Jasarat News:
2025-11-03@16:11:57 GMT

ہیٹ ویو: خطرہ یا انتباہ؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

ہیٹ ویو: خطرہ یا انتباہ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اب محض ایک سائنسی اصطلاح یا عالمی ماحولیاتی بیانیے تک محدود نہیں رہے، بلکہ یہ ہماری روزمرہ زندگی کی تلخ حقیقت بن چکے ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی لپیٹ میں ہے، اور یہ تبدیلیاں اب خطرناک حد تک شدت اختیار کر چکی ہیں۔ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ، غیر متوقع موسم، اور بار بار آنے والی شدید ہیٹ ویوز اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم ایک ماحولیاتی ہنگامی صورتحال میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس بار جو گرمی کی شدت دیکھی گئی، وہ صرف ناقابل برداشت نہیں بلکہ ناقابل بیان ہے۔ اس کے اثرات صرف انسانوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ چرند پرند، جانور، فصلیں، درخت، حتیٰ کہ پانی کے ذخائر بھی اس شدت سے متاثر ہو رہے ہیں۔ انسانی معمولاتِ زندگی، معاشی سرگرمیاں، بچوں کی تعلیم، اور بزرگوں کی صحت — سب کچھ اس ماحولیاتی عدم توازن کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ دیہی علاقوں میں کسان شدید گرمی میں کھیتوں میں جانا محال سمجھتے ہیں، اور شہری علاقوں میں مزدور طبقہ جلتے سورج تلے روزگار کے لیے جدوجہد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ وقت سنجیدگی کا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اب صرف موسم کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ اپنی غفلت کے انجام پر کھڑے ہیں۔
پاکستان اس وقت جس موسمیاتی بحران سے گزر رہا ہے، وہ محض درجہ حرارت کے اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک اجتماعی ناکامی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے نسبتاً معتدل شہروں میں گرمی کی شدت نے 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا ہولناک ہندسہ عبور کیا، جو نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ یہ درجہ حرارت کسی ایک روز کی شدت نہیں بلکہ ایک مستقل رجحان بن چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ان ہیٹ ویوز کی شدت میں اضافہ صرف قدرتی عوامل کی وجہ سے نہیں ہو رہا، بلکہ اس میں سب سے بڑا کردار خود انسانی سرگرمیوں کا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنی روزمرہ زندگی کو اس انداز میں ڈھال لیا ہے کہ ماحول کو نقصان پہنچانا ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہماری شہری ترقی کا ماڈل ماحولیاتی
تباہی کی مثال بنتا جا رہا ہے۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی، کنکریٹ کا پھیلاؤ، گرین ایریاز کا سکڑ جانا، اور توانائی کا غیر دانشمندانہ استعمال، یہ سب عوامل ہمارے شہروں کو ’’اربن ہیٹ آئی لینڈ‘‘ میں تبدیل کر چکے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہر، جہاں کبھی راتیں خنک ہوا کرتی تھیں، اب رات گئے بھی گرمی کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ ہوا میں نمی کم، درجہ حرارت زیادہ، اور دھوپ میں جلن کا احساس، یہ سب موسمیاتی تبدیلی کی وہ علامتیں ہیں جنہیں ہم مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔
حکومتی سطح پر بھی صورتحال مایوس کن ہے۔ موسمیاتی ایمرجنسی کو اب تک سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ اربن پلاننگ سے لے کر پبلک ہیلتھ سسٹمز تک، ہر شعبے میں ایک واضح حکمت عملی کی کمی ہے۔ مقامی حکومتیں عارضی شیلٹرز یا پانی کی سبیلیں قائم کرنے تک محدود ہو چکی ہیں، جبکہ قومی سطح پر موسمیاتی پالیسی یا تو کاغذی حد تک موجود ہے یا مکمل غیر موثر۔ نہ کوئی مضبوط قانون سازی ہے، نہ ہی اس پر عمل درآمد۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بیش تر حکومتی منصوبے یا تو فائلوں کی نظر ہو جاتے ہیں یا سیاسی نمائش کی نذر۔ لیکن سارا الزام حکومت پر ڈالنا بھی غیر منصفانہ ہوگا، کیونکہ عام شہری بھی اس تباہی میں برابر کا شریک ہے۔ ہمیں نہ تو توانائی کے کفایت شعاری کا شعور ہے، نہ پانی بچانے کی سنجیدگی، نہ ہی درختوں کی اہمیت کا ادراک۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو گرمی سے ستائے ہوئے ماحول میں خود سے ایک درخت لگا کر اس زمین کو کچھ لوٹانے کا سوچتے ہیں؟ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرکے ایندھن کے دھویں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں؟ زیادہ تر شہری موسمیاتی مسئلے کو محض خبروں کا ایک عنوان سمجھتے ہیں، جس سے ان کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ یہی لاعلمی اور بے حسی ہمیں اس مقام تک لے آئی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوام دونوں اپنی اپنی سطح پر موثر اور مستقل اقدامات اٹھائیں۔ زمینی سطح پر فوری طور پر ہر محلے، گاؤں اور شہر میں ہیٹ ویو الرٹ سسٹم قائم کیا جائے، مقامی سطح پر درخت لگانے کی مہم کو صرف تشہیر تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ہر شہری کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے گھر یا گلی میں کم از کم ایک پودا لگائے اور اس کی دیکھ بھال کرے۔ پانی کے ضیاع پر سخت قوانین نافذ کیے جائیں، اور گھروں میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے نظام متعارف کروائے جائیں۔ سرکاری اور نجی اداروں میں شمسی توانائی کا استعمال لازمی قرار دیا جائے تاکہ بجلی کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
طویل مدتی حل کے طور پر حکومت کو ماحولیاتی تبدیلی کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر لینا ہوگا۔ اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں ماحولیاتی تحفظ کو شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل اس خطرے کو سنجیدگی سے سمجھے۔ اربن ڈیولپمنٹ پالیسی میں گرین زون، پارک، اور سبز چھتیں شامل کی جائیں، اور ایسی عمارتیں تعمیر کی جائیں جو ماحولیاتی اعتبار سے کم نقصان دہ ہوں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو جدید، سستا اور ماحول دوست بنایا جائے تاکہ گاڑیوں کا بے ہنگم استعمال کم ہو اور فضا میں زہریلی گیسوں کا اخراج کم ہو۔
عام شہریوں کو بھی اپنی ذمے داریاں نبھانا ہوں گی۔ ہر فرد اپنے طور پر توانائی کی بچت، پانی کی حفاظت، اور صفائی کا خیال رکھے۔ گھروں میں غیر ضروری برقی آلات کا استعمال کم کیا جائے، کھلے مقامات پر شجرکاری کو فروغ دیا جائے، اور ضعیف افراد، بچوں اور بیماروں کا خاص خیال رکھا جائے۔ شدید گرمی کے دنوں
میں ہم سب پر لازم ہے کہ نہ صرف خود کو محفوظ رکھیں بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں۔ خاص طور پر مزدور، گھریلو ملازمین، اور راہ چلتے مسافروں کو پانی، سایہ اور آرام کی سہولت دیں۔ چھوٹے اقدامات، جیسے اپنے دروازے پر ایک مٹی کا گھڑا رکھ دینا، کسی کو گرمی میں بیٹھا دیکھ کر چھتری دینا، یا کسی بزرگ کو پانی کی بوتل دینا، ایک نئی روایت کا آغاز بن سکتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر آج ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عملی قدم نہ اٹھایا، تو آنے والا کل ہمیں محض گرمی سے نہیں، بلکہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کر دے گا۔ گرمی اب موسم کا نام نہیں رہا۔ یہ ایک تنبیہ ہے، ایک انتباہ ہے، اور اگر ہم نے اسے نظر انداز کیا تو کل کے پاکستان میں سانس لینا بھی شاید عیاشی سمجھا جائے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں، اپنی زمین سے وفا کریں، اور اس زمین کو آنے والی نسلوں کے لیے زندہ رکھنے کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی کیا جائے تک محدود کی شدت

پڑھیں:

غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-2

 

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل  آئی نے تاریخ رقم کردی
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • ماں کے دورانِ حمل کووڈ کا شکار ہونے پر بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ پایا گیا، امریکی تحقیق
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور