Express News:
2025-06-14@13:19:56 GMT

مایا نگری کے مایاوی ہیرو (دوسرا اور آخری حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

ایک کہانی یاد آ رہی ہے بلکہ کہانی نہیں تاریخی واقعہ ہے جو بہت سے لوگوں کو معلوم بھی ہے ۔کسی جگہ حکومت کے دودعویداروں میں جنگ کی صورت حال پیدا ہوئی، دونوں کی فوجیں ایک دوسری کے مقابل صف آراء ہوگئیں تو کچھ بزرگوں نے درمیان میں پڑ کر معاملے کو بغیر خون خرابے کے سلجھانے کی تگ ودو شروع کی۔

ان امیدواروں میں جو حق دارتھا وہ مالی لحاظ سے کمزورلیکن تقویٰ کے لحاظ سے برترتھا ، ثالث دونوںکیمپوں میں آتے جاتے رہے ۔صلح کی بات چیت چل رہی تھی تو لوگوں نے دیکھا کہ ان ثالث بزرگوں میں ایک کھانے کے وقت ایک کیمپ میں جاتے تھے اورنماز کے لیے دوسرے کیمپ آجاتے تھے۔ کسی نے پوچھا حضرت یہ کیا؟آپ ہمیشہ کھانے کے لیے ’’وہاں‘‘ جاتے ہیں اورنماز کے لیے یہاں آجاتے ہیں تو حضرت نے سادہ لوحی سے بتایا کہ ’’کھانا‘‘ وہاں کااچھا ہوتا ہے اورنماز یہاں کی اچھی ہوتی ہے ۔

یہاں بھی وہی سلسلہ ہے دوسری پارٹیوں میں بے شک کوئی نظریہ ہوکوئی پروگرام ہوکوئی مشہور یامخلص باکردار لیڈرہوں لیکن ’’کھانا‘‘ یہاں اچھا ملتا ہے ، اس لیے کھانے کے شوقین تو وہاں جائیں گے جہاں کھانا اچھا ملنے کی توقع ہو۔

 رخ مری جانب نگاہ لطف دشمن کی طرف

وہ ادھردیکھا کیے گویا ادھر دیکھا کیے

ہم سارے عوام کی بات نہیں کررہے ہیں سارے عوام بیچارے تو صدیوں سے دماغی عدم استعمال کے مارے ہوئے ہیں، وہ بیچارے تو بجا طور پر کالانعام کہلاتے ہیں اگر کوئی ان سے کہے کہ کتا تیرا کان لے گیا ہے تو وہ اپنا کان دیکھے بغیر پہلے کتے کے پیچھے دوڑ پڑیں گے اورکتا مارنے کے بعد اپنا ہاتھ کان دیکھنے کے لیے اٹھائیں گے ۔

وہ ایک لطیفہ بھی ہے کہ ایک شخص حجام کی دکان میں شیو بنوا رہا تھا تو اچانک باہر بازار میں شور اٹھا کہ جمال تیرے گھر میں آگ لگی ہے وہ شخص سب کچھ پھینک کر دوڑ پڑا کافی دیر دوڑنے کے بعداچانک رک گیا اورخود سے کہنے لگا مگر میں تو جمال نہیں ہو، اور واپس لوٹ پڑا ۔ چنانچہ ان کو تو بتایا گیا ہے بلکہ ان کی خالی اورعدم استعمال سے زنگ آلود ہونے والی کھوپڑیوں میں بٹھایا گیا ہے کہ تم صرف جسم استعمال کرو، دماغ استعمال کرنا تمہارا نہیں ’’خواص‘‘ کاکام ہے۔

یہاں بھی خواص نے کالانعاموں کے دماغوں میں بٹھایا بلکہ اس سے پہلے اوروں نے بھی کچھ نہ کچھ بٹھا کر دوڑایا ہے جیسا کہ ہم نے موروثی جمہوریت اورروٹی کپڑا اورمکان والے، اسلام جمہوریت اور سوشلزم والے نے دوڑایا تھا بلکہ ان میں بہت سارے اب بھی دوڑ رہے ہیں، اس گاڑی سے چمٹے ہوئے ہیں جو ’’عربستان‘‘ کاکہہ کر چلی تھی اوراس کارخ ترکستان کی طرف تھا ، ہے اوررہے گا ۔

جہاں جمہوریت ابھی ان کے گھر کے دروازے تک بھی نہیں پہنچ پائی، کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ چلے تھے چین اورپہنچ گئے جاپان ۔ لیکن کھوپڑیوں میں کچھ ہوتو سوچیں اورآنکھیں کھلی ہوں تو دیکھ پائیں جب وہ خواص کے ٹرانس میں ہوں تو خواص تو ۔ پھر ایک کہانی یاد آگئی۔کہتے ہیں ایک ملک پر ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی چنانچہ شاہی حکومت نے عوام کابراحال کردیا تھا۔

 آخر عوام میں ایک تحریک اٹھی جلسے جلوسوں دھرنے ، ہاؤ ہو ، آخر لوگ کسی بانی یاقائد عوام کی سربراہی میں اٹھ کھڑے ہوئے اورشاہی محل کے سامنے دھرنادے دیا جس میں بھوک سے خودکشی کرنے والوں کی لاشیں بھی لائی گئی تھیں بھوک پیاس بے روزگاری اورسرکاری اہل کاروں کے مارے ہوئے زخمی بیمار اوربرے حالوں والے لوگ بھی تھے۔

سارے مرد عورتیں منہ سرپیٹ رہے تھے ، آہ و بکاکررہے تھے ، ایک قیامت کاسماں تھا۔محل کی طرف سے کچھ لوگ آئے اورہجوم سے کہا کہ تم اپنا ایک نمایندہ چن کر ہمارے ساتھ کردو جو تمہاری فریاد بادشاہ تک پہنچائے ، بانی اور قائد ان کے ساتھ ہولیا۔ محل کی پہلی منزل پر پہنچ کر شاہی اہل کاروں نے کہا کہ اوپر جانے سے پہلے تم اپنے ’’عام کان‘‘ ہمارے سپرد کردو ہم تمہیں کان دے دیں گے کہ شاہی خدمت میں عوامی کان ممنوع ہیں۔

 اس نے کان دے دیے جب وہ اوپر سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو اس نے سنا کہ باہرہجوم سے آہ وبکا کے بجائے ڈھول تاشوں اورشہنائیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔

 یہاں اس سے آنکھیں بدلنے کو کہا گیا، شاہی آنکھیں لگا کروہ سیڑھیاں چڑھنے لگا تو یہاں اس نے شیشے سے دیکھا کہ باہرجلوس میں لوگ زرق برق لباس پہنے ناچ گا رہے ہیں اورلاشوں کی جگہ عروسی ڈولیاں نظر آرہی تھی ، لوگ گلے میں پھولوں کے ہارڈالے ناچ گارہے تھے۔اگلے مرحلے میں اسے شاہی زبان لگا دی گئی اورجب وہ آخری منزل میں پہنچا تو سامنے شاہ والا اوراس کے درباریوں کو ناؤ نوش میں مصروف دیکھ کر وہ ان میں شامل ہوگیا اور خواص بن گیا۔کالانعاموں کاگڈریا ، مہاوت اورخالی کھوپڑیوں کا ڈرائیور۔

 خالی کھوپڑیوں کا کیا ہے ان میں کوئی کچھ بھی بھر کر زندہ باد مردہ باد کرواسکتا ہے کہ خالی کھوپڑیوں کے نہ تو اندر کچھ ہوتا ہے نہ باہرآنکھیں ، صرف کان ہوتے ہیں جن میں ان کو متحرک کرنے والا بٹن ہوتا ہے اوراس بٹن کو کوئی بھی کسی بھی نعرے سے آن کرسکتا ہے ۔

 یہ مینڈیٹ وینڈیٹ کچھ بھی نہیں مینڈیٹ تب ہوگا جب کوئی پچاس فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کرے اورصرف اس طبقے سے نہ ہو جو پہلے ہی سلیکٹیڈ ہوتا ہے کہ رادھا کو اپنے آنگن میں وہی نچا سکتا ہے جس کے پاس نومن تیل ہوتا ہے چلتے پھرتے کنوؤں کا، باقی سب مایا جال ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوتا ہے رہے ہیں ا نکھیں یہاں ا کے لیے

پڑھیں:

اور اب قطر نشانے پر ہے

وہ جو کہتے ہیں کہ کسی بھی لڑائی میں سب سے پہلی ہلاکت سچائی کی ہوتی ہے۔موجودہ اسرائیلی جارحیت نے اس مقولے کو گزشتہ پونے تین برس میں ایک بار نہیں بیسیوں بار سچ کر دکھایا ہے۔

پہلا جھوٹ جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے دو روز بعد نو اکتوبر دو ہزار تئیس کو سامنے آیا جب اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ حماس کے حملہ آوروں نے چالیس بچوں کے سر قلم کر دیے اور کئی عورتوں کو ریپ کیا۔اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی آنکھیں بند کر کے ان الزامات کو کم از کم دو بار توتے کی طرح دھرایا۔ آج تک ان الزامات کے حق میں ایک ثبوت بھی سامنے نہیں لایا جا سکا۔یہ اتنا سفید جھوٹ تھا کہ اب اسرائیلی بھی اسے دوہرانے سے کتراتے ہیں۔

غزہ کے اسپتالوں کو یہ کہہ کر تباہ کیا گیا کہ یہ شفا خانے نہیں بلکہ حماس کے کنٹرول روم ہیں۔یہاں حماس اپنا اسلحہ ذخیرہ کرتی ہے اور ان عمارتوں کے نیچے خفیہ سرنگیں ہیں۔ان اسپتالوں کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کو گرفتار کر کے حماس کی ’’ اسپتالی ‘‘ فوجی سرگرمیوں کے بارے میں انتہائی پرتشدد پوچھ گچھ کی گئی۔ متعدد ڈاکٹر اور پیرا میڈکس تشدد کے سبب شہید ہو گئے۔بہت سے اب بھی عقوبت خانوں میں ہیں یا انھیں رہائی کے بعد ڈرون بمباری کر کے پورے پورے کنبے سمیت شہید کر دیا گیا۔مگر اصل دعوی کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔

تیسرا بدترین الزام اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انرا پر عائد کیا گیا کہ اس کے بارہ ملازم سات اکتوبر کی دہشت گردی میں شریک تھے۔اس الزام پر امریکا ، یورپی یونین حتی کہ جاپان نے بھی آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا۔اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے تحت انرا کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر مقبوضہ علاقوں میں اس کے گوداموں ، دفاتر ، صحت مراکز اور اسکولوں کو یا تو سربمہر کر دیا یا تباہ کر دیا۔

آج تک ان بارہ ’’ دہشت گردوں ‘‘ کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں لایا گیا۔کچھ مغربی ممالک نے اپنی جھینپ مٹانے کے لیے چند ماہ بعد انرا کی امداد بحال کر دی۔مگر اب یہ امداد کس کام کی جب ستتر برس سے فلسطینیوں کی غذائی ، طبی اور تعلیمی لائف لائن بنے رہنے والے اس ادارے کا اسرائیل نے ایک سفید جھوٹ کی رسی سے گھلا گھونٹ دیا ہے۔

یہ دیدہ دلیر اسرائیلی کذب بیانی اور الزامات کی چند جھلکیاں ہیں جو فلسطینیوں کی نسل کشی میں سہولت کے لیے مسلسل گھڑے جا رہے ہیں۔

تازہ ترین نشانہ وہ مصالحت کار ممالک ہیں جو حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کے لیے ابتدا سے متحرک ہیں۔ اس ہفتے کے شروع میں اسرائیلی چینل بارہ نے پہلا نشانہ قطر کو بنایا ۔دعوی کیا گیا کہ اسرائیلی فوج کو ’’ کسی عمارت یا سرنگ سے ‘‘ ایسی حساس دستاویزات ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قطر جو بظاہر غیر جانبدار ثالث ہے دراصل حماس کی ’’ دہشت گردی ‘‘ کا پشت پناہ ہے۔

ان دستاویزات میں مبینہ طور پر حماس کے مقتول رہنماؤں اسماعیل حانیہ اور یحیی شنوار کے نوٹس کے علاوہ قطری قیادت سے حماس لیڈرشپ کی ملاقاتوں کا احوال اور ترکی ، ایران اور قطر سے حماس کے روابط اور مصر کی پالیسی سے ناخوشی ظاہر کرنے والے کاغذات بھی ہیں ۔ان تفصیلات سے چینل بارہ نے یہ نتیجہ نکالا کہ قطر حماس کا ’’ شریکِ جرم ‘‘ ہے۔

قطر نے ان ’’ انکشافات ‘‘ کو یکسر جعلی اور امریکا اور قطر کے خصوصی تعلقات میں شگاف ڈالنے اور فلسطینیوں کو کسی بھی طرح کی علاقائی ثالثی اور مدد سے مکمل محروم کرنے کی سستی سازش قرار دیا ہے۔

 قطر اگر یہ وضاحت نہ بھی کرتا تو مجھ جیسے عقل سے پیدل کے ذہن میں بھی یہ ’’ انکشافات ‘‘ پڑھنے کے بعد پہلا سوال یہی آیا کہ وہ اسرائیل جو ہائی ٹیک دنیا کا جانا مانا لیڈر ہے مگر اس کے پاس ایک بھی اچھا اسکرپٹ رائٹر نہیں جو جھوٹ کو سچ کا ایسا لبادہ پہنا سکے جس پر پوری نہیں تو کم ازکم آدھی دنیا تو یقین کر ہی لے۔

ان ’’ انکشافات ‘‘ کے پیچھے اصل کہانی یہ ہے کہ ان دنوں عدلیہ کے حکم پر اسرائیلی تفتیشی ادارے نیتن یاہو کے اسٹاف کے دو ارکان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں کہ انھوں نے اسرائیلی میڈیا میں مصر کی ساکھ نیچے کرنے اور قطر کا امیج ابھارنے کے لیے قطری حکام سے پیسے لیے ہیں۔

’’ قطر گیٹ ‘‘ کے ملزموں میں وزیرِ اعطم نیتن یاہو کے سابق مشیر جوناتھن اوریک اور سابق ترجمان ایلی فیلڈشٹائن ہیں۔ان کے خلاف منی لانڈرنگ ، رشوت ، فراڈ ، غیر ملکی ایجنٹوں سے روابط اور سرکاری اعتماد پامال کرنے کے الزامات بھی زیرِ تفتیش ہیں۔

خود ان دونوں ملزموں کے باس نیتن یاہو کو بھی کرپشن کے متعدد سنگین الزامات کا سامنا ہے۔اگر وزیرِ اعظم سرکاری عہدے پر نہ رہیں تو جیل بھی جا سکتے ہیں۔اسی لیے بقول اسرائیلی حزبِ اختلاف اپنی گردن بچانے کے لیے نیتن یاہو ہر صورت میں جنگی ماحول برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

قطر پر تازہ الزامات کا تعلق نیتن یاہو کے اسی ’’ کھال بچاؤ ‘‘ ڈرامے سے ہے۔مگر ان الزامات میں اس لیے بھی دم نہیں لگتا کہ سب دنیا جانتی ہے کہ قطر ان چند ممالک میں شامل ہے جو فلسطینی اتھارٹی کو اپنے پاؤں پر کھڑا رکھنے کے لیے اسرائیل کی رضامندی سے مالی امداد دیتے ہیں۔

قطر سات اکتوبر سے پہلے غزہ میں حماس انتظامیہ کے ملازمین کو بطور فلسطینی اتھارٹی کے کارکن تنخواہوں کا بجٹ فراہم کرتا رہا ہے۔اس کے علاوہ غزہ میں ایندھن ، صحت اور تعلیم کے کئی منصوبے بھی قطر کی امداد سے رواں تھے۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ حماس کی جلاوطن قیادت قطر میں مقیم رہی ہے۔شام کے معزول حکمران بشار الاسد اور ترکی نے بھی حماس کی قیادت کو ملک میں رہنے کی اجازت دی۔یہ راز بھی سب جانتے ہیں کہ ایران اور حزب اللہ حماس کے کھلے حمائیتی ہیں۔ قطر کی شام اور لیبیا سمیت مختلف عرب ریاستوں میں اپنی حامی ملیشیاؤں کی پشت پناہی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔

ساتھ ہی ساتھ قطر امریکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ٹرمپ کے حالیہ دورے میں قطر اور امریکا کے درمیان ایک اعشاریہ دو کھرب ڈالر کے اقتصادی اور دفاعی خریداری کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔قطر نے امریکی صدر کو ایک طیارہ ’’ بطور ایرفورس ون ‘‘ تحفے میں پیش کیا ۔ایسے میں اسرائیلی ذرایع ابلاغ میں حماس کی ’’ دھشت گردی ‘‘ میں قطری سرمایہ کاری کی خبریں کامیڈی کے اس ادنی معیار پر بھی پوری نہیں اتر رہیں جن پر کوئی بھی شخص ہنسنا تو دور بمشکل مسکرا بھی سکے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا دوسرا جہاز گوادر پہنچ گیا
  • اسرائیل کا دوسرا نشانہ پاکستان ہو سکتا ہے: اسد قیصر
  • سیاست میں خواتین کا کردار
  • ڈاکٹر کون سا؟(دوسرا حصہ)
  • اور اب قطر نشانے پر ہے
  • وزیراعلیٰ سندھ کا 1400 ملین سے انفارمیشن ٹیکنالوجی پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا اعلان
  • ہم دل و جان سے ممنون ہیں
  • مایا نگری کے مایاوی ہیرو (پہلا حصہ)
  • فریڈم فلوٹیلا