بلوچستان کی خواتین بھی فٹنس کے سفر پر: کچن سے نکل کر جم تک کا خواب
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
بلوچستان کا سماج ایک قبائلی روایات پر مشتمل سماج ہے جہاں 21ویں میں بھی خواتین کو گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے کی ازادی نہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب سرزمین بلوچستان کی بیٹیاں مختلف شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔
پشتون معاشرے سے تعلق رکھنے والی نور صبا میں کوئٹہ میں خواتین کے لیے خصوصی جم کھولا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے صبا نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں فٹنس اور خواتین کا تصور بہت ناپختہ ہے۔ اگر آپ جم جانا چاہیں تو لوگ ہنستے ہیں، کہتے ہیں یہ خواتین کا کام نہیں۔ خواتین کا دائرہ کچن اور بچوں کی دیکھ بھال تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ مگر میں نے سوچا کہ نہیں ایک لڑکی کے لیے بھی ایک وسیع دنیا ہے۔
نور صبا کہتی ہیں کہ الحمدللہ، میری فیملی نے مجھے سپورٹ کیا۔ میرے والد، بھائی سب نے کہا کہ جو کرنا ہے کرو۔ خواتین کے لیے یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ فیملی سپورٹ کرے ورنہ وہ بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہیں۔
صبا آج نہ صرف خود ایک فعال فٹنس لائف گزار رہی ہیں بلکہ دیگر خواتین کو بھی ورزش کی ترغیب دے رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ابھی یہ سفر ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن جم میں روزانہ 50 سے زائد خواتین آتی ہیں۔
نور صبا نے کہا کہ بہت سی خواتین یہاں صرف فٹنس کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذہنی صحت کے لیے بھی آتی ہیں۔ کئی ڈاکٹر کے مشورے سے جم جوائن کرتی ہیں تاکہ ڈپریشن اور اوور تھنکنگ سے نکل سکیں۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں ایسے پلیٹ فارم کم ہیں جہاں خواتین اپنی جسمانی و ذہنی صحت بہتر بنا سکیں۔
نور صبا نے کہا کہ میری حکومت سے یہی درخواست ہے کہ بلوچستان کی خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ فٹنس کلب کھولے جائیں۔ زیادہ اویئرنیس پیدا کی جائے تاکہ جو خواتین گھروں میں بند ہیں، ان کو بھی ایک مثبت راہ مل سکے اور وہ انزائٹی و ڈپریشن سے نکل کر ایک بہتر زندگی جی سکیں۔
جہاں بلوچستان کی سرزمین میں روایات مضبوط ہیں، وہیں اب خواتین بھی ان روایات میں نئے رنگ بھرنے کو تیار ہیں۔ ان کے قدم نہ صرف ٹریڈ مل پر چل رہے ہیں بلکہ ترقی اور خود اعتمادی کے سفر پر بھی رواں دواں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان کی نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے حالانکہ وہ مساوی کام کر رہی ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں خواتین کھلاڑیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا، اقوام متحدہ نے کیا حل بتایا؟
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن نے ’مساوی اجرت کے عالمی دن‘ کے موقعے پر حکومتوں، آجروں اور محنت کش تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاشی ناانصافی کے خاتمے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اوسطاً خواتین کو دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں 20 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے جب کہ اقلیتی نسلی گروہوں، معذور خواتین اور مہاجر خواتین کے ساتھ یہ فرق اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: مخصوص ایام میں خواتین ایتھلیٹس کو درپیش چیلنجز: کھیل کے میدان میں ایک پوشیدہ آزمائش
اجرت یا تنخواہ کی یہ تفریق نہ صرف خواتین کی معاشی خودمختاری کو متاثر کرتی ہے بلکہ جامع اور پائیدار ترقی کے راستے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
یو این ویمن نے واضح کیا ہے کہ مساوی اجرت محض ایک سماجی یا معاشی مطالبہ نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کی توثیق آئی ایل او کنونشن 100 اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں کی گئی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ جب خواتین کو کم اجرت دی جاتی ہے تو یہ نہ صرف معاشی امتیاز ہے بلکہ انصاف، برابری اور باہمی تعاون کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
مزید پڑھیں: دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق
30 سال قبل، حکومتوں نے بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن میں مساوی اجرت کے لیے قانون سازی اور عملدرآمد کا وعدہ کیا تھا جسے بعد ازاں پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔
مگر اب جبکہ سنہ 2030 صرف 5 سال دور ہے یو این ویمن نے زور دیا ہے کہ رفتار بڑھائی جائے۔
حل کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی سفارشاتیو این ویمن نے درج ذیل ٹھوس اقدامات کی تجویز دی ہے۔ ان اقدامات میں شامل ہے کہ حکومتیں مضبوط قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائیں جو اجرت میں صنفی تفریق کو ختم کریں، آجر ادارے شفاف تنخواہی نظام اپنائیں اور صنفی مساوات پر مبنی آڈٹ کرائیں، محنت کش تنظیمیں اجتماعی سودے بازی اور سماجی مکالمے کو فروغ دیں اور تحقیقاتی ادارے اور نجی شعبہ ڈیٹا شفافیت اور احتساب میں کردار ادا کریں۔
یو این ویمن، عالمی ادارہ محنت اور او ای سی ڈی کے ساتھ مل کر ’مساوی اجرت اتحاد ‘ کی قیادت کر رہا ہے جو اس عالمی مسئلے کے حل کے لیے سرکاری و نجی سطح پر شراکت داری کو فروغ دیتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ وعدے کو عمل میں بدلا جائےیو این ویمن نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا ہے کہ اجرت میں برابری کی مخالفت دراصل انصاف کے اصولوں پر حملہ ہے۔
ادارے نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین جراتمندانہ اقدامات کے ساتھ اس ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ پرعزم ہوں تاکہ خواتین کو بھی وہی معاشی احترام ملے جو مردوں کو حاصل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خواتین سے امتیازی سلوک خواتین سے ناروا سلوک خواتین کی کم اجرت خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک مرد عورت میں تفریق