مایا نگری کے مایاوی ہیرو (دوسرا اور آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
ایک کہانی یاد آ رہی ہے بلکہ کہانی نہیں تاریخی واقعہ ہے جو بہت سے لوگوں کو معلوم بھی ہے ۔کسی جگہ حکومت کے دودعویداروں میں جنگ کی صورت حال پیدا ہوئی، دونوں کی فوجیں ایک دوسری کے مقابل صف آراء ہوگئیں تو کچھ بزرگوں نے درمیان میں پڑ کر معاملے کو بغیر خون خرابے کے سلجھانے کی تگ ودو شروع کی۔
ان امیدواروں میں جو حق دارتھا وہ مالی لحاظ سے کمزورلیکن تقویٰ کے لحاظ سے برترتھا ، ثالث دونوںکیمپوں میں آتے جاتے رہے ۔صلح کی بات چیت چل رہی تھی تو لوگوں نے دیکھا کہ ان ثالث بزرگوں میں ایک کھانے کے وقت ایک کیمپ میں جاتے تھے اورنماز کے لیے دوسرے کیمپ آجاتے تھے۔ کسی نے پوچھا حضرت یہ کیا؟آپ ہمیشہ کھانے کے لیے ’’وہاں‘‘ جاتے ہیں اورنماز کے لیے یہاں آجاتے ہیں تو حضرت نے سادہ لوحی سے بتایا کہ ’’کھانا‘‘ وہاں کااچھا ہوتا ہے اورنماز یہاں کی اچھی ہوتی ہے ۔
یہاں بھی وہی سلسلہ ہے دوسری پارٹیوں میں بے شک کوئی نظریہ ہوکوئی پروگرام ہوکوئی مشہور یامخلص باکردار لیڈرہوں لیکن ’’کھانا‘‘ یہاں اچھا ملتا ہے ، اس لیے کھانے کے شوقین تو وہاں جائیں گے جہاں کھانا اچھا ملنے کی توقع ہو۔
رخ مری جانب نگاہ لطف دشمن کی طرف
وہ ادھردیکھا کیے گویا ادھر دیکھا کیے
ہم سارے عوام کی بات نہیں کررہے ہیں سارے عوام بیچارے تو صدیوں سے دماغی عدم استعمال کے مارے ہوئے ہیں، وہ بیچارے تو بجا طور پر کالانعام کہلاتے ہیں اگر کوئی ان سے کہے کہ کتا تیرا کان لے گیا ہے تو وہ اپنا کان دیکھے بغیر پہلے کتے کے پیچھے دوڑ پڑیں گے اورکتا مارنے کے بعد اپنا ہاتھ کان دیکھنے کے لیے اٹھائیں گے ۔
وہ ایک لطیفہ بھی ہے کہ ایک شخص حجام کی دکان میں شیو بنوا رہا تھا تو اچانک باہر بازار میں شور اٹھا کہ جمال تیرے گھر میں آگ لگی ہے وہ شخص سب کچھ پھینک کر دوڑ پڑا کافی دیر دوڑنے کے بعداچانک رک گیا اورخود سے کہنے لگا مگر میں تو جمال نہیں ہو، اور واپس لوٹ پڑا ۔ چنانچہ ان کو تو بتایا گیا ہے بلکہ ان کی خالی اورعدم استعمال سے زنگ آلود ہونے والی کھوپڑیوں میں بٹھایا گیا ہے کہ تم صرف جسم استعمال کرو، دماغ استعمال کرنا تمہارا نہیں ’’خواص‘‘ کاکام ہے۔
یہاں بھی خواص نے کالانعاموں کے دماغوں میں بٹھایا بلکہ اس سے پہلے اوروں نے بھی کچھ نہ کچھ بٹھا کر دوڑایا ہے جیسا کہ ہم نے موروثی جمہوریت اورروٹی کپڑا اورمکان والے، اسلام جمہوریت اور سوشلزم والے نے دوڑایا تھا بلکہ ان میں بہت سارے اب بھی دوڑ رہے ہیں، اس گاڑی سے چمٹے ہوئے ہیں جو ’’عربستان‘‘ کاکہہ کر چلی تھی اوراس کارخ ترکستان کی طرف تھا ، ہے اوررہے گا ۔
جہاں جمہوریت ابھی ان کے گھر کے دروازے تک بھی نہیں پہنچ پائی، کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ چلے تھے چین اورپہنچ گئے جاپان ۔ لیکن کھوپڑیوں میں کچھ ہوتو سوچیں اورآنکھیں کھلی ہوں تو دیکھ پائیں جب وہ خواص کے ٹرانس میں ہوں تو خواص تو ۔ پھر ایک کہانی یاد آگئی۔کہتے ہیں ایک ملک پر ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی چنانچہ شاہی حکومت نے عوام کابراحال کردیا تھا۔
آخر عوام میں ایک تحریک اٹھی جلسے جلوسوں دھرنے ، ہاؤ ہو ، آخر لوگ کسی بانی یاقائد عوام کی سربراہی میں اٹھ کھڑے ہوئے اورشاہی محل کے سامنے دھرنادے دیا جس میں بھوک سے خودکشی کرنے والوں کی لاشیں بھی لائی گئی تھیں بھوک پیاس بے روزگاری اورسرکاری اہل کاروں کے مارے ہوئے زخمی بیمار اوربرے حالوں والے لوگ بھی تھے۔
سارے مرد عورتیں منہ سرپیٹ رہے تھے ، آہ و بکاکررہے تھے ، ایک قیامت کاسماں تھا۔محل کی طرف سے کچھ لوگ آئے اورہجوم سے کہا کہ تم اپنا ایک نمایندہ چن کر ہمارے ساتھ کردو جو تمہاری فریاد بادشاہ تک پہنچائے ، بانی اور قائد ان کے ساتھ ہولیا۔ محل کی پہلی منزل پر پہنچ کر شاہی اہل کاروں نے کہا کہ اوپر جانے سے پہلے تم اپنے ’’عام کان‘‘ ہمارے سپرد کردو ہم تمہیں کان دے دیں گے کہ شاہی خدمت میں عوامی کان ممنوع ہیں۔
اس نے کان دے دیے جب وہ اوپر سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو اس نے سنا کہ باہرہجوم سے آہ وبکا کے بجائے ڈھول تاشوں اورشہنائیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔
یہاں اس سے آنکھیں بدلنے کو کہا گیا، شاہی آنکھیں لگا کروہ سیڑھیاں چڑھنے لگا تو یہاں اس نے شیشے سے دیکھا کہ باہرجلوس میں لوگ زرق برق لباس پہنے ناچ گا رہے ہیں اورلاشوں کی جگہ عروسی ڈولیاں نظر آرہی تھی ، لوگ گلے میں پھولوں کے ہارڈالے ناچ گارہے تھے۔اگلے مرحلے میں اسے شاہی زبان لگا دی گئی اورجب وہ آخری منزل میں پہنچا تو سامنے شاہ والا اوراس کے درباریوں کو ناؤ نوش میں مصروف دیکھ کر وہ ان میں شامل ہوگیا اور خواص بن گیا۔کالانعاموں کاگڈریا ، مہاوت اورخالی کھوپڑیوں کا ڈرائیور۔
خالی کھوپڑیوں کا کیا ہے ان میں کوئی کچھ بھی بھر کر زندہ باد مردہ باد کرواسکتا ہے کہ خالی کھوپڑیوں کے نہ تو اندر کچھ ہوتا ہے نہ باہرآنکھیں ، صرف کان ہوتے ہیں جن میں ان کو متحرک کرنے والا بٹن ہوتا ہے اوراس بٹن کو کوئی بھی کسی بھی نعرے سے آن کرسکتا ہے ۔
یہ مینڈیٹ وینڈیٹ کچھ بھی نہیں مینڈیٹ تب ہوگا جب کوئی پچاس فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کرے اورصرف اس طبقے سے نہ ہو جو پہلے ہی سلیکٹیڈ ہوتا ہے کہ رادھا کو اپنے آنگن میں وہی نچا سکتا ہے جس کے پاس نومن تیل ہوتا ہے چلتے پھرتے کنوؤں کا، باقی سب مایا جال ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتا ہے رہے ہیں ا نکھیں یہاں ا کے لیے
پڑھیں:
امریکی یورپی ’’ٹیرف یونین‘‘کا دوسرا رخ: عالمگیریت کے زوال کا خمیازہ کون بھرے گا؟
واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے 15 فیصد شرح محصولات پر معاہدہ کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت یورپی یونین پہلے کی نسبت امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرے گی، امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری بڑھائے گی اور 150 ارب ڈالر کی امریکی توانائی مصنوعات خریدے گی۔ یورپی کمیشن کی صدر وان ڈیر لیین نے کہا کہ یورپی یونین اور امریکہ دونوں 15 فیصد یکساں شرح محصولات پر متفق ہو گئے ہیں، جس میں گاڑیوں سمیت دیگر تمام اقسام کی اشیا شامل ہوں گی۔ وان ڈیر لیین نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ یہ تجارتی معاہدہ مارکیٹ میں استحکام لائےگا۔ اسی دن امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ صدر ٹرمپ نے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک کا دروازہ کھول دیا ہے، یورپی یونین اپنی 20 ٹریلین ڈالر کی مارکیٹ کو کھولے گی اور پہلی بار مکمل طور پر امریکی گاڑیوں اور صنعتی معیارات کو قبول کرے گی۔تاریخی تناظر میں ، امریکہ اور یورپ کے تجارتی تعلقات ہمیشہ ’’حلیف‘‘اور ’’حریف‘‘کی دوہری شناخت کے گرد ڈولتے رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں، سٹیل اور ایلومینیم کے محصولاتی تنازعات سے لے کر ڈیجیٹل سروس ٹیکس کی دوڑ تک، بحر اوقیانوس کے پار تجارتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوئی۔ اس دفعہ امریکہ کے لیے 600 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کا وعدہ اور 150 ارب ڈالر کی توانائی مصنوعات کی خریداری، نہ صرف امریکہ کی گھریلو مینوفیکچرنگ میں روزگار کے دباؤ کو کم کر سکتی ہے بلکہ توانائی کی برآمدی برتری کو بھی مضبوط بنا سکتی ہے، جو ٹرمپ کی ایک حکمت عملی کی فتح سمجھی جا سکتی ہے۔ البتہ یورپی یونین کا حساب کتاب بھی پیچیدہ ہے۔ توانائی کی خودمختاری اور سلامتی خدشات کے دہرے دباؤ کے تحت، امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری سے قلیل مدت میں دفاعی خودمختاری کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے، جبکہ یکساں شرح محصولات سے لڑکھڑاتی یورپی گاڑیوں کی صنعت کو استحکام مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جرمن گاڑیوں کی صنعت یورپی یونین کے جی ڈی پی کا 4 فیصد ہے، اور کوئی بھی تجارتی اتھل پتھل یوروزون کی معیشت کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ وان ڈیر لیین کا زور “مارکیٹ استحکام” پر درحقیقت توانائی کے بحران اور معاشی کساد بازاری کے خطرے سے دوچار یورپ کے لیے کچھ سانس لینے کی جگہ حاصل کرنا ہے۔تاہم، اس معاہدے کے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 15 فیصد کی یکساں شرح محصولات عارضی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان توازن کا نقطہ نظر لگتی ہے، لیکن یہ عالمی تجارتی نظام کے لیے منفی اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ جب امریکہ اور یورپ محصولات پر “متحدہ محاذ” تشکیل دیتے ہیں، تو عالمی سپلائی چینز مخصوص خطوں میں مرتکز ہونے لگتی ہیں، جو ڈبلیو ٹی او کے عدم امتیاز کے اصولوں کی صریح نفی ہے۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ معاہدے میں “امریکی توانائی مصنوعات کی خریداری” کی اصطلاح واضح تجارتی رجحان کی حامل ہے، جو “فرینڈ شورنگ” کے رجحان کو مزید تقویت دے کر عالمی مارکیٹ کی ڈسٹری بیوشن کارکردگی کو کم کر سکتی ہے۔ظاہر ہے ، جب ڈبلیو ٹی او کا تنازعات کے حل کا میکانزم غیر فعال ہے، تو بڑی طاقتوں کے درمیان دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے قواعد و ضوابط طے کرنے کا رجحان مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ “کلب نما” قواعد سازی مخصوص فریقوں کے درمیان کچھ اختلافات کو جلدی حل کر سکتی ہے، لیکن اس سے عالمی تجارتی نظام کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ ہے — ترقی یافتہ ممالک اپنی مذاکراتی صلاحیت کے بل پر “اعلیٰ معیار” کے قواعد کا حلقہ بنا لیں گے، جبکہ ترقی پذیر ممالک کو مختلف قواعد کے نظاموں سے خود کو مشکل سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔مستقبل میں، اس معاہدے کے استحکام کا انحصار ایک طرف تو امریکہ اور یورپ کے اندرونی سیاسی ماحول کے توازن پر ہے — ٹرمپ کو قدامت پسندوں کے لیے “امریکہ فرسٹ” کے اثرات ثابت کرنے ہوں گے، جبکہ وان ڈیر لیین کو یورپی یونین کے اندر فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کے مفادات کے فرق کو سنبھالنا ہوگا۔ دوسری طرف یہ عالمی تجارتی نظام پر منحصر ہے کہ وہ اتھل پتھل میں کسی حد تک متحرک توازن برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ علاقائی معاہدوں کو خصوصی گروہوں میں بدلنے سے کیسے بچایا جائے، یہ پالیسی سازوں کی عقل کا امتحان ہے۔اس غیر یقینی کے دور میں، امریکہ اور یورپ کے درمیان ہونے والا یہ محصولاتی سمجھوتہ درحقیقت عالمی میدان میں طاقت اور مفادات کی کشمکش کا تسلسل ہے۔ جب امریکہ اور یورپ “کلب نما” معاہدوں کے ذریعے ڈبلیو ٹی او کے کثیر جہتی فریم ورک کو کمزور کرتے ہیں، تو ترقی پذیر ممالک کو’’ قواعد قبول کرنے‘‘اور’’پیچھے رہنے‘‘ کے درمیان مشکل انتخاب کرنا پڑتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عالمگیر چیلنجز اور انسانی ہم نصیب معاشرے کے مستقبل کے سامنے ،کسی بھی یکطرفہ حکمت عملی کی سوچ دانش مندی نہیں ہے۔ توازن کی قیود سے ہٹ کر کیے گئے کسی بھی تجارتی انتظام کا اثر آخرکار اس کے استحکام کو ہی نقصان پہنچاتا ہے، اور اس امریکی یورپی محصولاتی معاہدے سے بھی یہی ہوتا نظر آتا ہے ۔بہرحال، مجھے اب بھی یقین ہے کہ گلوبلائزیشن کی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ ایک زیادہ پیچیدہ طریقے سے دوبارہ لکھی جا رہی ہے۔
Post Views: 6