پاکستان میں نئے ڈیموں کی تعمیر کا فیصلہ، کمیٹی قائم
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
بھارت کی آبی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے اپنے آبی وسائل بڑھانے اور نئے ڈیموں کی تعیمر کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں آبی وسائل سے متعلق امور پر اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے شرکت کی اور یک زبان ہو کر بھارتی آبی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے وفاق کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اجلاس میں پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیمز بنانے کے حوالے سے لائحہ عمل پر تفصیلی غور کیا گیا۔ متعلقہ حکام نے ملک میں آبی وسائل اور دریاؤں پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا کام جاری ہے جو 2032 تک مکمل کر لیا جائے گا جب کہ مہمند ڈیم 2027 میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ اس وقت ملک میں 11 ڈیمز ہیں جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 15.
وزیراعظم نے پاکستان میں مزید نئے آبی ذخائر بنانے اور ان کی فنڈنگ کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے کے احکامات جاری کیے۔
اس کمیٹی میں چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم آزاد کشمیر اور متعلقہ وفاقی وزرا بھی شامل ہوں گے۔
یہ کمیٹی نئے ڈیمز کی تعمیر کیلیے فنڈنگ کے حوالے سے مختلف حکمت عملی کا جائزہ لےگی اور سفارشات مرتب کر کے 72 گھنٹوں میں وزیراعظم کو پیش کرے گی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بھارت کی سندھ طاس معاہدےکی یکطرفہ معطلی آبی جارحیت ہے۔ معرکہ حق کی طرح بھارت کو اُس کی آبی جارحیت کا جواب بھی دیں گے۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں لیے گئے فیصلوں کے تحت بھارت کو جواب دیا جائے گااور پاکستان اس معرکہ میں بھی فتح سے ہمکنار ہوگا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ وفاق اور صوبوں سمیت ملک کی تمام اکائیوں کو پانی کے نئے ذخائر کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔ نئے ڈیمز کی تعمیر تمام صوبوں کے اتفاق رائے سے ہوگی اور غیر متنازع ذخائر کی تعمیر کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
بڑھتی آبادی، انتظامی ضروریات کے باعث نئے صوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں، عبدالعلیم خان
وفاقی وزیر برائے مواصلات عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ نئے صوبوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتی ہوئی انتظامی ضروریات نئے صوبوں کے قیام کو ایک فوری قومی تقاضا بناتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے موجودہ 4 صوبوں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو 3 نئے انتظامی حصوں میں تقسیم کریں، جن کے نام شمال، مرکز، اور جنوب رکھے جائیں، جب کہ ان کی اصل صوبائی شناخت برقرار رہے۔
I firmly believe that Pakistan’s growing population and expanding administrative needs make the creation of new provinces an urgent national requirement.
It is time to reorganize our four existing provinces — Punjab, Sindh, Khyber Pakhtunkhwa, and Balochistan — into three new…
— Abdul Aleem Khan (@abdul_aleemkhan) October 31, 2025
عبدالعلیم خان استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے صدر اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اتحادی ہیں، انہوں نے اپنی تجویز کو بہتر طرزِ حکمرانی کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی انتظامی از سرِ نو تقسیم سے حکومت عوام کے زیادہ قریب آئے گی، عوامی خدمات کی فراہمی زیادہ مؤثر بنے گی، اور چیف سیکریٹریز، انسپکٹر جنرلز پولیس اور ہائی کورٹس کو اپنی حدودِ کار میں بہتر انداز میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ دہائیاں گزر گئیں لیکن نئے صوبوں پر بحث صرف سیاست اور نعروں تک محدود رہی، اب وقت آ گیا ہے کہ سنجیدہ اور مشاورتی عمل کے ذریعے اس تصور کو حقیقت میں بدلا جائے۔
عبدالعلیم خان نے کہا کہ نئے صوبے بنانا پاکستان کو تقسیم نہیں کرے گا بلکہ قومی یکجہتی کو مضبوط، معاشی نظم و نسق کو بہتر اور متوازن علاقائی ترقی کے ذریعے استحکام کو فروغ دے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ آئیے ہم سب مل کر ایسے انتظامی طور پر قابلِ عمل اور عوامی مفاد پر مبنی صوبے قائم کریں، تاکہ ہر شہری کی آواز سنی جا سکے اور اس کے مسائل اس کی دہلیز پر حل ہوں۔
ایران کے سفیر سے ملاقات
بعد ازاں، ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سے ملاقات کے دوران، وفاقی وزیرِ مواصلات عبدالعلیم خان نے پاکستان اور ایران کے درمیان اشیائے تجارت کی سرحد پار نقل و حرکت کو مزید آسان بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 10 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے، اور یقین دلایا کہ ایرانی تجارتی ٹرکوں کی سرحدی داخلی و خارجی کارروائیوں سے متعلق تمام مسائل حل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔