کائنات ’بِنگ بینگ تھیوری‘ کے بعد وجود میں نہیں آئی، محققین کا متنازع دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
دہائیوں سے سائنس دانوں کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ یہ کائنات ایک بہت بڑے دھماکے بِگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔
لیکن اب محققین کے ایک گروہ نے متنازع دعویٰ کیا ہے کہ اس کائنات کے وجود میں آنے کے متعلق ہم جو بھی کچھ سمجھتے ہیں عین ممکن ہے وہ سب غلط ہو۔
ایک نئے تحقیقی مقالے میں یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے پروفیسر اینرکے گیزٹاناگا اور ان کے شریک مصنفین نے ’بلیک ہول یونیورس‘ کا ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے۔
محققین نے دعویٰ کیا کہ یہ کائنات ایک گریویٹیشنل کرنچ کے سبب وجود میں آئی، جس سے ایک بہت بڑا بلیک ہول بنا اور پھر اس نے اِجرام اُگلے۔
پروفیسر اینریکے نے دعویٰ کیا کہ یہ نظریہ کائنات کے ڈھانچے کے متعلق ہر چیز کو ڈارک انرجی جیسے عنصر کی ضرورت کے بغیر بیان کر سکتا ہے۔
یوکلیڈ جیسے ناسا کے مشنز ممکنہ طور اس نظریے کی تصدیق کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ جس میں بلیک ہول یونیورس نظریے کے درست ہونے کے حوالے سے واضح اشارے مل سکیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خلیل الرحمٰن قمر کا متنازع ’’طاغوت اسکینڈل‘‘ سے متعلق تہلکہ خیز انکشاف
معروف ڈرامہ نویس اور شاعر خلیل الرحمٰن قمر نے پچھلے سال کے سب سے متنازع وائرل ہونے والے ’طاغوت اسکینڈل‘ کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشاف کیا ہے۔
ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن نے بتایا کہ وہ شو جس میں معروف اسلامی اسکالر ساحل عدیم اور ایک نوجوان خاتون کے درمیان لفظی جھڑپ ہوئی تھی، دراصل وہ واقعہ ’’پری پلانٹڈ‘‘ تھا، یعنی سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پروگرام میں جو کچھ ہوا، وہ سب اچانک نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ساحل عدیم نے خواتین کو جاہل کہا، وہ مداخلت کرنے والے ہی تھے تاکہ اس بات کو واضح کرسکیں کہ جہالت کا تعلق صرف خواتین سے نہیں، بلکہ وہ ہر اس شخص کو جاہل سمجھتے ہیں جس نے قرآن کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ مگر اُن کے بولنے سے پہلے ہی ایک لڑکی نے مداخلت کی، اور یوں بحث کا رخ بگڑ گیا۔
خلیل الرحمٰن قمر نے یہ بھی بتایا کہ انہیں حیرت ہوئی جب ایک خاتون نے ساحل عدیم جیسے اسکالر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ ان کے مطابق، ہر انسان سے غلطیاں ہوسکتی ہیں، اور اس موقع پر ان کے غصے کی اصل وجہ یہی بے ادبی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پروگرام بنانے والوں کا مقصد ماحول کو اشتعال دلانا اور مخصوص ردِعمل حاصل کرنا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔
گزشتہ برس جون میں نشر ہونے والے اس پروگرام میں شامل ہونے والے اسکالر ساحل عدیم نے خواتین پر سخت تبصرے کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 100 خواتین کا جائزہ لیا جائے تو 95 فیصد کو وہ جاہل پاتے ہیں، جنہیں صرف میک اپ اور ٹک ٹاک کا شوق ہے، اور وہ ’’طاغوت‘‘ جیسے بنیادی اسلامی تصور سے بھی ناواقف ہیں۔
ان کے اس بیان پر شو میں شریک لڑکی ازبحہ عبداللہ نے احتجاج کیا اور ساحل عدیم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران دونوں جانب سے تیز و تند جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ساحل عدیم نے اس لڑکی سے سوال کیا کہ کیا وہ ’’طاغوت‘‘ کا مطلب جانتی ہے؟ جب لڑکی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہی جہالت ہے اور اسے تسلیم کرنا چاہیے۔
بات یہاں رکی نہیں۔ لڑکی نے جواب دیا کہ خواتین کو علم سے دور رکھنے والا معاشرہ خود پدر سری نظام کا نتیجہ ہے، مگر ساحل عدیم اس مؤقف سے متفق نہ ہوئے اور اپنی بات پر قائم رہے کہ جہالت کا نام لینا اسلام کا فرض ہے۔ جب لڑکی نے حوالہ مانگا تو انہوں نے حدیث کا حوالہ دیا کہ جاننے اور نہ جاننے والے برابر نہیں، اور جہالت کا انجام گڑھے میں گرنا ہوتا ہے۔
بحث کے دوران خلیل الرحمٰن قمر بھی اپنا سکون کھو بیٹھے۔ انہوں نے لڑکی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عربی آیات سن کر تکلیف ہو رہی ہے تو یہ ناقابلِ برداشت ہے۔ انہوں نے میزبان سے کہا کہ لڑکی کا مائیک چھین لیں، اور اس لمحے نے پورے پروگرام کو مزید تنازعے کا شکار بنا دیا۔
یہ واقعہ جلد ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ جہاں کچھ لوگوں نے لڑکی کی جرأت کی تعریف کی، وہیں خلیل الرحمٰن قمر، ساحل عدیم اور میزبان کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تقریباً ایک سال بعد، خلیل الرحمٰن قمر کا یہ انکشاف کہ پورا واقعہ ’’منصوبہ بندی‘‘ کے تحت رونما ہوا، اس تنازعے کو ایک نیا رخ دے رہا ہے۔