کیا میک اپ، بیگ اور کپڑے سستے ہوجائیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
نئے مالی سال کے بجٹ میں خواتین کے میک اپ اور بیوٹی پروڈکٹس پر درآمدی ڈیوٹی میں نمایاں کمی کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد میک اپ کا سامان سستا ہونے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کے لیے خوشخبری، کاسمیٹکس کی قیمت میں کتنی کمی کا امکان؟
بجٹ اطلاق کے بعد ہیئر اسٹائلنگ پروڈکٹس، لپ اسٹک، سرخی، پاؤڈر، مسکارا، فیس واش، فیشل کریم، فیش شائنر، آئی لائنر، لوشن، کریمز، پرفیوم، باڈی اسپرے اور دیگر بیوٹی آئٹمز کی قیمتوں میں واضح کمی ہوئی ہے ۔
خواتین صارفین کے لیے یہ اقدام خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ مہنگائی کے موجودہ دور میں میک اپ جیسی ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں عام افراد کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی تھیں۔
اس کے علاوہ پرس، سن گلاسز، بیلٹ، سفری بیگ، ہینڈ بیگ، گارمنٹس اور شوز بھی سستے ہوں گے۔
مزید پڑھیے: میک اپ کے لیے گھونگھے پال کر لاکھوں کمانے والی خاتون
حکومت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد صارفین کو ریلیف فراہم کرنا اور ملک میں بیوٹی انڈسٹری کو ترقی دینا ہے جو اب عالمی معیار کی مصنوعات سستے داموں حاصل کر سکیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے گزشتہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں کاسمیٹکس پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا تھا۔
خصوصی طور پر، 657 میک اپ اور بیوٹی آئٹمز پر ڈیوٹی میں 40 فیصد کا اضافہ کیا گیا جبکہ پرفیومز اور سپرے پر 20 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ ایئرپورٹ: زیورات سمیت قیمتی اشیا خاتون شہری کو واپس مل گئیں
کاسمیٹکس پر 55 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی جبکہ درآمد شدہ شیونگ کریم اور صابن پر 50 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بجٹ کاسمیٹکس کپڑے میک اپ کا سامان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کاسمیٹکس کپڑے میک اپ کا سامان میک اپ کے لیے
پڑھیں:
صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد قومی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمے قرضوں کا تناسب اگلے 3 سال میں 70.8 فیصد سے کم ہوکر 60.8 فیصد تک لانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ہے، تاہم خطرات اب بھی موجود ہیں۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جون 2025ء تک مجموعی قرض 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، جب کہ صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جب کہ فنانسنگ کی ضروریات آئندہ برسوں میں 18.1 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رہیں گی۔
وزارت خزانہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی، تاہم قرضوں کا حجم اب بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔
رپورٹ میں قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی تفصیلی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں تبدیلی کو قرض کے بوجھ میں اضافے کی بنیادی وجوہات بتایا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد اندرونی جب کہ 32.3 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، جس سے شرح سود کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کا دباؤ بڑھا ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں، جو دوطرفہ اور کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ ریٹ والے بیرونی قرضوں کی شرح 41 فیصد ہے، جو درمیانی سطح کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔