کب کوئی بلا صرف دُعاؤں سے ٹلی ہے
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
ماشاء اللہ، الحمد للہ ،5جون2025 کو حج اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔اِس بار عالمِ اسلام کے تقریباً پونے 17لاکھ خوش نصیب مسلمانوں نے فریضۂ حج کا عظیم المرتبت شرف حاصل کیا ہے ۔ایں سعادت بزورِ بازُو نیست، تانہ بخشد خدائے بخشندہ! تقریباً1.7ملین حجاج کرام کو ہر قسم کی اعانت و خدمت فراہم کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔
یوں خادم الحرمین الشریفین، سعودی عرب کے جملہ حکام اور حج انتظامات پر مامور ہر سعودی ذمے دار کو بھرپور شاباش دینی چاہیے ۔ہم سب کی طرف سے نئے حاجیوں کو تہنیت ۔ تازہ ترین حج کے عظیم الشان موقع پر خطبہ حج سعودی عرب کے ممتاز و مکرم اسکالر ، شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ الحمید، نے دیا ہے ۔ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ صاحب کعبہ شریف کے9معزز و محترم اماموں میں سے ایک ہیں ۔ ڈاکٹر صالح صاحب کو یہ بھی منفرد مقام و اعزاز حاصل ہے کہ آپ خانہ کعبہ کے پہلے اور اوّلین امام ہیں جو پی ایچ ڈی ہیں ۔
بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر صالح صاحب کا دیا گیا خطبہ حج دُنیا کی تقریباً35مختلف زبانوں میں نشر کیا گیا ۔ راقم نے شیخ صالح صاحب کا خطبہ حج سُنا بھی ہے اور اِس کی رپورٹنگ بھی پڑھی ہے۔ خطبے میںدیگر کئی باتوں ، نصائح اور دعاؤں میں مسئلہ فلسطین ، فلسطینیوں کے دکھوں اور مظلوم و مقہور اہلِ غزہ کا ذکر بھی سنائی دیا ۔ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ نے مسجدِ نمرہ میں فرمایا:’’ اے اللہ، فلسطینی بھائیوں کو دشمن پر غلبہ عطا فرما۔ اے اللہ ، فلسطین اور فلسطینیوں کا خیال رکھ ۔اے اللہ ، فلسطینیوں کی بھوک، مصائب اور تکالیف کا خاتمہ فرما۔ بے گھر فلسطینیوں کو آسرا عطا فرما۔ یااللہ،اہلِ فلسطین (غزہ) کو امن کی نعمت سے سرفراز فرما اور اُنہیں اُن کے دشمنوں کے شر سے محفوظ فرما۔‘‘
شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ صاحب کا خصوصی شکریہ کہ جناب نے پونے17لاکھ کے عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے مظلوم و مقہور اور صہیونی اسرائیل کے زیر تعذیب فلسطینیوں کے لیے دعائیں فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین ۔ ڈاکٹر صالح صاحب کا پیغام معلوم دُنیا تک پہنچا ہے کہ معلوم دُنیا کے کونے کونے سے حاجی صاحبان سعودی عرب تشریف لائے۔ سب کے کانوں میں مظلوم فلسطینیوں کے لیے کیے گئے دعائیہ کلمات پہنچ گئے ۔
راقم کے لیے مگر حیرانی کی بات ہے کہ الشیخ نے اپنی دعا میں فلسطین کے ’’دشمن‘‘ اور ’’دشمنوں‘‘ کا ذکر تو کیا مگر ’’دشمن‘‘ کا نام لینے سے گریز فرمایا۔ سچ تو یہ ہے کہ مظلوم فلسطینی اور عالمِ اسلام کے باسی فلسطینیوں کے ’’دشمن‘‘ اور فلسطینیوں پر لامتناہی مظالم ڈھانے اور اب تک55ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرنے اور ’’غزہ‘‘ کو کھنڈرات بنانے والی ظالم قوت (اسرائیل) کے خلاف کچھ مزید طاقتور الفاظ سننے کے منتظر تھے ۔
دعاؤں سے اگر مسائل و مصائب حل ہو سکتے تو اب تک مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین حل ہو چکے ہوتے کہ پچھلے75برسوں سے مسلمانانِ عالم اِن دونوں مسائل کے حل بارے مسلسل دعائیں مانگ رہے ہیں ۔ دعائیں مگر مستجاب نہیں ہو رہیں ۔ مشہور سیاستدان، نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ، نے برسوں قبل اپنی ایک مشہور غزل میں ٹھیک ہی تو کہا تھا:کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں/ کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے!
آج ساری دُنیا کے عوام ، بِلا رنگ و نسل و زبان، مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اور غاصب و ظالم صہیونی اسرائیل کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں ۔ اُن ممالک کے عوام اِس ضمن میں زیادہ بلند آواز سے اسرائیل کے خلاف احتجاج کناں ہیں جن ممالک کے بے حس اور اسرائیل نواز حکمران اسرائیل کو اسلحہ بھی فراہم کر رہے ہیں اور مالی امداد بھی۔5جون 2025 کو جس وقت مسجدِ نمرہ میں خطبہ حج میں مظلوم و مصلوب اہلِ فلسطین کے لیے دعائیں کی جارہی تھیں ، عین اُسی تاریخ کو اور اُسی وقت نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل ، جناب انتونو گوتریس، سعودی عرب کے مشہور انگریزی اخبار ( عرب نیوز) کےEphrem Kossaify کو مفصل انٹرویو دیتے ہُوئے کہہ رہے تھے :’’عالمی برادری کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے جملہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہُوئے اسرائیل اور فلسطین میں جاری محاربے کو فوری ختم کرنے کی کوئی فوری اور مستقل سبیل نکالیں ۔ ساتھ ہی دو ریاستی حل کی طرف بڑھنے کی بھی ضرورت ہے۔
ہم جاری ایام میں غزہ اور مغربی کنارے میں دل دہلا دینے والے جو خونریز مناظر دیکھ رہے ہیں،یہ اِس امر کے متقاضی ہیں کہ دو ریاستی فارمولے اور حل کی ضرورت کو ہر حال میں زندہ رکھا جائے۔ اور جو لوگ دو ریاستی حل بارے شبہات کا شکار ہیں ، مَیں اُن سے پوچھتا ہُوں : تو پھر اِس کا متبادل کیا ہے ؟کیا یک ریاستی حل یہ ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے بزورِ طاقت نکال دیا جائے ؟یا کیا فلسطینیوں کو اُن کی اپنی سرزمین پر ، کوئی بھی حق دیے بغیر، زیر استبداد رہنے دیا جائے؟ میرے لیے یہ ناقابلِ قبول ہے۔ بالکل ناقابلِ قبول!۔‘‘
جس واضح اور غیر مبہم اسلوب میں جناب انتونیو گوتریس نے مظلوم اہلِ مغربی کنارہ اور مقہور اہلِ غزہ کی حمائت میں بیان دیا ہے، اے کاش ہمارے طاقتور اور صاحبانِ ثروت مسلمان حکمرانوں کو بھی ایسی ہمت اور توفیق ملتی۔ اے کاش!لیکن شائد صہیونی و غاصب اسرائیل کے دستِ قاتل کو ہمت سے جھٹک دینے کی توفیق ہمارے کسی مسلم حکمران کو کبھی نہیں ملے گی۔
فلسطین کے چاروں اطراف میں بسنے والے مشہور اور قدیم مسلمان ممالک ( مصر ، اُردن ، شام)اور ان کے حکمران ( جو اہلِ فلسطین کے ہم لسان بھی ہیں، اُن کے ہم مذہب بھی ہیں اور ہم ثقافت بھی) مظلوم فلسطینیوں کی کسی بھی قسم کی امداد و اعانت کرنے سے صاف انکاری ہیں۔ ہمسایہ ہونے کے باوجود غزہ کے بچوں کو خوراک فراہم کرنے پر تیار ہیں نہ اُنہیں طبّی امدار دینے کے لیے راضی ۔ غزہ قحط زدہ ہو چکا ہے ، مگر کوئی ہمسایہ مسلمان (اسرائیل کے ڈر سے) براہِ راست اہلِ غزہ کو روٹی کا ایک لقمہ دینے سے بھی منکر ہے ۔
مظلوم فلسطین کے ہمسایہ میں بسنے والے عسکری طور پر کمزور مسلمان حکمرانوں اور بحیثیتِ مجموعی عالمِ اسلام کی بے حسی کو دیکھتے ہُوئے ہی امریکا مظلوم فلسطینیوں کے خلاف شیر بن رہا ہے اور آگے بڑھ چڑھ کر قاہر و جابر اسرائیل کی ہر ممکنہ امداد بھی کررہا ہے۔ یہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ اہلِ غزہ کا مزید ناطقہ بند کرنے اور فلسطینیوں پر مزید عرصئہ حیات تنگ کرنے کے لیے اہلِ غزہ کے خلاف ویٹو کی ہلاکت خیز طاقت بھی استعمال کررہا ہے ۔ اور عالمِ اسلام کے حکمران ٹک ٹک دیدم ، دَم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں ۔
اِس ضمن میں تازہ مثال جون2025کے پہلے ہفتے سامنے آئی ہے ۔ فلسطینیوں کے حق میں پیش کی گئی قرارداد ایسے لمحات میں امریکا نے ویٹو کی ہے جب غزہ میں ہر قسم کے انسانی، مالی و طبّی بحران عروج پر پہنچ چکے ہیں ۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے15ارکان میں سے14ارکان نے قرارداد کے حق میں یہ کہہ کر ووٹ دیا کہ ’’غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی بھی کی جائے اور غزہ کے22لاکھ محصور فلسطینیوں کے لیے روکی گئی خوراکی امداد بھی کھولی جائے ۔‘‘ مگر اسرائیل نواز امریکا نے یہ کہہ کر اِس قرار داد کو ویٹو کی طاقت سے مسترد کر دیا کہ (1)اِس قرار داد میں 7اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت شامل نہیں ہے (2) قرار داد میں حماس کو غیر مسلح کرنے کی شق شامل کیوں نہیں کی گئی (3) غزہ کی پٹّی سے حماس کو نکال باہر کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔
ساتھ ہی یو این میں امریکی سفیر ، ڈورتھی شیا، ( اور امریکی وزیر خارجہ ، مارکو روبیو) نے کہا ہے کہ ’’اگر ہم اِس قرار داد کو مان لیتے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ اسرائیل کے مقابل حماس کو تقویت پہنچائی گئی ہے ۔ ہم اِسی سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غزہ اور مغربی کنارے کے مکین مظلوم فلسطینیوں کی ریلیف کے ، فی الحال، امکانات واضح نہیں ہیں ۔ عالمِ اسلام کے حکمران خاموش رہیں گے تو مظلوم فلسطینیوں کا یہی حال رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر صالح بن عبداللہ مظلوم فلسطینیوں فلسطینیوں کے فلسطینیوں کو مظلوم فلسطین اسرائیل کے اور فلسطین فلسطین کے صالح صاحب اسلام کے رہے ہیں صاحب کا کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اللہ تعالیٰ کیسے وجود میں آیا؟
جس طرح عقل یہ چاہتی ہے کہ کسی وجود کے لیے ایک موجد ہو، اسی طرح عقل یہ بھی چاہتا ہے کہ تمام کائنات کا موجد کوئی ایسا وجود ہو جو کسی موجد کے بغیر آپ سے آپ موجود ہو، ورنہ ہر موجود کے لیے ایک موجد درکار ہوگا اور یہ سلسلہ کہیں جا کر نہ رکے گا۔ خدا تو کہتے ہی اس کو ہیں جو سب کا خالق ہو اور خود کسی کا مخلوق نہ ہو۔ اگر وہ مخلوق ہو تو وہ خدا نہ ہوگا، بلکہ جس نے اس کو خلق کیا ہو وہی خدا ہوگا۔ (ترجمان القرآن، نومبر 1965ء)
٭…٭…٭
اللہ تعالیٰ کہاں سے آیا؟
آپ کے ذہن کو جس سوال نے پریشان کر رکھا ہے، اس کا حل تو کسی طرح ممکن نہیں ہے، البتہ آپ کی پریشانی کا حل ضرور ممکن ہے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ آپ اس قسم کے مسائل پر سوچنے کی تکلیف اٹھانے سے پہلے اپنے علم کی حدود (Limitations) کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جب آپ یہ جان لیں گے کہ انسان کیا کچھ جان سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں جان سکتا تو پھر آپ خواہ مخواہ ایسے امور کو جاننے کی کوشش میں نہیں پڑیں گے جن کو جاننا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ خدا کی ہستی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو کچھ آدمی کے امکان میں ہے، وہ صرف اس قدر ہے کہ آثار کائنات پر غور کرکے ایک نتیجہ اخذ کرسکے کہ خدا ہے، اور اس کے کام شہادت دیتے ہیں کہ اس کے اندر یہ اور یہ صفات ہونی چاہییں۔ یہ نتیجہ بھی ’’علم‘‘ کی نوعیت نہیں رکھتا، بلکہ صرف ایک عقلی قیاس اور گمان غالب کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس قیاس اور گمان کو جو چیز پختہ کرتی ہے، وہ یقین اور ایمان ہے۔ لیکن کوئی ذریعہ ہمارے پاس ایسا نہیں ہے جو اس کو ’’علم‘‘ کی حد تک پہنچا سکے۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ جب خدا کی ہستی کے بارے میں بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم کو اس کے ہونے کا ’’علم‘‘ حاصل ہے تو آخر اس کی حقیقت کا تفصیلی علم کیوں کر ممکن ہے۔ خدا کی ذات تو خیر بہت بلند و برتر ہے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ’’زندگی‘‘ کی حقیقت اور اس کی اصل (Origin) کیا ہے۔ یہ توانائی (Energy) جس کے متعلق ہمارے سائنس داں کہتے ہیں کہ اسی نے مادے کی شکل اختیار کی ہے اور اس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں، اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی اور کس طرح اس نے مادے کی گوناگوں شکلیں اختیار کیں۔ اس قسم کے معاملات میں ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کے سوالات پر غور کرنا اپنے ذہن کو اس کام کی تکلیف دینا ہے جن کے انجام دینے کی طاقت اور ذرائع اس کو حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ غور و فکر نہ پہلے کبھی انسان کو کسی نتیجے پر پہنچا سکا ہے نہ اب آپ کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا حاصل بجز حیرانی کے اور کچھ نہیں۔ اس کی بجائے اپنے ذہن کو ان سوالات پر مرکوز کیجیے جن کا آپ کی زندگی سے تعلق ہے اور جن کا حل ممکن ہے۔یہ سوال تو بیشک ہماری زندگی سے تعلق رکھتا ہے کہ خدا ہے یا نہیں اور ہے تو اس کی صفات کیا ہیں اور اس کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی نہ کوئی رائے اختیار کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ بغیر اس کے ہم خود اپنی زندگی کی راہ متعین نہیں کرسکتے اور اس معاملے میں ایک رائے قائم کرنے کے لیے کافی ذرائع بھی ہمیں حاصل ہیں۔ لیکن یہ سوال کہ ’’خدا کہاں سے آیا‘‘ نہ ہماری زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق رکھتا ہے اور نہ اس کے متعلق کسی نتیجے پر پہنچنے کے ذرائع ہم کو حاصل ہیں۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر 1950ء)