— فائل فوٹو

پاکستان کی امریکا میں سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ کیا امریکا نے اسرائیل کو حملہ کرنے کےلیے گرین سنگل دیا؟ اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر ملیحہ لودھی نے کہا کہ اگر ٹرمپ کو پہلے سے پتہ تھا تو انہوں نے اسرائیل کو کیوں نہیں روکا۔ امریکا کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نہیں سمجھتی کہ اس صورتحال میں روس کوئی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسرائیل صرف امریکا کی بات سنتا ہے، اس صورتحال میں امریکا کے علاوہ کوئی کچھ نہیں کرسکتا، یوکرین کے معاملے پر ڈونلڈ ٹرمپ ناکام رہے۔ 

امریکا ایران کے ردعمل کا انتظار کر رہا ہے: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا ایران کے ردعمل کا انتظار کر رہا ہے.

انہوں نے کہا کہ او آئی سی غزہ میں خونریزی کو روک نہیں سکی، سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کی جانب سے ردعمل آیا، بیانات سے اب کام نہیں چلے گا۔ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے، اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں۔

ملیحہ لودھی نے کہا کہ چین نے کہا ہے کہ خطے میں تناؤ کو کم کرنےکی ضرورت ہے، ضروری ہے کہ ایران کے ساتھ یک جہتی کےلیے شانہ بشانہ کھڑے رہیں۔ 

سابق سفیر کا کہنا تھا کہ خطہ غیر مستحکم ہوتا ہے تو اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، خطے میں جنگ طویل ہوتی ہے تو اس کے معاشی اثرات بھی ہوں گے۔

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: ملیحہ لودھی کا کہنا نے کہا

پڑھیں:

مغیث الدین شیخ باکمال معلم اور ماہر تعلیم

ابلاغ عامہ کے مایہ ناز استاد اور اسکالر پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے پانچ برس بیت چکے، مگر ان کی یاد ان کے ہزاروں شاگردوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

سیکڑوں نام ور اور گم نام صحافیوں کے معلم، مغیث الدین شیخ نے جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک رہتے ہوئے پاکستان میں صحافت اور ابلاغ عامہ کی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ اس ضمن میں مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ہنس مکھ، ملنسار اور متحرک شخصیت کے مالک مغیث الدین شیخ بہترین استاد اور منتظم تھے۔ کووڈ۔ 19 کی وبا کا شکار ہو کر 24 جون 2020ء کو 68  برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

پروفیسر مغیث الدین شیخ 40 برس سے زائد عرصہ صحافت اور ابلاغ عامہ کی تدریس سے وابستہ رہے۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں امریکا کی یونیورسٹی آف آئیووا (The University of Iowa) سے ڈاکٹریٹ کرنے والے مغیث الدین شیخ نے پاکستان میں ابلاغ عامہ کے نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے اور اس میں نئے کورسز متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں بین الاقوامی شہرت یافتہ سکالرز نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسی شخصیات سے پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ وہ ادارہ علوم ابلاغیات، جامعہ پنجاب کے بانی ڈائریکٹر بنے اور فیکلٹی آف بیہیوریل اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین رہے۔

تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے مغیث الدین شیخ یکم فروری 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابھی تین سال کے ہی تھے، جب سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ والد ریلوے میں اکاؤنٹس افسر تھے۔ ڈاکٹر مغیث نے اسلامیہ کینٹ ہائی اسکول سے میٹرک اور اسلامیہ کالج سے ایف ایس سی (پری انجینئرنگ) کی تعلیم حاصل کی۔ روزنامہ ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں اپنے زمانہ طالب علمی کی تفصیلات بتائے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ’’میں محنتی تو نہیں، لیکن ذہین طالب علم ضرور تھا۔‘‘ وہ زمانہ طالب علمی میں تقریری مقابلے، ریڈیو کے بزم ادب پروگرام اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے۔ مزاج میں لیڈرشپ شروع سے ہی پائی جاتی تھی۔ محلے کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔

ان دنوں ایک تقریری مقابلے میں شرکت کیلئے پنجاب یونیورسٹی جانا ہوا تو وہاں کے ماحول سے متاثر ہوئے اور اس تاریخی درس گاہ میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش دل میں پیدا ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے انجینئرنگ یونیورسٹی کے بجائے، جہاں ان کا داخلہ ہو چکا تھا، پنجاب یونیورسٹی میں طبیعات کے بی ایس سی آنرز پروگرام میں داخلہ لے لیا۔ سائنس کا مضمون وہ محض گھر والوں کے اصرار پر پڑھ رہے تھے، جس میں ان کی ذاتی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔

یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران وہ اپنے لیے موزوں ترین شعبے کی تلاش کرتے رہے اور بالآخر ان کی نگاہ انتخاب شعبہ صحافت پر ٹھہری۔ انہوں نے اپنے ایک دوست طالب علم رہنما سے ڈیڑھ ہزار روپے ادھار لیے، جو کہ پورے سال کی فیس تھی، اور ایم اے صحافت میں داخلہ لے لیا۔ ڈانٹ کے خوف سے انہوں نے اپنے اس اہم فیصلے سے گھر والوں کو بے خبر رکھا، جس کا پتا انہیں چھ ماہ بعد چلا۔ انہیں خوب برا بھلا کہنے کے ساتھ مستقبل میں بے روزگاری کے طعنے دیئے گئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ 1976ء میں ایم اے صحافت کی تکمیل کے چھے دن بعد ہی انہیں گومل یونیورسٹی میں لیکچرشپ مل گئی۔

18اکتوبر 1982ء کو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی۔ اس زمانے میں یونیورسٹی اساتذہ کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے وظائف ملتے تھے، جن میں سے اکثر ضائع ہو جاتے۔ کچھ برس بعد جب انہیں سکالرشپ کی پیشکش ہوئی تو وہ فوراً تیار ہو گئے۔ ڈاکٹر مغیث کے بقول، ’’مجھے امریکا اور برطانیہ، دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل گیا تھا۔ میں نے امریکا جانے کو ترجیح دی، کیونکہ برطانیہ جانے کا مطلب یہ تھا کہ آپ شارٹ کٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔

برطانیہ میں پی ایچ ڈی کیلئے آپ کو صرف اپنا مقالہ لکھنا پڑتا ہے، جبکہ امریکا میں مقالہ لکھنے سے پہلے مختلف مشکل کورسزکا امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ امتحان پاس کرنے کیلئے آپ کو مختصر وقت کے دوران سیکڑوں کتابیں پڑھنا پڑتی ہیں۔ چنانچہ میں نے امریکا کی یونیورسٹی آف آئیووا میں داخلہ لے لیا اور ایک سال بعد اپنی فیملی کو بھی بلا لیا۔ مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں نے تین سال گیارہ مہینے اور دو ہفتے کے مختصر ترین دورانیے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عام طور پر سوشل سائنسز میں پانچ سے چھے سال لگ جاتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر مغیث کو امریکا سے جان ایف مورے ریسرچ گرانٹ ملی، اور تحقیقی کام پر یونیورسٹی آف آئیووا نے دو برس لگاتار ’’جرنلزم فورتھ اسٹیٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔

امریکا سے واپسی پر 1994ء میں وہ دوبارہ جامعہ پنجاب کے شعبہ صحافت سے جڑ گئے۔ 2003ء میں شعبے کا چیئرمین بنایا گیا، اور انہوں نے اپنی سربراہی کے دوران ادارے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے ’’شعبہ صحافت‘‘ کو ’’ادارہ علوم ابلاغیات‘‘ میں تبدیل کیا اور اس کے بانی ڈائریکٹر بنے۔ 2017ء میں روزنامہ ایکسپریس کے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا، ’’ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے میرا ایجنڈا تھا کہ سب سے پہلے نصاب کو ٹھیک کیا جائے۔ پھر انفراسٹرکچر میں بہتری لائی جائے اور ادارے میں نظم و ضبط قائم کیا جائے۔

کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ تینوں چیزیں نظرانداز ہو رہی تھیں۔ میری پالیسی یہ ہے کہ کسی کے کہنے یا مطالبہ کرنے کا انتظار نہیں کرتا۔ میں خود سوچتا ہوں، حل طلب مسئلہ دریافت کرتا ہوں اور پھر اسے حل کرتا ہوں۔ اگر آپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو تو پھر کسی کو ہنگامہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔‘‘ دسمبر 2005ء میں انہیں فیکلٹی آف بیہیوریل اینڈ سوشل سائسز کے ڈین کی ذمہ داری بھی تفویض کر دی گئی اور وہ اسی حیثیت میں 2011ء میں جامعہ پنجاب سے ریٹائر ہوئے۔ بعدازاں مختلف نجی جامعات سے وابستہ رہے۔

تحقیقی مجلوں میں ان کے کئی تحقیقی مضامین شائع ہوئے۔ انہوں نے امریکا سے شائع ہونے والے ’’انسائیکلوپیڈیا آف انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن‘‘ پر نظرثانی بھی کی۔ ڈاکٹریٹ کا مقالہ ’’میڈیا اور خارجہ پالیسی کا باہمی تعلق‘‘ کے موضوع پر لکھا۔ ’’انٹرنیشنل کمیونیکیشن‘‘ اور ’’میڈیا اور اسلام‘‘ کے مضامین میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

یونیورسٹی میں لیکچرشپ سے قبل انہوں نے معروف کالم نگار عبدالقادر حسن کے جریدے ’’افریشیا‘‘ میں کچھ عرصہ کام کیا، لیکن ملازمت ملنے کے بعد باقاعدہ طور پر عملی صحافت میں نہیں آئے۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو ایچ ای سی کی طرف سے ’’بیسٹ یونیورسٹی ایوارڈ‘‘ اور تعلیمی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ ’’اعزاز فضیلت‘‘ ملا۔ ابلاغ عامہ کے مضمون کے لیے ایچ ای سی کی قومی نصاب کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ انہوں نے ادارہ علوم ابلاغیات، جامعہ پنجاب میں، ابلاغ کے مختلف شعبوں (پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، ریسرچ، ایڈورٹائزمنٹ، پبلک ریلیشنز) پر مشتمل تخصیصی ڈسپلن قائم کیے، تاکہ طلبا اپنی پسند کے مضامین میں اسپیشلائزیشن کر سکیں۔

نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسے عالمی شہرت یافتہ مفکرین سے مختلف کورسز پڑھنے پر انہیں فخر تھا۔ ان کی علمی خدمات کے معترف تھے۔ وہ یونیورسٹی آف آئیووا میں اپنے اساتذہ ڈاکٹر ڈونلڈ اسمتھ اور پروفیسر سٹارک، جو ان کے مقالے کے نگران تھے، کا بھی ذکر کرتے تھے۔

ایرانی نژاد امریکی سکالر حامد مولانا سے ان کا بڑا اچھا تعلق رہا، کئی کانفرسوں میں ملاقات ہوئی۔ امریکا میں دوران تعلیم پاکستان ایسوسی ایشن کے صدر اور اسلامی سوسائٹی سے بھی وابستہ رہے۔ کشمیر اور افغانستان کے موضوعات پر دوسرے طالب علموں کو لیکچر بھی دیتے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ان کی یونیورسٹی کا دورہ کیا تو وہ بڑی تگ و دو کر کے ان سے ملے اور کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں ایک یادداشت پیش کی۔

وہ سمجھتے تھے کہ میڈیا کی اصلاح کے لیے عام لوگوں کو سرگرم کردار ادا کرنا ہو گا اور خاموش رہنے کی عادت ترک کرنا پڑے گی۔ ان کے بقول، ’’ہمارا معاشرہ زیادہ تر غیر متحرک (passive) افراد پر مشتمل ہے، جو مناسب انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔ عام آدمی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میڈیا بے لگام ہے، اس کا کنٹینٹ (content) معیاری نہیں اور اصلاح احوال کی ضرورت ہے، لیکن وہ اس سلسلے میں عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ بس دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو کوئی غلط چیز دیکھ کر مدیر کے نام خط لکھتے ہیں یا ای میل کے ذریعے اپنا ردعمل دیتے ہیں۔

اس لیے ہر شخص کو اپنی سطح پر چاہے وہ محلے کا کونسلر ہے یا عام آدمی، اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر ہم برائی کو دیکھ کر اس پہ خاموش رہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس لیے غیرجانبدار یا لاتعلق رہنا میرے خیال میں مناسب نہیں، یہ جھوٹ اور برائی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ چنانچہ باقاعدہ پوزیشن لیں، حق کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس پر بات کریں۔

اس سے بہت فرق پڑے گا۔ دوسرا حل طویل المدتی ہے، وہ یہ کہ اچھے لوگ میڈیا میں آئیں، اچھے لوگ جب آگے نہیں آتے تو برے لوگ ان کی جگہ پر آ جاتے ہیں۔ بعض لوگ میڈیا میں کام کرنے کو برا سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ کوئی برا کام نہیں، اچھے لوگوں کو اس طرف آنا چاہیے۔ایک وقت آئے گا کہ اچھے لوگ بڑے عہدوں پر بیٹھیں گے اور ادارے کی پالیسی سازی میں شریک ہوں گے۔ ممکن ہے سب کچھ ٹھیک کرنا ان کے اختیار میں نہ ہو، لیکن پھر بھی وہ بہت حد تک بہتری لا سکتے ہیں۔ اس لیے مایوس ہو کے گھر بیٹھے رہنا کوئی حل نہیں، سب کو اس سلسلے میں متحرک، حساس اور چوکس ہونا پڑے گا۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی نسل کشی پر نیدرلینڈ کا سخت ردعمل، اسرائیلی سفیر طلب، دو انتہاپسند وزیروں پر پابندی
  • پہلے فلسطین، پھر اسرائیل سے بات، عالمی کانفرنس میں سعودی عرب نے اپنا فیصلہ سنا دیا
  • مغیث الدین شیخ باکمال معلم اور ماہر تعلیم
  • آپریشن سندور کیوں روکا؟ راہول گاندھی کا مودی سرکار سے لوک سبھا میں دوٹوک سوال
  • غزہ کی جنگ میں وقفہ : پہلے دن 120 ٹرکوں پر لدی امداد تقسیم
  • نہیں معلوم غزہ میں آئندہ کیا ہونے والا ہے، اب فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • غزہ میں نسل کُشی کا حصہ نہیں بنیں گے، اسرائیل کو 1 ٹن کوئلہ نہیں دینگے، کولمبیا
  • آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟
  • ایشیا کپ میں پاک بھارت ٹاکرا، بھارتی سیاستدان پیچ و تاب کیوں کھا رہے ہیں؟
  • تھائی لینڈ، کمبوڈیا لڑائی نے پاک بھارت تنازع کی یاد دلا دی، جنگ بندی کا خواہاں ہوں، ٹرمپ