بجٹ میں لوکل انڈسٹریز کو آگئے بڑھانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے، علامہ باقر زیدی
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
ایک بیان میں رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں لوکل انڈسٹریز کو آگئے بڑھانے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے، موجودہ بجٹ میں عوام پر لگائے جانے والے ٹیکسز اس امر کی دلیل ہیں کہ پاکستان پر مسلط حکمران پاکستانی عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صوبائی صدر علامہ باقر عباس زیدی نے کہا ہے کہ حالیہ بجٹ اعداد و شمار کی ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں، ایسا لگتا بجٹ 2025-26ء عجلت میں بنایا گیا ہے بلکہ آئی ایم ایف کا دیا ہوا کاغذ لگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کا بجٹ اس کے عوام کی معاشی ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں بجٹ کا لفظ عوام کو پہنچائی جانے والی اذیت کا مترادف بن چکا ہے، موجودہ بجٹ میں مستقبل کی ملکی معاشی پالیسیوں کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا ہے، حکومتی اداروں کے اخراجات میں دگنا اضافہ ملکی عوام سے خیانت ہے، وفاقی بجٹ میں صحت اور تعلیم کے شعبے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت کے لیے بجٹ میں مختص کی جانے والی انتہائی کم رقم پاکستان کے مستقبل کے بارے حکومت کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہے، پاکستان ایک زرخیز ملک ہے لیکن زراعت کے میدان میں حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث بھرپور استفادہ کرنے سے قاصر رہے ہیں، حکومت کی ناکام تجارتی پالیسیوں اور وطن عزیز میں عدم استحکام کی صورتحال نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور غیر ملکی قرضوں میں مذید اضافہ ہوا، موجودہ حکومت نئی صنعتوں کے قیام میں بُری طرح ناکام رہی، موجودہ حکومت کو ملکی معاشی استحکام سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر ہے، بجٹ میں عوامی ریلیف کے بجائے مذید ٹیکس کا بوج ڈال کر عوام بالخصوص تنخواہ دار طبقے کا معاشی قتل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ تنخواہ دار ملازمین سمیت عوام پر مشکلات کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں لوکل انڈسٹریز کو آگئے بڑھانے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے، موجودہ بجٹ میں عوام پر لگائے جانے والے ٹیکسز اس امر کی دلیل ہیں کہ پاکستان پر مسلط حکمران پاکستانی عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں، حکمرانوں کے غیر دانش مندانہ اور حکمت سے عاری فیصلے ان کی انتظامی نااہلی کی دلیل ہیں، نا اہل حکومت اپنا خسارہ پورے کرنے کے لئے عوام کا خون چوس کر ہی دم لے گی، موجودہ حکومتی بجٹ 2025-26ء کو مسترد کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نظام بدلے جانے کا خواب
سابق وزیر اعظم اور اپنی نوزائیدہ عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پورا نظام بدلے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ حکومت ناکام ہو چکی، عوام تعلیم، صحت و بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، پاک پتن، سوات اور کراچی میں عمارت گرنے سے ہلاکتیں ایسے سانحات ہیں کہ جن کی ذمے دار حکومتیں ہیں جن کی غیر ذمے داری اور قوانین پر عمل نہ ہونے کا ذمے دار موجودہ نظام ہے جسے بدلنا ازحد ضروری ہے۔
شاہد خاقان عباسی جب مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیر اعظم بنائے گئے تھے تب بھی یہی نظام موجود تھا۔ اس نظام کی موجودگی میں ملک میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ان میں کوئی بھی شفاف اور منصفانہ قرار نہیں پایا۔ سینیٹ کے انتخابات ارکان اسمبلی کی خفیہ خرید و فروخت، پارلیمنٹ میں کورم اور ہنگامہ آرائی، چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں سینیٹروں کا دوغلا کردار، کھلے عام اکثریت ظاہر ہونا اور خفیہ رائے شماری میں اکثریت کا اقلیت بن جانا اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں کی صدارت کرنے والوں کی متنازعہ رولنگ بھی اسی نظام کے تحت دی گئیں۔
اسمبلیوں میں شدید ہنگامہ آرائی، قابل اعتراض تقاریر، نعرے بازی، ایک دوسرے پر حملے، گالم گلوچ، اسمبلی کارروائی نہ چلنے دینے کے لیے اسپیکر کا گھیراؤ، چھپا کر لائے جانے والے بینرز، تصاویر، پمفلٹ لہرانا، ایک دوسرے پر حملے، شرم ناک الزامات عائد کرنا، باہم لڑنا، گالیاں سب کچھ اسی نظام میں جمہوریت کا حسن قرار دی جاتی ہیں۔
اسمبلیوں سے باہر ملک اور ملک کی حفاظت کرنے والوں پر الزامات، جھوٹا پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر ان کے خلاف گمراہ کن مہم کو آزادی اظہار کا نام دینا بھی موجودہ نظام کا حصہ ہی قرار دیا جاتا ہے۔ حد تو اب یہ ہوگئی ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں اپنے ملک کو ناکام اور بھارت کو کامیاب قرار دینے کا ملک دشمن کردار ادا کرکے ملک دشمنی کا مظاہرہ بھی اسی نظام کی بدولت ممکن ہے ورنہ کسی اور ملک میں اپنے ہی ملک سے دشمنی پر جو سزائیں اور انجام ہوتا ہے اس سے بچت بھی موجودہ نظام کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ملکوں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو فوری اور سخت سزاؤں کے برعکس پاکستان میں رائج نظام ہی کی کمزوری ہے کہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی نو کے ملزمان کا سزاؤں سے محفوظ رہنا بھی موجودہ نظام ہی کے تحت ممکن ہے۔
اپنے خلاف آئینی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کھلے عام ریاستی اداروں پر تنقید، الزامات اور عوام کو گمراہ کرنا اور انھیں بھڑکانا، لانگ مارچ، حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ملک بھر میں احتجاج اور جلسے کرنا بھی موجودہ نظام ہی میں ممکن ہوا۔ اسی نظام ہی کی وجہ سے سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونا، اپنی پارٹیوں سے غداری اور اپنی پارٹی کے فیصلوں کے برعکس ووٹ دینا، کروڑوں روپے لے کر سینیٹر منتخب کرانا، حکومت سازی یا آئینی ترمیم کے لیے حمایت خفیہ طور خریدنا بھی موجودہ نظام ہی کا کارنامہ ہے۔
اپنے ہی حلف کی خلاف ورزی، مفاد پرستانہ غیر آئینی فیصلے، عدالتی فیصلوں میں کھلی سیاسی جانب داری، حکومت کے ملزم کو عدالت بلا کر عزت و ریلیف دے کر سرکاری اہتمام سے مقدمے کے بغیر باعزت رہا کرکے ملزم کے گھر تک پہنچانے کا حکم ہو یا پھر عدالت کے حکم کو اسمبلی کے ذریعے تسلیم نہ کرنے کا حکومتی اقدام بھی موجودہ نظام کے تحت ہی ممکن بنایا گیا تھا۔
1973 کے آئین کے نفاذ سے قبل تو چلیں جو ہوا سو ہوا، مگر متفقہ آئین کی منظوری کے بعد سے جو ہوتا آ رہا ہے وہ بھی موجودہ نظام ہی کی مرہون منت ہے جس کے بعد تو پرانا نظام تبدیل ہونا چاہیے تھا مگر نہیں ہوا۔ غیر آئینی مداخلت کو آئین میں جرم قرار دیا گیا اور اس کا راستہ بھی روکنے کی کوشش ہوئی تھی مگر اس کے بعد بھی جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی جو طویل حکومتیں قائم رہیں کیا ملک کے سیاستدان اور جمہوریت کی دعویدار پارٹیاں غیر جمہوری حکومتوں کی حامی اور سیاستدان غیر سول حکومتوں میں شامل رہ کر اقتدار کے مزے نہیں لوٹتے رہے تھے جو اسی نظام کے تحت ہوا۔ منتخب اسمبلیوں نے غیر سیاسی اقدامات کو جائز قرار نہیں دیا تھا، عدالتی فیصلے میں جنرل پرویز کو آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں دیا گیا تھا جو صرف اسمبلی کا اختیار تھا۔
ملک کو بلاامتیاز انصاف فراہم کرنے والوں نے آئین کی من پسند تشریح کرکے خود میں ہی باہمی اختلافات کا آغاز نہیں کیا تھا تو کس سے کہا جا رہا ہے کہ پورا نظام بدلو ورنہ آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ 2018 کی ریہرسل 2022 میں دہرائی گئی، دونوں کو مفاد پرستوں نے وقت کی ضرورت قرار دیا۔ جانے والے چلے گئے اور ان کے بعد آنے والے بھی وہی من مانیاں کر رہے ہیں جو جانے والوں نے کیں، بس فرق یہ ہے کہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد یاد آتا ہے کہ نظام درست نہیں اسے بدلنا چاہیے مگر بدلے کون ،کیا وہی جنھوں نے موجودہ نظام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال ماضی میں کیا اور اب بھی کر رہے ہیں اور فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری حکومت کی کارکردگی سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہے۔
پی ٹی آئی حکومت بھی فخر کرتی تھی کہ وہ اور ہم ایک پیج پر ہیں۔ جب سب ایک پیج پر تھے یا اب ہیں تو موجودہ نظام سے شکایت کیوں؟ یہ سب تو نظام کا حصہ رہے اور ہیں تو نظام بہترین مگر اقتدار کے بعد اسی نظام میں برائیاں کیوں نظر آجاتی ہیں؟