 جولائی 2025 کو ایک بڑی قدرتی آفت کی نشاندہی کی ہے۔ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ سونامی یا زلزلہ جاپان اور فلپائن کے درمیان زیرِ سمندر ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کے سبب آ سکتا ہے۔
اگرچہ ان کی پیش گوئی کو سائنسی اعتبار سے کوئی بنیاد حاصل نہیں، تاہم ان کا ماضی کا ریکارڈ، خصوصاً 2011 کے توہوکو زلزلے اور سونامی کی درست پیش گوئی، ان کے مداحوں اور عام لوگوں میں ان کی ساکھ کو مضبوط کرتا ہے۔
سیاحت پر اثرات
ریو تاتسوکی کی پیش گوئی کے بعد جاپان آنے والی بین الاقوامی پروازوں کی بکنگز میں 83 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ خاص طور پر ہانگ کانگ اور دیگر مشرقی ایشیائی ممالک سے آنے والے سیاحوں نے جولائی میں جاپان کا سفر منسوخ یا ملتوی کر دیا ہے۔
ایک ہانگ کانگ کی ٹریول ایجنسی کے مطابق، اپریل-مئی کے دوران جاپان کی بکنگز میں 50 فیصد کمی آئی ہے، اور جولائی کے لیے بکنگز میں زبردست گراوٹ دیکھی گئی ہے۔
جاپانی حکومت کا ردعمل
جاپانی حکام اور سائنسدانوں نے اس پیش گوئی کو بے بنیاد قرار دیا ہے، اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں۔ ماہرین کا اتفاق ہے کہ قدرتی آفات کی پیش گوئی ابھی تک ایک ناممکن کام ہے، اور فیصلے سائنس کی بنیاد پر ہی کیے جانے چاہئیں۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان پیش گوئیوں کو سنجیدگی سے نہ لیں کیونکہ اس پیشگوئی کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔ میاگی پریفیکچر کے گورنر یوشیہیرو مورائی نے کہا، ’اگر سوشل میڈیا پر پھیلنے والی بے بنیاد افواہیں سیاحت کو متاثر کرتی ہیں تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ عوام کو فکر ہو، کیونکہ جاپانی عوام خود ملک چھوڑ کر نہیں جا رہے۔‘
جاپان میں زلزلوں کا خطرہ بہرحال موجود
اگرچہ بابا وانگا کی کی پیش گوئی کو حکام اور سائنسدانوں نے مسترد کیا ہے، جاپان کی حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ ملک زلزلوں کے شدید خطرے سے دوچار ہے۔ اپریل 2025 میں ایک حکومتی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر جاپان کے بحرالکاہل کے ساحل پر بڑا زلزلہ آیا تو تقریباً 2 لاکھ 98 ہزار افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
جاپان ’Ring of Fire‘ میں واقع ہے، جو زمین کی سب سے زیادہ زلزلہ خیز پٹی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سائنسی علم کے مطابق زلزلوں کا وقت اور جگہ درست طور پر بتانا ممکن نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بابا وانگا نے بھی عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان کی پیش گوئیوں کو حد سے زیادہ سنجیدہ نہ لیں اور ماہرین کی آراء پر بھروسا کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے کام کا مقصد صرف آگاہی ہے، خوف و ہراس پھیلانا نہیں۔
پنجاب میں سولر پینلز کی تنصیب کیلئے قواعد و ضوابط جاری،شہری ایس او پیز پر عمل کریں، پی ڈی ایم اے
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی پیش گوئی بابا وانگا
پڑھیں:
جاپانی مارکیٹ سے پاکستانی طلبا کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
جاپان نے سال 2023 میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 3 لاکھ بین الاقوامی طلبا کو خوش آمدید کہا، جو 2022 کے مقابلے میں 20.8 فیصد زائد تعداد بنتی تھی، جاپانی حکومت کا ہدف ہے کہ وہ آئندہ چند برسوں تک اس تعداد کو بڑھا کر 4 لاکھ کیا جائے۔
اس تناظر میں پاکستانی طلبا کے لیے جاپان ایک پرکشش تعلیمی اور کاروباری ملک ثابت ہو سکتا ہے، جہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپس اور مالی معاونت کے کئی مواقع دستیاب ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی طلبا جاپانی تعلیمی اداروں کی مارکیٹ سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں:
اس حوالے سے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر عدنان پراچہ کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی کا خواب ہے کہ وہ بیرون ملک نہ صرف تعلیم بلکہ بہتر روزگار کے مواقع بھی حاصل کرے، ایسے میں اگر جاپان کی بات کی جائے تو یہ ملک دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں شمار ہوتا ہے، اور جاپانی پاسپورٹ عالمی سطح پر طاقتور ترین پاسپورٹس کی فہرست میں شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 2 سے 3 سالوں کے دوران جاپان کو نوجوان ورک فورس کی شدید ضرورت رہی ہے، جاپانی حکومت سالانہ تقریباً 3 لاکھ افراد پر مشتمل لیبر فورس کی تلاش میں ہے اور وہ مختلف ممالک سے تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اس موقع سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا پا رہا۔
’اس کی ایک بڑی وجہ پاکستانی نوجوانوں کی قلیل مدتی منصوبہ بندی ہے، تعلیم کے لیے جاپان جانے والے اکثر طلبا جاپانی زبان سیکھے بغیر صرف انگریزی میڈیم یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں، حالانکہ انہیں چاہیے کہ وہ جاپانی زبان سیکھ کر جائیں تاکہ نہ صرف تعلیمی میدان میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں بلکہ جاب مارکیٹ میں بھی مؤثر طریقے سے داخل ہو سکیں۔‘
مزید پڑھیں:
عدنان پراچہ کے مطابق زبان پر عبور حاصل کرنے والے طلبا کو جاپان میں بہتر انٹرن شپ، جزوقتی ملازمتیں اور بعد از تعلیم نوکریوں کے مواقع بھی باآسانی حاصل ہو سکتے ہیں، ان طلبا کے لیے بھی سنہرا موقع موجود ہے جو طویل عرصے کی ڈگری پروگرامز کا ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ جاپان کے کئی تعلیمی ادارے ایسے کورسز آفر کر رہے ہیں جن میں طلبا ایک سال میں جاپانی زبان سیکھ سکتے ہیں۔
’اس ایک سال کے دوران نہ صرف زبان پر عبور حاصل ہوتا ہے بلکہ طلبا کو جاپانی ماحول سے بھی آشنائی ہو جاتی ہے، جو کہ مستقبل میں جاب حاصل کرنے کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے، جاپان اپنی قومی زبان کو بہت اہمیت دیتا ہے، اس لیے وہاں جا کر کامیاب ہونے کے لیے جاپانی زبان سیکھنا ناگزیر ہے، چاہے مقصد تعلیم ہو یا روزگار۔‘
مزید پڑھیں:
عدنان پراچہ نے مزید کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ جاپان میں پاکستانی سفارتخانہ اس حوالے سے پہلے سے زیادہ متحرک ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ 2 سالوں میں پاکستان سے نوجوانوں کی مطلوبہ تعداد میں جاپان روانگی نہیں ہو سکی، جبکہ ہمارے ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں نوجوان جاپانی تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کا حصہ بن رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور تعلیمی ادارے اس خلا کو محسوس کریں اور نوجوانوں کے لیے جاپان جانے کے مواقع کو آسان بنائیں۔ اسکالرشپس، زبان سیکھنے کے پروگرامز، اور ویزا رہنمائی جیسی سہولیات فراہم کر کے ہم اپنی یوتھ کو ایک محفوظ، باوقار اور روشن مستقبل کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔
پاکستانی طلبا کے لیے جاپان میں کس قسم کے اسکالرشپس کے مواقع موجود ہیں؟پاکستانی طلبا کے لیے سب سے نمایاں اسکالرشپ میکسٹ ہے، جو جاپانی حکومت کی جانب سے پیش کی جاتی ہے، یہ اسکالرشپ مکمل ٹیوشن فیس، رہائش، اور ماہانہ وظیفہ فراہم کرتی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 25-2023 کے دوران 11 پاکستانی طلبا کو یہ اسکالرشپ دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ جیسو اسکالرشپ بھی ہے، جس کے تحت ماہانہ 48 ہزار ین فراہم کیا جاتا ہے، جاپان کی کئی یونیورسٹیاں، جیسے کیوٹو، ہوکائیڈو اور یوکوہاما نیشنل یونیورسٹی غیر ملکی طلبا کے لیے انگریزی میں پڑھائے جانے والے پروگرام اور اندرونی اسکالرشپس بھی فراہم کرتی ہیں۔
جاپان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو پارٹ ٹائم کام کی بھی اجازت ہوتی ہے، جہاں وہ ہفتہ وار 28 گھنٹے کام کرسکتے ہیں۔ یہ سہولت طلبا کو اپنے اخراجات پورے کرنے میں مدد دیتی ہے، تعلیمی معیار، جدید تحقیق، اور ثقافتی تنوع کی وجہ سے جاپان اب پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک نمایاں تعلیمی مرکز بنتا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی طلبا جاب جاپان مارکیٹ