حماس اسرائیل جنگ بندی مذاکرات میں ایران بھی شریک ہے، ٹرمپ کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ ایران، حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے معاہدے سے متعلق مذاکرات میں شامل ہے۔ ان کا یہ بیان عالمی سیاسی منظرنامے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بات واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے اسٹیٹ ڈائننگ روم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا:
“غزہ کے معاملے پر اس وقت ہمارے، حماس اور اسرائیل کے درمیان بڑے پیمانے پر مذاکرات جاری ہیں، اور ایران بھی درحقیقت ان میں شریک ہے۔ دیکھتے ہیں کہ غزہ کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوتی ہے۔ ہماری اولین ترجیح یرغمالیوں کی واپسی ہے۔”
اگرچہ صدر ٹرمپ نے ایران کے کردار کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں، اور تاحال وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس معاملے پر کوئی سرکاری وضاحت سامنے نہیں آئی۔
ذرائع کے مطابق، امریکہ نے اسرائیل اور حماس کو 60 روزہ جنگ بندی کی ایک تجویز پیش کی ہے، جس میں انسانی امداد کی فراہمی اور یرغمالیوں کی رہائی کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ نے غزہ میں خوراک کی شدید قلت پر تشویش ظاہر کی ہے۔ عالمی ادارے کے نائب ترجمان فرحان حق کے مطابق، اب تک غزہ میں 4600 میٹرک ٹن گندم کا آٹا پہنچایا جا چکا ہے، تاہم بھوک سے نڈھال افراد اور مسلح گروہوں نے اس کا بیشتر حصہ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی لے لیا۔
فرحان حق نے مزید بتایا کہ موجودہ انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر 8 سے 10 ہزار میٹرک ٹن آٹے کی ضرورت ہے، تاکہ غزہ کے عوام کو قحط کے دہانے سے بچایا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حماس کو ’شکار کیا جائے گا‘، ٹرمپ وحشیانہ دھمکیوں پر اتر آئے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا ہے کہ حماس غزہ میں جنگ بندی پر اس لیے راضی نہیں ہو رہی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دے دیا
الجزیرہ کے مطابق وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح کیا کہ امریکا اور اسرائیل ایک دیرپا جنگ بندی پر متفق نہیں بلکہ محض قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک عارضی جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آخری قیدیوں تک پہنچ گئے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے بعد کیا ہوگا۔ اسی لیے وہ کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتے۔
ٹرمپ نے جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی کا مکمل الزام حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا حماس واقعی کوئی معاہدہ نہیں چاہتی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ مرنا چاہتے ہیں، اور یہ بہت ہی برا ہے۔ وہ شکار کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:نیتن یاہو کو دھچکا، 2 اتحادی جماعتوں کی علیحدگی کے بعد حکومت اقلیت میں بدل گئی
جمعرات کو امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے بھی اعلان کیا کہ امریکہ جنگ بندی مذاکرات سے علیحدگی اختیار کر رہا ہے، اور حماس پر معاہدے میں سنجیدگی نہ دکھانے کا الزام لگایا۔ اسرائیل نے بھی قطر سے اپنے مذاکرات کار واپس بلا لیے ہیں۔
حماس کا مؤقف
حماس نے امریکی مؤقف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے ثالثوں کی کوششوں کو کامیاب بنانے میں سنجیدہ ہے۔
گروپ نے دعویٰ کیا کہ قطر اور مصر نے اس کے رویے کو تعمیری اور مثبت قرار دیا۔
مذاکرات کا مقصد ایک 60 روزہ جنگ بندی تھا جس کے دوران 10 اسرائیلی قیدی رہا کیے جانے تھے اور غزہ پر اسرائیلی بمباری کو روکا جانا تھا۔ حماس مستقل جنگ بندی پر اصرار کرتی رہی ہے۔
اسرائیلی عزائم
اگرچہ امریکی ایلچی وٹکوف نے کہا تھا کہ جنگ بندی سے ’غزہ میں دیرپا امن‘ آئے گا، لیکن اسرائیلی حکام مسلسل عندیہ دیتے رہے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ جنگ چھیڑی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:زخم خوردہ مگر پسپا نہیں، حماس کی مہلک گوریلا جنگ جاری
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے مطابق جنگ بندی کے دوران ہزاروں فلسطینیوں کو جنوبی غزہ میں ایک انٹرنمنٹ کیمپ میں منتقل کیا جائے گا تاکہ انہیں مکمل طور پر وہاں سے نکالا جا سکے۔
وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی واشنگٹن میں کہا کہ اسرائیل کو ’غزہ کا کام ابھی مکمل کرنا ہے‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ٹرمپ حماس غزہ نیتن یاہو