ڈگریوں سے متعلق بات رہی تھی سو آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ آپ کو مغربی ڈگریوں کے بارے میں بھی بتاتے چلیں۔
انگلستان کی کالونی رہنے کی وجہ سے ہمارا نظام انہی کا بنایا ہوا ہے۔ تربیتی کورس، کتابیں سب کچھ وہیں سے لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے بننے سے پہلے لوگ انگلستان جا کر تربیت حاصل کرتے تھے اور وہیں سے امتحان پاس کرتے تھے۔ ہر مضمون کے امتحان کے لیے ایک کالج ہے جس کا نام اس مضمون کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ جیسے گائنی والوں کے لیے رائل کالج آف گائناکالوجی اینڈ آبسٹیٹرکس۔ سرجری کے لیے رائل کالج آف سرجنز، اینستھیسیا کے لیے رائل کالج آف اینستھزیویالوجی۔
ڈگریوں کے نام بھی رائل کالج کی مناسبت سے رکھے گئے ہیں جیسے اگر کوئی گائنی کا امتحان پاس کرے گا تو اسے ایم آر سی او جی MRCOG کی ڈگری ملے گی جو مخفف ہے Member of Royal College of gynaecology andObstetrics.
ایم آر سی اوجی MRCOG ڈگری متبادل ہے پاکستانی ڈگری ایف سی پی ایس FCPS کے۔
ایم آر سی او جی ڈگری کے بعد ایف آر سی او جی کی ڈگری دی جاتی ہے اور اس کا انحصار کسی امتحان پر نہیں بلکہ ریسرچ اور تجربے پر ہوتا ہے۔
کسی زمانے میں انگلستانی ڈگریاں بہت اہم اور مقدم قرار دی جاتی تھیں کہ حاصل کرنے والا ڈاکٹر کڑے مراحل سے گزرتا تھا۔ تربیتی پروگرام انتہائی کٹھن اور طویل، پروفیسرز کی کڑی نگہداشت اور مشکل امتحان۔ اس کا ثبوت وہ پروفیسرز حضرات ہیں جو ہماری پیڑھی سے قبل انگلستان سے بڑے ڈاکٹرز بن کر آئے اور ہماری پیڑھی کو تربیت دی۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا اللہ خان، ہیڈ آف گائنی ڈیپارٹمنٹ نشتر ہسپتال اس کی اعلیٰ مثال ہیں۔ طویل عرصہ انگلستان میں کام کر کے واپس لوٹے اور ڈاکٹرز کو تربیت دینے پہ کمر کس لی۔ ان کی سمجھائی ہوئی باتیں آج بھی دل پہ لکھی ہیں۔
مگر پھر وہ سنہرا دور خواب ہوا۔ انگلستان میں بھی پیسے کمانے کی ہوا چلی اور انہوں نے اپنی ڈگری کا وہ حال کیا کہ ٹکے کے بھاؤ سیر ملنے لگیں۔
اس بات کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ ایم آر سی او جی کا امتحان کوئی بھی ایسا ڈاکٹر دے سکتا ہے جس نے باقاعدہ طور پہ تربیتی پروگرام میں حصہ نہ لیا ہو۔ مرکز صحت پہ او پی ڈی کرنے والے ڈاکٹر بھی کسی نہ کسی سینئیر ڈاکٹر سے درخواست پہ دستخط کروا کر امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں۔ امتحان بہت سی کتابوں کا رٹا مار کر پاس کیا جا سکتا ہے، عملی امتحان بھی ریہرسل کر کے پاس کیا جاتا ہے بلکہ مارکیٹ میں ایسے بہت سے کورسز موجود ہیں، جو یہ امتحان پاس کروانے کی تیاری کرواتے ہیں۔
امتحان پاس ہو گیا ، ڈاکٹر کے پاس ڈگری بھی آ گئی مگر کیاڈاکٹر کے پاس قابلیت بھی ہے؟
ہمارا جواب نفی میں ہے۔
گلف میں رہنے والے مختلف ممالک کے ڈاکٹر ایم آر سی او جی MRCOG پاس کرتے ہیں کہ یہاں رہتے ہوئے نہ فیس بھرنا مشکل ہے، نہ امتحان میں بیٹھنا۔ دو چار بار میں ڈگری مل ہی جاتی ہے مگر اس کے بعد … اس کے بعد وہ مقام آتا ہے جہاں پہ پر جلتے ہیں۔
ہم نے عمان میں رہتے ہوئے جتنے بھی اسپتالوں میں کام کیا ہے، وہاں پہ موجود بیشتر جونئیر ڈاکٹروں نے ہمارے سامنے ایم آر سی او جی کا امتحان پاس کیا۔ کتابی علم بہت آتا تھا مگر مریض کے ساتھ کرنا کیا ہے، وہ زیرو۔ اس لیے کہ عمان میں دوسرے ملکوں سے آنے والے سروس ڈاکٹرز کو ٹریننگ میں جانے کی اجازت نہیں۔ جو کچھ سیکھنا ہے، اپنے ملک سے سیکھ کر آؤ، عمانی تربیتی پروگرام صرف عمانی ڈاکٹرز کے لیے ہے۔
انہیں دیکھ کر ہم اکثر سوچتے تھے کہ جب یہ سب اپنے اپنے ملک جائیں گے اور نام کے ساتھ انگلستانی ڈگری کا پھندنا ٹکا ہو گا، تب مریض کس قدر Impressed ہوں اور جوق در جوق علاج کے لیے آئیں گے تب ڈگری کا بھرم کیسے رکھا جائے گا، شاید ان مریضوں کے سر پہ جنہیں میڈیکل کی اے بی سی نہیں آتی۔
آج کل ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایم آر سی او جی ڈاکٹر ایسی بھی ہیں کہ جن پہ ہم نے پابندی لگا رکھی ہے کہ وہ آپریشن تھیٹر میں نہیں گھسیں گی۔ ان کو ایک بار مریض کا آپریشن کرتے دیکھا تھا اور وہ انسانی جسم کے جس قدر ’پرخچے‘ اُڑا رہی تھیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم بے ہوش ہوتے ہوتے بچے تھے۔
اسی تناظر میں پاکستانی ڈاکٹر بھی دیکھ لیجیے۔ ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ سب کو کام نہیں آتا ہو گا، لیکن جو کہانیاں ہم مریضوں سے سنتے ہیں اس کے بعد ہمیں تشویش سی ہونے لگتی ہے کہ اسپیشلائزیشن میں ہونے والی تربیت کا معیار کیا ہے؟
علاج کے لیے آنے والے مریض دو طرح کے ہوتے ہیں، بلیک اینڈ وائٹ اور گرے۔ بلیک اینڈ وائٹ مریض میں سب علامات چیخ چیخ کر بتا رہی ہوتی ہیں کہ بیماری کیا ہے؟ ان کی تشخیص کوئی نابینا بھی کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر کا امتحان ہوتا ہے گرے کیس، جہاں کچھ علامات ہوتی ہیں، کچھ نہیں، روایتی کیس سے ہٹ کر بہت کچھ ہو گا۔ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ دو تین بیماریوں کی کچھ علامات سامنے آئیں جو عام طور پہ دیکھنے میں نہ آتی ہوں۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا مریض ڈاکٹر نے کبھی دیکھا ہی نہ ہو مگر ڈاکٹر کی پرابلم سولونگ سکل اس قدر کمال پہ ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی معمے کو کامیابی سے حل کرے۔
سرجری میں بھی یہی اصول سامنے آتا ہے۔ آسان کیسسز حلوہ ہوتے ہیں جنہیں ہر کوئی خوشی خوشی کھا لیتا ہے لیکن دانتوں چنے چبوانے والے کیسسز کو کوئی نہیں کرنا چاہتا، سب جان چھڑوانے کی پالیسی پہ چلتے ہوئے مریض کے ساتھ پنگ پانگ کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کی تربیت اس نہج پہ کیوں نہیں ہوتی؟
مریض کسی وقت بھی آسان سے مشکل حالت میں جا سکتا ہے، کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹری ایک مشکل میدان ہے سو اس میں صرف ان کو آنا چاہیے جو اپنے مریض سے محبت کریں، نہ کہ فائل کی طرح اسے کبھی ادھر پٹخیں، کبھی اُدھر۔
آج کے لیے اتنا ہی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایم آر سی او جی امتحان پاس رائل کالج کا امتحان سکتا ہے کالج آف کے ساتھ ہیں کہ کیا ہے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
وزیراعلیٰ سندھ کا 1400 ملین سے انفارمیشن ٹیکنالوجی پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا اعلان
کراچی:سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے 1400 ملین سے پیپلز انفارمیشن ٹیکنالوجی پروگرام(پی ٹی ٹی پی) کے دوسرے مرحلے کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پی ٹی ٹی پی حکومت سندھ کا فلیگ شپ منصوبہ ہے، پیپلز انفارمیشن ٹیکنالوجی پروگرام این ای ڈی، کراچی، مہران اور سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف 14 ہزار 428 طلبہ کی تربیت تھا لیکن ہدف عبور کرتے ہوئے 14 ہزار 565 طلبہ کو تربیت دی، اسی طرح 4 ہزار 503 این ای ڈی کے طلبہ، مہران یونیورسٹی کے 4 ہزار 504 طلبہ اور آئی بی اے سکھر کے 4 ہزار 558 طلبہ نے تربیت حاصل کی۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ طالبات کی شرکت قابل ستائش رہی، پی ٹی ٹی پی کے دوسری مرحلے کا آغاز 1400 ملین سے کیا جا رہا ہے، جس کے تحت 12 جدید آئی ٹی کے شعبوں ڈیٹا سائنس، مصنوعی ذہانت، سائبر سیکیورٹی سمیت دیگر شعبوں میں 35 ہزار طلبہ کو تربیت دی جائے گی۔