ریا چکرورتی کی وجہ سے بھائی کا کریئر کیسے تباہ ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT
ریا چکرورتی بالی وڈ کی ایک ابھرتی ہوئی اداکارہ تھیں جو اس وقت لائم لائٹ میں آئیں جب ان کے بوائے فرینڈ سشانت سنگھ راجپوت نے مبینہ طور پر اپنی جان لے لی۔
اداکارہ ریا چکرورتی پر اپنے اس وقت کے بوائے فرینڈ سشانت سنگھ راجپوت کو خودکشی پر اکسانے کا الزام تھا۔
تاہم حال ہی میں شانت سنگھ راجپوت کیس سے بری ہونے کے بعد ریا نے انکشاف کیا کہ اداکار کی موت اور اس کے بعد ہونے والی جانچ پڑتال کے باعث ان کی زندگی کس طرح تباہ ہو گئی۔
ریا اور ان کے بھائی شووک چکرورتی دونوں کو تفتیس کے دوران جیل جانا پڑا تھا اور اداکارہ کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے ان کا کریئر ختم ہو گیا۔
View this post on InstagramA post shared by Rhea Chakraborty (@rhea_chakraborty)
غیرملکی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے ریا نے بتایا کہ ‘جب ہم اس سانحے سے گزرے تو میرا اور میرے بھائی ہم دونوں کا کریئر ختم ہو گیا ےجا کیونکہ مجھے اداکاری کا کوئی کام نہیں مل رہا تھا اور شووک نے CAT (کامنز ایڈمیشن ٹیسٹ) میں 96 فیصد حاصل کیے تھے لیکن یہی وہ وقت تھا جب اسے گرفتار کر لیا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘جب شووک جیل سے باہر آیا تو پہلا سمسٹر پہلے ہی گزر چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کا ایم بی اے کریئر اور اس کی مستقبل کی منصوبہ بندی بھی ختم ہو گئی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘شووک کے لیے بعد میں کسی بھی کارپوریٹ میں نوکری حاصل کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ کوئی بھی ایسے شخص کو نوکری پر نہیں رکھنا چاہتا تھا جس کے ارد گرد اتنا بڑا میڈیا ٹرائل ہو‘۔
ریا نے بتایا کہ ‘کچھ عرصے تک ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ہماری زندگی میں آگے کچھ ٹھیک بھی ہوگا یا آگے کیا ہوگا؟ تاہم ہم نےیقین کا سفر جاری رکھا‘۔
واضح رہے کہ ریا اور شووک کو آخر کار سشانت سنگھ راجپوت کیس میں کلین چِٹ دے دی گئی تھی مگر جہاں شووک عوام کی نظروں سے دور رہ رہے ہیں وہیں ریا دوبارہ کام پر واپس آ گئی ہیں۔
اداکارہ حال ہی میں انہیں ‘روڈیز’ میں نظر آئیں جس کے ساتھ انہوں نے اپنا ایک پوڈ کاسٹ بھی شروع کیا ہے جس میں انہوں نے عامر خان، سشمیتا سین، فرحان اختر، ہنی سنگھ اور دیگر مشہور شخصیات کا انٹرویو کیا ہے۔
کیس کے بارے میں
اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد ریا چکرورتی پر مختلف الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں خودکشی کے لیے اکسانا، ذہنی اذیت پہنچانا،اور سشانت کے پیسوں کی چوری بھی شامل تھی۔
ان تمام الزامات کے تناظر میں پولیس کی جانب سے بالی وڈ اداکارہ ریا چکرورتی اور ان کے بھائی کو سال 2020 میں منشیات کے کیس میں نارکوٹکس کنٹرول بیورو (NCB) نے گرفتار کیا تھا۔
سشانت سنگھ راجپوت کی موت 14 جون 2020 کو ہوئی تھی جس کے بعد سشانت کے والد نے ریا چکرورتی کے خلاف یہ الزام لگایا تھا کہ وہ سشانت کو خودکشی کے لیے اُکسا رہی تھیں جس کے بعد ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) نے بھی دونوں بھائی بہن پر دھوکہ دہی کے الزامات لگا کر تفتیش کی تھی۔
بعد ازاں اس کیس کو سینٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن (CBI) نے ٹیک اوور کیا جس کے بعد 2023 میں CBI نے اس کیس کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سشانت سنگھ راجپوت کی موت خودکشی تھی اور اس میں کسی قسم کی بدعنوانی یا قتل کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
سی بی آئی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سشانت کو کسی نے خودکشی کرنے کی ترغیب نہیں دی تھی اور ان کے مرنے کے پیچھے کوئی سازش نہیں تھی۔ عدالتی فیصلے کے بعد ریا چکرورتی اور ان کے بھائی شوئیک چکرورتی کو رہا کردیا گیا تھا۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ریا چکرورتی اور ان کے انہوں نے کے بعد کی موت اور اس
پڑھیں:
معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
دنیا کا کاروبارِ زندگی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کرہ ارض‘ حقیقت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ عرض کرنے کا مدعا ہے کہ یہ تمام دنیا Physical laws پر مبنی ہے۔ عمل اور رد عمل کا قانون ہر طریقہ سے لاگو ہے۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور سائنسی انقلاب کے بعد‘ دنیا میں پہلی مرتبہ Nation Statesکی شروعات ہوئیں۔ اس سے قبل مملکتیں ‘ کسی بھی مخصوص سرحد کے بغیر چل رہی تھیں اور آنے جانے کے معاملات یکسر مختلف تھے۔
ویزہ یا پاسپورٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ فرانس ‘ جرمنی اور یوکے کے چند فلسفیوں کی سوچ نے دنیا کی تشکیل نو کر دی۔ بدقسمتی سے‘ اس جوہری تبدیلی میں مسلمانوں کا کسی قسم کا حصہ نہیں تھا۔ ویسے یہ المیہ‘ صدیاں گزرنے کے باوجود‘ آج بھی اپنی ہیئت میں بالکل قائم ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا میں‘ مسلمان‘ بالکل اجنبی سے تھے۔ فکری طور پر متحد اور ترقی کرنے کے لیے‘ کسی قسم کا کوئی سہارا موجود نہیں تھا۔ جدید تعلیم اور سائنس سے ویسے ہی ہمیں کوئی غرض نہیں تھی۔
اس جھول کا فائدہ‘ سب سے زیادہ ہمارے مذہبی طبقے نے اٹھایا۔ برصغیر کی حد تک معاملات کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ عام لوگوں سے کوئی سنجیدہ انتقامی بدلہ لے رہے ہیں۔ جدید علوم کوحرام قرار دے دیا گیا۔انگریزی تعلیم کو کافر کی زبان بتایا گیا۔ ضعیف العتقادی اور جہالت کو اوڑھنا بچھونا بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی طور پر مسلمان اور بالخصوص برصغیرکے مسلمان ‘ سائنسی انقلاب اور جدت پسندی سے دور ہوتے گئے۔ اور ایک مخصوص دائرہ میں زندگی گزارنے لگے۔ باورکروایا گیا کہ ہمارا دین خطرے میں ہے۔
دنیا ہمارے خلاف ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی تبدیلی لانے والی سوچ کفر کے نزدیک لے جاتی ہے۔ یہ بیانیہ‘ ہمارے ڈی این اے کا حصہ بنا دیا گیا۔ مغرب کی اعلیٰ ترین درس گاہوں سے تعلیم یافتہ‘ چند بلند پایہ لوگ‘ اس معاملہ کو بھانپ گئے اور ان کی حد درجہ محنت بلکہ ریاضت کی بدولت‘ پاکستان وجود میں آیا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کے حصول اور ہمارے سیاسی اکابرین کے خلاف ‘ سب سے مہلک محاذ‘ مذہبی طبقے نے ہی قائم کیا۔ آپ ہمارے کسی لیڈر کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیجیے۔ مذہبی طبقے نے ان کی ذاتی زندگی سے لے کر سیاسی سوچ‘ سب میں کیڑے نکالے۔ انھیں ملحد‘کافر اور مسلمانوں کا دشمن قرار دیا گیا۔ سرسید احمد خان‘ علامہ اقبال اور قائداعظم سب تختہ مشق بنے۔
پاکستان تو بن گیا مگر وہ لبرل سوچ‘ جس کا ذکر بار بار اس ملک کو بنانے والوں نے کیا تھا اسے پنپنے نہیں دیا گیا۔ کمال یہ ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے قائدین‘ جو پاکستان بنانے کے خلاف تھے، نیا ملک بنتے ہی‘ بڑے اطمینان سے ہندوستان چھوڑ کر نئے ملک میں بس گئے۔ یہاں آ کر انھوں نے ماضی کا چلن نہیں بدلا۔ فرقہ پرستی‘ جذباتیت ‘ حقیقت پسندی سے اجتناب اور بے یقینی کی فضا کو اتنی ہوا دی کہ بحیثیت قوم‘ ہمیں پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے۔
پوری قوم کی فطرت میں یہ نکتہ منجمد کر دیا گیا کہ ہمارے بچنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم قدامت پسندی کو اپنا وطیرہ بنا لیں۔ ملکی سیاست دان اتنی سنجیدہ سوچ کے مالک تھے ہی نہیں کہ اس باریک عمل کو سمجھ پاتے جس کو عقیدت کا لبادہ بھی پہنا دیا گیا ۔ پاکستان میں ایک ایسا عمل پیہم ہوا جو پوری دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی اداروں نے چند مذہبی حلقوں کو ساتھ ملا کر‘ عام لوگوں کی مزید منفی ذہن سازی کر ڈالی اور اس چلن سے اقتدار پر دائم قبضہ کر لیا۔ جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ اس کا ادراک ہمارے ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے۔
یہ معاملہ عام آدمی کو اس طرح معلوم پڑا جس مذہبی طبقہ کو ہم نے ریاست کی سوچ کے مطابق‘ کشت و خون کرنے کے لیے استعمال کیا تھا،وہ اپنا بنیادی کام کرنے کے بعد ہمارے ملک پر ہی پل پڑے۔ دہشت گردی کا جن‘ پاکستان کے ہر کونے میں برہنہ ہو کر رقص کرنے لگا۔ جب یہ سمجھ آئی کہ ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔تو دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی جو آج بھی جاری وساری ہے۔ مگر اسی اثناء میں ‘ بین الاقوامی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ نے مسلمان دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ حماس‘ جو کہ الفتح کے مقابلہ میں اسرائیل ہی کے چند اداروں نے کھڑی کی تھی۔
جس کے متعلق مسلسل لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ ان کا غزہ کو برباد کرنے میں کلیدی کردار ہے۔ اس نے اسرائیل کے شہریوں پر حملہ کر کے اس ملک کو وہ جواز مہیا کیا‘ جو یکسر‘ ان کے حق میں تھا۔ ذرا سوچئے کہ حماس کے بے ربط حملوں سے غزہ کو کتنی بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ پورا شہر‘ مٹی اور لاشوں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ حماس کے اس ناپختہ قدم سے غزہ کو حد درجہ نقصان پہنچا۔ مگر ہمارے جیسے ملک میں‘ اس باریک نقطہ پر بات کرنے کو مشکل تر بنا دیا گیا۔ بلکہ یہاں اس معاملہ پر کھل کر غیر متعصب سوال کرنے کو ہی پیچیدہ تر بنا ڈالا گیا۔ اب ہوا کیا۔
ہمارا ملک‘ ایک تو دہشت گردوں کے نرغہ میںسانس لینے پر مجبور ہو گیا اور دوسرا ہم حماس اور اسرائیل کی جنگ میں ایک ایسے فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے جن کا قصور بھی زیادہ تھا اور وہ اپنے ہی مسلمان شہریوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے تھے۔ ہمیں ذہنی دھچکا اس وقت لگا جب ہمارے سب سے قریبی دوست مسلم ممالک نے ‘ اسرائیل کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ فلسطین کے مسئلہ سے مونہہ پھیر چکے تھے۔
وہ سمجھ چکے تھے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے زمینی حقائق کے مطابق قدم اٹھانے پڑیں گے۔متحدہ عرب امارات اور متعدد‘ مشرق وسطیٰ کے ممالک‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے لگے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور نے Abrahamic Accords کاڈول ڈالا ۔ اور پھر معاملات جوہری طور پر تبدیل ہو گئے۔ امریکا کے موجودہ صدر‘ اسرائیل کے حد درجہ ثابت قدم دوست ثابت ہوئے۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا سب سے زیادہ فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور وہ اسرائیل کے ساتھ مثالی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی حالیہ جنگ میں اسرائیلی ماہرین‘ ہندوستان میں موجود تھے اور انھوں نے اپنے ڈرون ‘ ہمارے ہر علاقے میں کامیابی سے بھجوائے ۔ ریاستی ادارے‘ موجودہ حالات کو بھانپ چکے ہیں۔ انھوںنے اپنا طرز عمل‘ ایک سو اسی ڈگری کے زاویہ سے تبدیل کر لیا ہے۔ ابراہیمک معاہدے کا کیا کرنا ہے؟ دشت گردی کے ناسور کو کیسے جسم سے کاٹنا ہے؟ ملک کے اندر جاری و ساری شدت پسندی کو کس طرح اعتدال پر لے کر آنا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
دلیل کی بنیاد پر عرض کرتا چلوں کہ ملک کے وجود کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ مگر جو سوچ ہم نے خود پروان چڑھائی تھی‘ اس کو تبدیل کیسے کرنا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں‘ ایک مذہبی جماعت کے جلوس کے ساتھ ‘ جو سلوک روا رکھا گیا اس سے یہ عنصر عیاں ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے‘ اب مذہبی شدت پسندی سے اپنے آپ کو دور کر رہے ہیں۔ سیاست دان‘ اتنے کمزور ہیں کہ وہ معاملات کو صرف ریاستی اداروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کے اندر خوف بھی ہے کہ کہیں تشدد پسند حلقے ‘ ان کا وجود ہی ختم نہ کر دیں۔ یہ خدشہ بہرحال موجود ضرور ہے۔
موجودہ صوت حال نازک ضرور ہے‘ مگر ان تمام معاملات کا حل موجود ہے۔ دفاعی ادارے بالکل درست سمت میں کام کر رہے ہیں۔ مگر ان کے مثبت اقدامات کو موجودہ سیاسی ڈھانچہ کی معاونت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاؤں نمک کے ہیں اور وہ مسائل کے پانی میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ حل کیا ہے؟ کیا ہونا چاہیے ؟ یہ مسئلہ بھی ہے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر حتمی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ موجودہ سیاسی نظام ‘ مسائل کو بڑھا تو سکتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ اور پھر یہ موجودہ لوگ اتنے کائیاں ہیں کہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے‘ دفاعی اداروں کو عوام کے ساتھ متصادم راہ پر دھکیلنا چاہتے ہیں۔
دانشمندی یہی ہے کہ اندرونی سیاسی خلفشار کو ختم کیا جائے۔ جس سیاست دان کو عوامی پذیرائی حاصل ہو‘ اسے ‘ نظام کا حصہ بنایا جائے۔ پھر بغیر کسی تردد کے اپنے ملک کے قومی مفاد میں انقلابی اور دور رس فیصلے کیے جائیں‘ جن سے ہمارے ملک کے دشمنوں کی تعداد میں کمی ہو سکے۔حکمت یہی ہے کہ سب فریقین کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ اس خطرناک شدت پسند سوچ کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں‘ جو ہمارے ملک کو یرغمال بنا چکی ہے۔ یہ وقت‘ کسی انتقام کا نہیں‘ بلکہ دانش مندی اور حکیمانہ فیصلوں کا ہے! مگر اس وقت تو مجھے سنجیدہ سوچ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ دیکھیے ۔ آگے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟