ایران پر نئی امریکی پابندیاں‘ 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک)امریکی محکمہ خزانہ نے ایران سے متعلق نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا، جن کے تحت 10 ایرانی افراد اور 27 اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے۔ پابندیوں کی زد میں آنے والوں میں کم از کم 2کمپنیاں ایسی بھی شامل ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق ایران کی قومی آئل ٹینکر کمپنی سے ہے۔وزارتِ خزانہ کے ماتحت غیر ملکی اثاثوں پر نظر رکھنے والے دفتر نے ان کمپنیوں کو خصوصی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے امریکا میں موجود تمام اثاثے منجمد ہو گئے ہیں۔یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ تہران کے ساتھ نیا جوہری معاہدہ طے کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 12 اپریل سے اب تک امریکا اور ایران کے درمیان عمان کی ثالثی میں 5 مرحلوں پر مشتمل مذاکرات ہو چکے ہیں، جن کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر کسی نئے معاہدے تک پہنچنا ہے۔تاہم بات چیت کے ان ادوار کے ساتھ ایک نمایاں اختلاف بھی برقرار ہے، جو ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت سے متعلق ہے۔ امریکا اس پر مکمل پابندی چاہتا ہے، جبکہ ایران اسے اپنا ناقابلِ تنسیخ حق قرار دیتا ہے ۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔
تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔