سمندروں پر عالمی پالیسی چھوٹے جزائر کی رائے کے بغیر ’نامکمل‘
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 جون 2025ء) اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے سمندر (یو این او سی 3) میں زیرآب وسائل کے تحفظ پر ایک سیاسی اعلامیے کی منظوری کے لیے بات چیت جاری ہے جبکہ چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک عالمگیر سمندری پالیسی میں اپنے نقطہ نظر کو منوانے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس موقع پر دنیا بھر سے آئے مندوبین 'نیس سمندری لائحہ عمل' کے تحت کھلے پانیوں میں آبی حیات کو تحفظ دینے کے لیے رضاکارانہ وعدے بھی کر رہے ہیں۔
'ہمارے سمندر، ہمارا مستقبل: فوری اقدامات کے لیے متحدہ کوشش'کے عنوان سے اس اعلامیے پر جنوری سے اب تک بات چیت کے چار ادوار ہو چکے ہیں جبکہ کانفرنس میں مندوبین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ اس پر غیررسمی بات چیت بھی ہوتی رہی ہے۔(جاری ہے)
Tweet URLاس اعلامیے میں سمندروں کو موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور سمندری وسائل میں تیزی سے آنے والی کمی جیسے بڑھتے ہوئے خطرات سے تحفظ دینے کے لیے فوری اور غیرمعمولی اقدامات کے لیے کہا جائے گا۔
فرانس کے شہر نیس میں 9 جون سے جاری یہ کانفرنس کل ختم ہو گی جس کا مقصد سمندروں کو بڑھتی حدت، پلاسٹک کی آلودگی اور حد سے زیادہ ماہی گیری جیسے سنگین مسائل سے تحفظ دینا ہے۔
اعلامیے کے اہم نکاتمعاشی و سماجی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل لی جُنہوا نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ اب تک اس کانفرنس میں پائیدار ترقی کے 14ویں ہدف کو حاصل کرنے کے لیے غیرمعمولی یکجہتی دیکھنے کو ملی ہے۔
اس ہدف کا تعلق زیرآب زندگی کو تحفظ دینا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ منظوری کی صورت میں اس کانفرنس کا اعلامیہ دنیا بھر کے سمندروں کے مستقبل سے متعلق اس کانفرنس کے اثرات کا طاقتور اور بامعنی اظہار ہو گا۔
اعلامیے کے مسودے میں ایسے اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جن سے سمندری ماحولیاتی نظام کو تحفظ اور پائیدار سمندری معیشتوں کو فروغ ملے گا۔
اس میں ایس ڈی جی 14 کے حصول کے اقدامات کی رفتار تیز کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے جو پائیدار ترقی کا ایسا ہدف ہے جس کے لیے سب سے کم مالی وسائل مہیا کیے گئے ہیں۔مسودے میں عالمگیر سمندری اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر اور قابل رسائی مالی وسائل کی فراہمی اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت اب تک کیے جانے والے وعدوں کی تکمیل کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
اس میں موسم اور حیاتیاتی تنوع کے سمندر سے گہرے تعلق کو واضح کرتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ حیاتیاتی تنوع سےمتعلق کنونشن پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائیں۔ اس میں پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسا بین الاقوامی معاہدہ طے کرنے کے عزم کی توثیق بھی شامل ہے جس کی پابندی قانوناً لازمی ہو گی۔
لی جُنہوا نے بتایا کہ اس بارے میں حتمی بات چیت جاری ہے اور کل سامنے آئے گا کہ آیا رکن ممالک نے عالمگیر ہنگامی سمندری صورتحال پر قابو پانے کے لیے اتفاق رائے کیا ہے یا نہیں۔
اس اعلامیے کی تشکیل میں چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کا اہم کردار ہے۔ یہ ممالک بڑھتی سطح سمندر اور آبی وسائل کے انحطاط سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور ایک موثر و مشمولہ سمندری پالیسی بنانے کے لیے ان کے براہ راست تجربات اور قیادت بہت اہم ہو گی۔
کانفرنس میں شریک گرینیڈا کی سفیر موسمیات صفیہ سانے کا کہنا ہے کہ انہیں اعلامیے کے ابتدائی مسودے میں چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کے لیے اینٹی گوا اینڈ بارباڈوا ایجنڈے کا حوالہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔
یہ ایجنڈا مئی 2024 میں ان ممالک کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر منظور کیا گیا تھا۔انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ اس ایجنڈے کو سیاسی اعلامیے کا حصہ بنانے سے ان ممالک کے مابین بڑھتے اتحاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہت سے مسائل کے باوجود یہ ممالک اس ایجنڈے کے تحت ہر ذمہ داری پوری کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ممالک کے ورثے، ثقافت اور معیشت کے بڑےحصے کا تعلق سمندر سے ہے۔
اس لیے کوئی سمندری اعلامیہ ان کے بغیر نامکمل ہو گا۔فطرت پر عدم سمجھوتہانہوں نے کہا کہ گرینیڈا اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک کے اتحاد (اے او ایس آئی ایس) میں شامل دیگر مندوبین نے توثیق کی ہےکہ انہوں نے گزشتہ موسمیاتی بات چیت سے حاصل ہونے والی طاقت اور تجربے سے فائدہ اٹھایا۔ اگرچہ سمجھوتے کثیرفریقی کام کا حصہ ہوتے ہیں لیکن فطرت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس ضمن میں بعض ممالک کو دوسروں سے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک انہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ محض مالی مدد سے بڑھ کر عملی اقدامات کریں۔
صفیہ سانے کا کہنا تھا کہ چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک دراصل 'بڑے سمندری ممالک' ہیں جو اس کانفرنس میں شریک ہی نہیں بلکہ عالمگیر سمندری ایجنڈے کی تشکیل میں اپنا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ ان کوششوں میں شامل غرب الہند کی حکومتیں سیاسی اتحاد اور علاقائی عزم کا غیرمعمولی مظاہرہ کر رہی ہیں۔
کانفرنس کے پہلے روز غرب الہند کے 30 X 30 تصور برائے سمندر کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد ایس ڈی جی 14 اور کُنمنگ مانٹریال فریم ورک سے ہم آہنگ اجتماعی اقدامات کو آگے بڑھانا ہے اور عالمی برادری کو یاد دہانی کرانا ہے کہ یہ ممالک سمندری تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے اور اس کام میں دوسروں کی مدد کے لیے بھی تیار ہیں۔
صفیہ سانے کا کہنا تھا کہ غرب الہند کے ممالک کے پاس صلاحیتیں محدود ہیں جس کی وجہ سے یہ خطہ بیرونی مدد اور ماہرین پر انحصار کرتا ہے۔
تاہم، اب اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ عطیہ دہندگان کو علم ہونا چاہیے کہ خطہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور سمندری تحفظ کے اقدامات پر عملدرآمد کرنے میں سنجیدہ ہے۔انہوں نے 'یو این او سی 3' کو اپنا یہ پیغام دنیا بھر میں پھیلانے کا اہم موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ اصل کام کانفرنس کے بعد شروع ہو گا اور غرب الہند کے ممالک اس میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چھوٹے جزائر پر مشتمل غرب الہند کے کانفرنس میں کرنے کے لیے اس کانفرنس کانفرنس کے دنیا بھر انہوں نے کے ممالک ممالک کے بات چیت جاری ہے رہے ہیں گیا ہے
پڑھیں:
’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔
ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتے‘، ان سے یہ سوال اُس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992 کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے‘۔
جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے‘۔
میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990 اور 1996 کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا،اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں‘۔
ڈان نے اس معاملے پر امریکی صدر کے اس بیان کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے ردِعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔
انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے‘