مالی سال 26-2025ء کی بجٹ تجاویز کیموفلاج ہیں، زبیر موتی والا
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
پوسٹ بجٹ کانفرنس میں تاجر رہنما نے کہا کہ اس سال نمو بڑھانے کی کیا تجویز ہے نظر نہیں آرہی، ای ایس ایف اچھی اسکیم تھی، اس پر بھی ٹیکس لگا دیا، پیدواری لاگت کی بات نہیں ہوئی، برآمدات صنعت کو بڑھانی ہے اس کا ذکر نہیں کیا، بجلی کے ریٹ کم کیے ہیں لیکن صنعت گیس پر چلتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بجٹ 26-2025ء پیش کیے جانے کے بعد ردعمل دیا ہے۔ پوسٹ بجٹ کانفرنس میں زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کس سوچ کے ساتھ بنایا گیا، وہ سمجھ نہیں آرہی ہے، حقیقی بجٹ دستاویز سے سامنے آئے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مالی سال 26-2025ء کی بجٹ تجاویز کیموفلاج ہیں، ٹیکس ہدف معاشی نمو نہ ہونے کے سبب پورا نہیں ہوا۔ زبیر موتی والا نے یہ بھی کہا کہ اس سال نمو بڑھانے کی کیا تجویز ہے نظر نہیں آرہی، ای ایس ایف اچھی اسکیم تھی، اس پر بھی ٹیکس لگا دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پیدواری لاگت کی بات نہیں ہوئی، برآمدات صنعت کو بڑھانی ہے اس کا ذکر نہیں کیا، بجلی کے ریٹ کم کیے ہیں لیکن صنعت گیس پر چلتی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔