بجٹ میں پرانی گاڑیاں سستی ہونے کی خوشخبری، آٹو سیکٹر کے لیے ریلیف
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
وفاقی حکومت آئندہ بجٹ میں نیشنل ٹیرف پالیسی کے تحت پرانی گاڑیوں کی درآمد کو سستا کرنے کے لیے اہم اقدامات کرنے جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت نے آئی ایم ایف کو پرانی گاڑیوں پر ٹیکسز میں کمی کی تجویز پیش کر دی ہے، جس سے نہ صرف صارفین کو ریلیف ملے گا بلکہ آٹو انڈسٹری کو بھی فروغ ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں:دفاعی بجٹ اور تنخواہوں میں کتنا اضافہ تجویز کیا گیا؟ بجٹ دستاویز منظر عام پر آگئی
پرانی گاڑیوں کے لیے اہم مراعات– 5 سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے گی
– گاڑیوں پر ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی مرحلہ وار ختم کی جائے گی
– ریگولیٹری ڈیوٹیز میں کمی کی جائے گی
– پرانی گاڑیوں پر ٹیرف سالانہ 10 فیصد کم کیا جائے گا
– 2030 تک آٹو سیکٹر کا اوسط ٹیرف 6 فیصد تک لانے کا ہدف
کسٹمز ایکٹ میں اصلاحاتحکومت نے کسٹمز ایکٹ کے پانچویں شیڈول میں اصلاحات کی تجویز پیش کی ہے، جس کے تحت آٹو سیکٹر پر نئی ریگولیٹری ڈیوٹیز نہیں لگائی جائیں گی۔ اس کے علاوہ، نان ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے تاکہ گاڑیوں کی درآمد آسان ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں:ترقیاتی بجٹ 26-2025: پلاننگ کمیشن کے 4 ہزار 223 ارب روپے سے زائد کے قومی ترقیاتی منصوبے کیا ہیں؟
بجٹ کے دیگر اہم پہلوواضح رہے کہ آج قومی اسمبلی میں 22 ہزار ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیشکش کیا جائے گا، جس میں تقریباً 2 ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکسز بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ تاہم، آٹو سیکٹر کے لیے یہ اقدامات عوام اور کاروباری حلقوں کے لیے ایک خوش آئند قدم ہیں۔
اگر یہ تجاویز منظور ہو جاتی ہیں، تو پرانی گاڑیاں خریدنے کے خواہشمند افراد کو کافی ریلیف ملے گا اور ملک میں گاڑیوں کی دستیاری بھی بڑھے گی۔ اس کے ساتھ ہی، آٹو انڈسٹری کو فروغ ملنے سے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آٹو سیکٹر آٹوانڈسٹری بجٹ پرانی کار.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ٹو سیکٹر ا ٹوانڈسٹری پرانی کار پرانی گاڑیوں آٹو سیکٹر گاڑیوں کی کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟
بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس ختم کردی گئی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت جمعرات کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے اور پولیس نظام کو مزید فعال اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے مؤثر بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر خان، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون، پرنسپل سیکریٹری بابر خان اور اعلیٰ پولیس حکام شریک تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی
آئی جی پولیس نے اجلاس کو بلوچستان پولیس کو درپیش چیلنجز، امن و امان کی صورتحال، جرائم کے رجحانات اور آپریشنل ضروریات پر بریفنگ دی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کے عمل کو منظم اور تیز کیا جائے گا، جبکہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے درمیان رابطہ اور انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیوں کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ اور لیگل برانچ کے کردار کو بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں بہتری لائی جا سکے۔
وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے تمام ’بی ایریا‘ کو مرحلہ وار ’اے ایریا‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں 10 ارب روپے کی مالی معاونت کی منظوری دی ہے جو پولیس کی استعداد کار، تربیت، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور خصوصی فورسز کی مضبوطی پر خرچ کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا لیویز فورس میں انسداد دہشتگردی ونگ بننے جارہا ہے؟
وزیرِ اعلیٰ کے مطابق پولیس کی فضائی نگرانی، ڈرون سسٹمز اور نائٹ آپریشن صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ حکومتی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں کو پولیس میں منتقلی کے ساتھ گولڈن ہینڈ شیک اور نئی بھرتیوں کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے تک علاقائی امن بحال رہ سکے۔
بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے لیویز کے پولیس میں انضمام کو صوبے کے لیے ایک تاریخی اور حساس تبدیلی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے تناظر میں تفصیلی خدشات، سوالات اور راہِ حل پیش کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
ان کے مطابق لیویز کے جوان ابتدائی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کی سروس اسٹرکچر، تنخواہیں، پروموشن پالیسی، اور ریٹائرمنٹ فوائد کیا رہیں گے۔ یہ عدم وضوح فورس کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فوراً مفصل پالیسی دستاویز جاری کرنی چاہیے جس میں سروس ریکارڈ، پروموشن پاتھ، اور پے اسکیل میں واضح فرق نہیں آنے دیا جائے۔
ایک بار جب لیویز اہلکار شہری انتظامی ڈھانچے میں آئیں گے تو قبائلی یا دیہی اندازِ پولیسنگ سے شہری پولیسنگ پر منتقل ہونا ہوگا۔ اس کے لیے جامع تربیتی پروگرام، ڈیجیٹل ایف آئی آر اور عدالتی تعامل کی ٹریننگ، اور جدید تفتیشی مہارتوں کی فراہمی ضروری ہے۔
سید علی شاہ زور دیتے ہیں کہ محض کاغذ پر انضمام کافی نہیں، عملی تربیت اور مسلسل ایکسپوزر دینا ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ لیویز کے پاس پہلے ایف آئی آر درج کرنے، ثبوت محفوظ کرنے اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار کی تربیت محدود تھی۔ پولیس میں شمولیت کے بعد کرائم برانچ اور لیگل برانچ کو فوراً فعال کر کے تفتیشی معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ مقدمات عدالت میں مضبوط ہوں اور مجرمان کو سزا دلانے کا نظام فعّال ہو۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کا منصوبہ ناکام، لیویز فورس نے اسلحہ و گولہ بارود کی کھیپ پکڑی لی
بلوچستان کی جغرافیائی اور سماجی ساخت خیبرپختونخوا یا دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ سید علی شاہ نے باور کرایا کہ آئی جی اور مرکزی قیادت کو مقامی مہارت، قبائلی رواج، زبان اور ثقافتی معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دینی چاہئیں، بصورتِ دیگر آپریشنل ناکامی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
لیویز فورس 2010 کے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔ اسے پولیس میں ضم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی ضروری ہوگی۔ اس عمل میں حکومت کو اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین کی مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں شامل کیا گیا تھا لیکن 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔
صوبے میں امن و امان کا نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، ’اے ایریا‘ (شہری علاقوں) میں پولیس ذمہ دار جبکہ ’بی ایریا‘ (دیہی و قبائلی علاقوں) میں لیویز فورس تعینات تھی۔
لیویز فورس کے پاس صوبے کا تقریباً 82 فیصد علاقہ تھا، جبکہ پولیس صرف 18 فیصد حصے میں کام کر رہی تھی۔ لیویز کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اصلاحات بلوچستان پولیس سی ٹی ڈی لیویز فورس وزیراعلی سرفراز بگٹی